اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کی دوسری ڈیڈ لائن بھی ختم
تحریک لبیک کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس، حکومت کی تمام تجاویز مسترد کردیں
وفاقی دارالحکومت میں تحریک لبیک کی زیر قیادت مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری ہے اور احتجاج ختم کرنے کیلئے دی گئی دوسری مہلت بھی ختم ہوگئی ہے۔
اسلام آباد میں تحریک لبیک کی زیر قیادت مذہبی کارکنوں کا دھرنا جاری ہے۔ دھرنے کے شرکا ختم نبوت سے متعلق آئینی شقوں میں ردو بدل کرنے والوں کے خلاف کارروائی، وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ، گرفتار کارکنوں کو رہا اور قائدین پر مقدمات ختم کرنے کے مطالبات کررہے ہیں۔ حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کے چار دور ناکام ہوچکے ہیں اور آج دوبارہ بات چیت کا امکان ہے۔
آج دھرنا قائدین کے خلاف ایف سی اہلکار پر تشدد کے الزام میں ایک اور مقدمہ درج کرلیا گیا جس کے نتیجے میں ان کیخلاف درج مقدمات کی تعداد 17 ہو گئی ہے۔ پولیس کے مطابق مظاہرین نے ہفتہ کے روز آئی ایٹ کے علاقے میں ایف سی اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب رات گئے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفرالحق کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد اور دھرنا قائدین کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے لیکن ڈیڈلاک برقرارہا اور تاحال مسئلے کے حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
ادھر دھرنا دینے والی جماعتوں کی مرکزی مجلس شوریٰ نے وفاقی وزیر قانون کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ زاہد حامد کے استعفے کے نوٹیفکیشن کے بعد ہی مذاکرات آگے بڑھیں گے۔ تحریک لبیک پاکستان کے سر براہ علامہ خادم حسین رضوی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زاہد حامد کے استعفے سے پہلے مذاکرات نہیں مذاق کیا جارہا ہے،مطالبات پورے ہونے تک دھرنا ختم نہیں کیاجائیگا۔ جب تک حکومت وفاقی وزیر کا استعفی یا جو اس میں ملوث ہے اس کو بے نقاب کر کے کاروائی نہیں کرتی۔
دھرنا منتظمین نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے ان کے کارکنان کو زخمی کیا گیا ہے ایک کی حالت خراب بتائی جارہی ہے۔اس حوالے سے زخمی کارکنان کو میڈیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا ۔وفاقی دارالحکومت میں مذہبی جماعتوں کا دھرناآج چودویں روز بھی جاری ہے،حکومت کی جانب سے دی جانے والی مہلت بھی ختم ہو گئی ہے۔
پاکستان کی حکمراں جماعت کے چیرمین راجا ظفرالحق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کو ختم کرانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ دھرنے کی وجہ سے پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان آمد و رفت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا فوری طور پر ختم کرانے کا حکم جاری کیا ہے جب کہ حکومت طاقت کے استعمال سے قبل اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مرحلے پر یقینی طور سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان کوششوں میں کب اور کیسے کامیابی ہوگی۔
وفاقی حکومت کے حکم پرچاریوم قبل فیض آبادمیں ممکنہ آپریشن کے لئے ہائی الرٹ کروائی گئی ساڑھے 4000 سے زائدپولیس نفری بھی تھکنے لگی ہے اوراب تک ڈیڑھ سوسے زائد پولیس اہلکارموسم کی تبدیلی اورخشکی کی وجہ سے ناسازی طبعیت کاشکارہوچکے ہیں ۔ اس ضمن میں وفاقی پولیس کے ایک سینئرآفیسرنے ایکسپریس کو بتایاکہ وفاقی پولیس نے پچھلے چاردنوں سے ممکنہ آپریشن کی ہرپہلوسے تمام ترتیاریاں مکمل کی ہوئی ہیں اورانہیں صرف وفاقی حکومت کی جانب سے حتمی حکم کاانتظارہے۔ وفاقی پولیس کو آپریشن میں زیادہ سے زیادہ دوسے تین گھنٹے درکارہیں لیکن حکومت کسی کابھی کسی بھی قسم کاجانی نقصان نہیں چاہتی اورمعاملات کوافہام وتفہیم کیساتھ حل کرنے کی پالیسی پرعمل پیراہے.
