محب وطن پاکستان
ایک محب وطن شاعر جو سالہا سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
PRAGUE:
گزشتہ دنوں بیرون پاکستان سے یکے بعد دیگرے ڈاک موصول ہوئی۔ یہ خطوط اور تحریریں ان حضرات کی تھیں جو پاکستانی ہیں لیکن حصول معاش کے لیے وطن سے دور رہ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لیکن دل و دماغ دیس کی محبت سے سرشار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملکی سطح پر کوئی بھی دردناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو ان کی روح گھائل ہوجاتی ہے، انھیں اپنے ملک سے پیار اور ملک کی ترقی کے لیے ہر لمحہ کسی نہ کسی طریقے سے کوشاں رہتے ہیں، اپنی محنت و مشقت کی کمائی سے اسکول، اسپتال بنانا اور غریبوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا کیا جائے، اپنے ہی لوگ قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں، کبھی ڈاکہ پڑ جاتا ہے تو کبھی جھوٹے مقدموں میں پھنسا دیا جاتا ہے اس طرح ان کی ساری جمع پونجی سربازار لوٹ لی جاتی ہے۔
ایسے ہی ایک محب وطن شاعر جو سالہا سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں، کئی سال گزرے جب انھوں نے اپنا شعری مجموعہ عنایت کیا تھا، ان کی مکمل شاعری اسلام اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے ہے۔ انھوں نے سیرت پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر جنگوں کا حال اور صحابہ کرام کے حالات زندگی کو منظوم طریقے سے بیان کیا ہے۔
حال ہی میں ملنے والی تحریر اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں، انھوں نے پاکستان کی حالت زار خصوصاً تعلیمی زوال اور بچوں کی محنت مزدوری کے حوالے سے خامہ فرسائی کی ہے، ان کا نام عمر برناوی ہے۔ ان کے مضمون سے دو اقتباسات کا انتخاب کیا ہے، تاکہ قارئین کو پڑھ کر اندازہ ہوجائے کہ دوسرے ملکوں میں رہنے والوں کو اپنے ملک کے مسائل کا کس قدر ادراک ہے، ایک طرف تپتی دھوپ میں سخت محنت طلب کام کرتے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہم وطنوں کے لیے کچھ کرنے کے جذبے کے ساتھ ساتھ حکومت کی نااہلی اور رعایا کی تکالیف کا بھی غم ہے، جس کا اظہار معتبر قلمکار عمر برناوی نے اس طرح کیا ہے۔
ہمارے ہاں سرکاری سطح پر تو کوئی تعلیمی پالیسی ہے ہی نہیں کہ جس کے ذریعے ملک کے نونہالوں کو محب وطن اور پرامن شہری بنایا جاسکے اور ان کی رہنمائی کے لیے ایسے اصول وضع کیے جائیں کہ جن پر عمل کرکے وہ دین و دنیا کی تعلیم اور طور طریقوں سے آشنا ہو سکیں، نام نہاد مولویوں نے بھی دین کو بدنام کیا ہے، شرعی لباس پہنا اور مدرسہ کھول لیا، انھیں تجوید و مخارج اور قرآنی تعلیم کے بارے میں ذرہ برابر آگاہی نہیں بس حفظ و ناظرہ کی تعلیم دینی شروع کردی۔
دنیاوی تعلیم کا بھی اتنا ہی برا حال ہے کہ جس کے پاس جتنا سرمایہ ہے، اس کے مطابق گلی محلوں میں اسکول کھول کر بیٹھ گئے اور والدین اچھی عمارت اور انگلش میڈیم کے الفاظ لکھے دیکھ کر بڑی آسانی سے فریب میں آجاتے ہیں، وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جب بچہ اردو ہی صحیح طرح سے نہیں سیکھ سکا ہے تو بھلا انگریزی میں دوسرے مضامین کس طرح پڑھ سکے گا، جب کہ دوسرے ممالک میں اپنی قومی زبان سے اتنی ہی محبت ہوتی ہے جتنی محبت اپنے ملک یا کسی عزیز ترین شے سے ہوتی ہے، جس کا چھوڑنا محال ہے۔
ہندوستان کو ہی لے لیجیے کہ وہ اپنی مردہ زبان سنسکرت کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے۔ جو خود اس کے ملک میں نہ کہیں بولی جاتی ہے اور نہ سمجھی جاتی ہے۔ اس نے ایسی پالیسی بنائی ہے کہ یوپی صوبے میں تو میٹرک تک ہندی زبان کے ساتھ لازمی سنسکرت پڑھائی جاتی ہے۔ سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر اردو رسم الخط کو تو ختم ہی کردیا ہے۔
اب تو حال یہ ہے کہ مساجد و مدارس میں بھی نام کی تختیاں، ضروری ہدایات اور قبروں پر نصب کرنے والی سلیں اور کتبے سب ہندی رسم الخط میں ہیں، جسے دیوناگری کہتے ہیں لکھ کر لگائی جاتی ہیں، وہ اشوک اور گپت عہد کی عظمت کو اب دیکھ کر آگے بڑھ رہا ہے اور ہم نے اردو، عربی اور فارسی جیسی زبانوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
