نئی ایسٹ انڈیا کمپنی

ہمیں ایسے پاکستانی نہیں چاہئیں جو پاکستان میں رہنے کی قیمت وصول کرتے ہوں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

اگر میں غلط بھی ہوں تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ تاریخ کا پہیہ صحیح سمت میں گھوم رہا ہے اور گھوم پھر کروہیں پہنچ گیا ہے جب چند انگریز مصالحوں کے کاروبار کی غرض سے کلکتہ کی بند گاہ پر اترے تھے، بعد میں یہی مرچ مصالحے ہم پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں مسلط ہو گئے اور ہندوستان جس کو وہ سونے کی چڑیا سے تشبیہ دیتے تھے اس سونے کی چڑیا کے پر کاٹ کاٹ کر اپنے ملک انگلستان بھجواتے رہے اور آخر میں پوری چڑیا کو ہی قید کر کے اس پر قبضہ جما لیا اور ہندوستان کی دولت انگلستان منتقل کرنا شروع کر دی جب وہ یہ سمجھ گئے کہ اب اس ملک میں ان کے لیے مزید کوئی کشش باقی نہیں رہی تو وہ اس ملک کو اپنی مرضی سے دو مختلف نظریہ کی قوموں میں تقسیم کر کے اپنے آبائی وطن سدھار گئے تا کہ باقی ماندہ دولت پر مسلمان اور ہندو لڑتے رہیں اور انگریزوںکی آخری خواہش سمجھتے ہوئے ہم نے اس پر من و عن عمل کیا اور آزادی سے لے کر آج تک ہم آپس میں دست و گریبان رہ کر اپنے محدود وسائل کو جنگوں کی نظر کر چکے ہیں اور جو اس سے بچ جاتے ہیں ان سے اپنے پرانے حکمرانوں کے دیس میں جا کر جائیدادیں خرید کرتے ہیں اور پھر وہیں پر رہ کر کاروبار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

میں اس سے پہلے بھی ایک کالم میںایک انگریز کی لطیفہ نما یہ بات نقل کر چکا ہوں کہ جب اس نے اپنے ملک میں کثیر تعداد میں پاکستانیوں کو رہتے اور کاروبار کرتے دیکھا تو بے ساختہ کہنے لگا کہ جب آپ نے ہمارے پیچھے یہیں آجاناتھاتو ہمیں وہاں سے کیوں نکالا۔ اس کے ساتھ مجھے اپنی قومی اسمبلی کے ایک اسپیکر الٰہی بخش سومرو کی یہ بات بھی یاد آرہی ہے جب برطانیہ کی ملکہ الزبتھ پاکستان کے دورے پر آئیں تو اسپیکر موصوف نے ان کو ایک تقریب میں خوش آمدید کہتے ہوئے جھک کر کہا کہ ہم تو اب بھی اپنے آپ کو آپ کا غلام سمجھتے ہیں، یہ بات اخباری خبروں کی زینت بھی بنی مگر موصوف کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

دراصل وطن عزیز میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس ملک میں قیام کا خراج طلب کرتے ہیں اور یہ لوگ اشرافیہ یا ا س طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کو پاکستان نے مالدار بنایا ہے، وہ اپنی اس خوش حالی کے خمار میں سیاستدان بھی بن گئے ہیں۔ بہت پہلے کی بات ہے، ایک نواب جب احتساب کے شکنجے میں جکڑا گیا تو اس سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ نے نیب کو کروڑوں روپے دینے کو کہا ہے تو ان کاجواب تھا کہ میرے پا س اتنی رقم کہاں، اگر ہوتی تو میں پاکستان میں کیوں رہتا۔

بات یہ نہیں کہ ہمارے بااثر لوگ احتساب سے بچنے کے لیے سودا بازی کرتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ وہ ایک معقول رقم کے مالک ہونے کے بعد پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرتے ۔ اشرافیہ کا طبقہ کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتا ہو، وہ صرف عوام اور ملک کا استحصال کرنا جانتا ہے اور اسی استحصال پر زندہ ہے۔


اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے صرف اس وقت تک کسی ملک کے شہری کہلانا پسند کرتے ہیں جب تک وہ استحصال اور مراعات حاصل کرتے رہیں اور جب ان کا مطلب پورا ہو جاتا ہے تو وہ پاکستان سے ہی نفرت کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کو سو طرح کے عیب اپنے ملک میں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، ان کو ایسا پاکستان بالکل بھی پسند نہیں جس میں وہ لوٹ مار نہ کر سکیں ، انھیں تو ایسا پاکستان ہی پسند ہے جہاں وہ بادشاہ بن کر دندناتے پھریں اور کسی کی مجال نہ ہو کہ ان سے پوچھ گچھ کر سکے۔ وہ اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور اس ملک میں رہنا پسند بھی نہیں کرتے جہاں پر ان کی حکمرانی نہ ہو۔

کسی زمانے میں ایک حاکم اسکندر مرزا نے کہا تھا کہ مولویوں کا جہاز بھر کر انھیں بحیرہ عرب میں دھکیل دیا جائے، یہ ایک حاکم کا دیوانہ پن تھا لیکن اب ان کی بات صحیح لگتی ہے کہ اشرافیہ طبقے کو کسی جہاز میں بھر کر سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا جائے تا کہ ملک کی ان سے جان چھوٹ جائے، اس کے علاوہ چھٹکارے کا کوئی اور راستہ بھی نظر نہیں آتا۔ اشرافیہ طبقے کی لوٹ مار کو اب عوام اچھی طرح جان اورپہچان چکے ہیں اور ان سے تنگ بھی ہیں لیکن عوام کو ان سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

یہ طبقہ حکمرانی کے مزے تو پاکستان میں ہی لوٹنا چاہتا ہے لیکن اقتدار سے دوری کے بعد رہنا انگلستان میں ہی پسند کرتا ہے اور کاروبار کے لیے بھی ان ہی گوروں کو ترجیح دیتا ہے جو پہلے ہی ہمارا بہت کچھ لوٹ کر وہیں لے جا چکے ہیں اور اب ان کی دولت میں مزید اضافہ ہم نے وہاں پر کاروبار شروع کر رکھے ہیں جن پر ان کی حکومت کو پورا ٹیکس بھی دیتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ ان کافروں کے دیس میں گزارا ممکن نہیں جب کہ اپنے ملک میں ٹیکس چوری ہمارا وطیرہ ہے۔

ان دنوں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر جا چکی ہے جو وہاں پڑھ رہے ہیں یا نوکریاں کر کے ملک میں زرمبادلہ بھجوا رہے ہیں ، ان کی بات تو قابل فہم ہے کہ پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اس کی افرادی قوت کو باہر نوکریاں ملیں تا کہ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو لیکن جو لوگ یہاں سے دولت سمیٹ کر بھاگ گئے ہیں ،کیا حکومت پاکستان ان کی شہریت ختم نہیں کرسکتی۔ اس سے ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے جن کا کوئی ملک نہیں ہوتا، ان کا کچھ نہیں ہوتا، بے وطنی سے بڑا عذاب کوئی اور نہیں ۔ ہمیں ایسے پاکستانی نہیں چاہئیں جو پاکستان میں رہنے کی قیمت وصول کرتے ہوں۔

دراصل یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک نئی شاخ کے نمائندے ہیں جو انگلستان اور دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کر کے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پرپاکستان میں لوٹ مار کر کے بنائی گئی دولت سے انگلستان اور مغربی ممالک میں کاروبار چمکا رہے ہیں، ایسے کاروباری حکمرانوں سے عوام کو قطع تعلق کر لینا چاہیے کہ یہ نہ تو عوام کے ساتھ اور نہ ہی ملک کے ساتھ مخلص ہیں۔یہ نئی ایسٹ انڈیا کمپنی حکمرانوں کو ہی مبارک ہو۔
Load Next Story