یہ بھی پڑھیں: کوشش ہے کہ دھرنا مذاکرات کے ذریعے ختم کرایا جائے، وزیر داخلہ
دوسری جانب اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ختم نبوت کے معاملے پر کوئی مسلمان اور حکومت سمجھوتا نہیں کرسکتی، ختم نبوت کے حوالے سے قانون مزید سخت ہوگیا تاہم دھرنے والے سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کررہے ہیں، عوام کے جذبات کو بھڑکارہے ہیں جب کہ لوگوں کو مشتعل کرنا مناسب نہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم نے دھرنے والوں سے ہر سطح پر مذاکرات کیے اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جب کہ حکومت نے بھی صبرو تحمل اور ضبط کا سہارا لیا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ معاملے پر کوئی کشیدگی پیدا ہو، پاکستان کی پارلیمنٹ اور عوام ختم نبوت کے محافظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے والوں سے اپیل ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد احتجاج ختم کردیں، کیونکہ دھرنے سے بیرون ملک پاکستان کا منفی تاثر جارہا ہے، دھرنے سے تاثر جارہا ہے کہ قوم ختم نبوت پر تقسیم ہے تاہم ختم نبوت پر کوئی تقسیم نہیں سب متفق ہیں۔
واضح رہے کہ مذہبی جماعتوں نے فیض آباد انٹرچینج پر 14 روز سے دھرنا دے رکھا ہے جس کے باعث شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا ختم کرانے کے لیے ہفتے کی صبح 10 بجے تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے حکومت رینجرز کو آپریشن کا حکم دے سکتی ہے۔ تاہم وزیر داخلہ احسن اقبال نے آپریشن کو 24 گھنٹے کے لیے موخر کردیا تھا۔
اسلام آباد میں تحریک لبیک کی زیر قیادت مذہبی کارکنوں کا دھرنا جاری ہے۔ دھرنے کے شرکا ختم نبوت سے متعلق آئینی شقوں میں ردو بدل کرنے والوں کے خلاف کارروائی، وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ، گرفتار کارکنوں کو رہا اور قائدین پر مقدمات ختم کرنے کے مطالبات کررہے ہیں۔ حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کے چار دور ناکام ہوچکے ہیں اور آج دوبارہ بات چیت کا امکان ہے۔
آج دھرنا قائدین کے خلاف ایف سی اہلکار پر تشدد کے الزام میں ایک اور مقدمہ درج کرلیا گیا جس کے نتیجے میں ان کیخلاف درج مقدمات کی تعداد 17 ہو گئی ہے۔ پولیس کے مطابق مظاہرین نے ہفتہ کے روز آئی ایٹ کے علاقے میں ایف سی اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب رات گئے اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفرالحق کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد اور دھرنا قائدین کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے لیکن ڈیڈلاک برقرارہا اور تاحال مسئلے کے حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
ادھر دھرنا دینے والی جماعتوں کی مرکزی مجلس شوریٰ نے وفاقی وزیر قانون کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ زاہد حامد کے استعفے کے نوٹیفکیشن کے بعد ہی مذاکرات آگے بڑھیں گے۔ تحریک لبیک پاکستان کے سر براہ علامہ خادم حسین رضوی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زاہد حامد کے استعفے سے پہلے مذاکرات نہیں مذاق کیا جارہا ہے،مطالبات پورے ہونے تک دھرنا ختم نہیں کیاجائیگا۔ جب تک حکومت وفاقی وزیر کا استعفی یا جو اس میں ملوث ہے اس کو بے نقاب کر کے کاروائی نہیں کرتی۔