اسرائیل بھی اپنی مردہ زبان عبرانی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور حضرت داؤد و سلیمان علیہ السلام کے زمان کی عظمت کو موجودہ دور میں دیکھنے کے لیے جتن کر رہا ہے اور ایک ہم ہیں جو خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ عمر برناوی کی نظم سے چند اشعار، ان کی شاعری میں بھی وطن کی محبت سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے:
اے میرے پیارے وطن تیری ہواؤں کو سلام
تاج میں تیری سجیں ان کہکشاؤں کو سلام
وادی میں گرتے تیرے چاندی جیسے آبشار
تجھ پہ میں قربان تیری ہر ادا پر میں نثار
اے صبا پہنچا وہاں تک تو میرا سب کو سلام
اے میرے پیارے وطن تیری ہواؤں کو سلام
عمر برناوی نے اپنے مضمون میں مولویوں کا تذکرہ کیا تو مجھے وہ مولوی یاد آگئے جن کے لیے کہاوت ہے کہ نیم ملا خطرہ ایمان لیکن آج کل صورت حال بڑی مختلف ہے۔ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، حج و عمرے کی ادائیگی سے غافل نہیں ہیں، قرآن اور قرآن کی تفسیر پڑھتے ہیں، امتحانات دیتے ہیں (وفاق کے) اور پھر مفتی جیسے عہدے کی سند وصول کرتے ہیں۔
اپنے نام کے ساتھ مفتی کا صیغہ لگاتے ہیں، مولانا لکھتے اور انھی القابات سے پکارے جاتے ہیں، لیکن عمل برعکس ہے، دینی فہم اور فہم القرآن کی روشنی سے بہت دور ہیں ایسی باتوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، مولانا حامد کاظمی اور حج کرپشن کی کہانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ مفتی قوی اور قندیل بلوچ کے چرچے سرعام ہیں۔
قندیل بلوچ قتل ہوئی، اللہ اسے مغفرت اور مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے، مفتی قوی کو گرفتار کرلیا گیا ہے، اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ عدالت لایا گیا، شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر اتنی بات ضرور کہنی ہے کہ کم ازکم اپنے مرتبے کا ہی لحاظ کرلیا کریں، اپنے ہاتھوں اپنا دین و دنیا برباد کرنا وقتی خوشی اور باعث تسکین تو ہوسکتا ہے دائمی نہیں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ علما کی حیثیت ایک درس گاہ کی ہوتی ہے، جہاں لوگ سیکھنے آتے ہیں لیکن جب مفتیان دین اور مولانا حضرات خود ہی جیلوں میں جارہے ہوں تو دوسروں کو راہ مستقیم کس طرح دکھا سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن بھی اپنی نیک خواہشات کی تکمیل میں بہت نام کما چکے ہیں اور اب بھی ماشا اللہ بڑے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مولانا تقی عثمانی اور مولانا شبیر عثمانی، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا حکیم اختر جیسے اعلیٰ حضرات نے دین کی خدمت کی اور ہزاروں گمراہ لوگوں کو حق پرستی کی طرف مائل کیا۔ بے شمار لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو بظاہر دیندار ہیں۔ نہ مفتی ہیں اور مولوی کے درجے پر فائز ہیں لیکن اپنے عمل کے باعث دکھی انسانیت کی خدمت کرنے میں پیش پیش ہیں مخلوق خدا کے کام آنا عبادت ہے اس طرح بغیر کسی طمع کے اپنے رب کی خوشنودی کے لیے دن رات کام کرتے ہیں جوکہ برطانیہ کے شہری عمربرناوی کی طرح پاکستانی خاتون روبینہ سعید بھی ہیں دامے درمے، سخنے اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہیں، ماضی کی اور موجودہ حکومت کی وجہ سے ملک کا استحکام متزلزل ہوا۔
مہنگائی اور علاج معالجے کی عدم سہولتوں نے لوگوں کو موت کے منہ میں پہنچادیا پاکستانیوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ چھین لیا ہے، یہ دکھ مسز روبینہ سعید کو بھی بے چین رکھتا ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں فلاحی کام کرتی رہتی ہیں، بیرون ملک رہتے ہوئے بھی ان کا دل و دماغ پاکستان میں زندگی بسر کرتا ہے، باہر رہنے والے بھی اپنے ملک کے حالات اور مقتدر حضرات اور ان کی گھٹیا حرکات پر، جن کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانیوں کے وقار میں کمی آئی ہے ہر لمحہ شرمندہ اور پریشان رہتے ہیں، لیکن اہل اقتدار ہر احساس سے عاری ہوکر اپنا کام کیے جا رہے ہیں کہ بس انھیں تو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے سونے کے تابوت بنانے ہیں۔