دھرنا منتظمین نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے ان کے کارکنان کو زخمی کیا گیا ہے ایک کی حالت خراب بتائی جارہی ہے۔اس حوالے سے زخمی کارکنان کو میڈیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا ۔وفاقی دارالحکومت میں مذہبی جماعتوں کا دھرناآج چودویں روز بھی جاری ہے،حکومت کی جانب سے دی جانے والی مہلت بھی ختم ہو گئی ہے۔
پاکستان کی حکمراں جماعت کے چیرمین راجا ظفرالحق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کو ختم کرانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ دھرنے کی وجہ سے پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان آمد و رفت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا فوری طور پر ختم کرانے کا حکم جاری کیا ہے جب کہ حکومت طاقت کے استعمال سے قبل اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مرحلے پر یقینی طور سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان کوششوں میں کب اور کیسے کامیابی ہوگی۔
وفاقی حکومت کے حکم پرچاریوم قبل فیض آبادمیں ممکنہ آپریشن کے لئے ہائی الرٹ کروائی گئی ساڑھے 4000 سے زائدپولیس نفری بھی تھکنے لگی ہے اوراب تک ڈیڑھ سوسے زائد پولیس اہلکارموسم کی تبدیلی اورخشکی کی وجہ سے ناسازی طبعیت کاشکارہوچکے ہیں ۔ اس ضمن میں وفاقی پولیس کے ایک سینئرآفیسرنے ایکسپریس کو بتایاکہ وفاقی پولیس نے پچھلے چاردنوں سے ممکنہ آپریشن کی ہرپہلوسے تمام ترتیاریاں مکمل کی ہوئی ہیں اورانہیں صرف وفاقی حکومت کی جانب سے حتمی حکم کاانتظارہے۔ وفاقی پولیس کو آپریشن میں زیادہ سے زیادہ دوسے تین گھنٹے درکارہیں لیکن حکومت کسی کابھی کسی بھی قسم کاجانی نقصان نہیں چاہتی اورمعاملات کوافہام وتفہیم کیساتھ حل کرنے کی پالیسی پرعمل پیراہے.
یہ بھی پڑھیں: کوشش ہے کہ دھرنا مذاکرات کے ذریعے ختم کرایا جائے، وزیر داخلہ
دوسری جانب اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ختم نبوت کے معاملے پر کوئی مسلمان اور حکومت سمجھوتا نہیں کرسکتی، ختم نبوت کے حوالے سے قانون مزید سخت ہوگیا تاہم دھرنے والے سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کررہے ہیں، عوام کے جذبات کو بھڑکارہے ہیں جب کہ لوگوں کو مشتعل کرنا مناسب نہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہم نے دھرنے والوں سے ہر سطح پر مذاکرات کیے اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جب کہ حکومت نے بھی صبرو تحمل اور ضبط کا سہارا لیا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ معاملے پر کوئی کشیدگی پیدا ہو، پاکستان کی پارلیمنٹ اور عوام ختم نبوت کے محافظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے والوں سے اپیل ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد احتجاج ختم کردیں، کیونکہ دھرنے سے بیرون ملک پاکستان کا منفی تاثر جارہا ہے، دھرنے سے تاثر جارہا ہے کہ قوم ختم نبوت پر تقسیم ہے تاہم ختم نبوت پر کوئی تقسیم نہیں سب متفق ہیں۔
واضح رہے کہ مذہبی جماعتوں نے فیض آباد انٹرچینج پر 14 روز سے دھرنا دے رکھا ہے جس کے باعث شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا ختم کرانے کے لیے ہفتے کی صبح 10 بجے تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے حکومت رینجرز کو آپریشن کا حکم دے سکتی ہے۔ تاہم وزیر داخلہ احسن اقبال نے آپریشن کو 24 گھنٹے کے لیے موخر کردیا تھا۔