کراچی کی باری
عبوری حکومت کے دور میں فوج کے ہاتھوں کراچی کو سوگ کی کیفیت سے نکالنے کا کام اضافی مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے۔
آخر کار کراچی کی باری آ ہی گئی۔ پاکستان کی طاقتور ریاست کے طاقتور ترین ادارے شائد اپنی مسلسل خاموشی سے خود گھبرا کر اب اس شہر کو پر امن بنانے کے لیے کوششوں کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف کی کراچی میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر کمانڈرز سے بریفنگ اور پھر کور کمانڈرز کی میٹنگز کے بعد چھپنے والی خبریں واضح اشارے ہیں کہ اب اس معاملے پر مزید تساہل سے کام نہیں لیا جائے گا۔ کراچی کو غیر قانونی اسلحے کے ڈھیر سے پاک کرنے اور ریاست کو یرغمال بنانے والے متعدد گروہوں کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا جا چکا ہے۔
ایک خبر یہ ہے کہ شروع میں دس یا بارہ بڑے جرائم کے مراکز متوقع آپریشن کی زد میں آ سکتے ہیں۔ یہاں کے زخم خوردہ رہائشیوں اور ملک کے محب وطن شہریوں کے لیے یہ تمام ممکنہ اقدامات امید اور حوصلے کا باعث ہو ںگے اور ہونے بھی چاہئیں۔ پاکستان کی معاشی شہ رگ عرصہ دراز سے قصائیوں کے قبضے میں ہے جو تمام ترتوانائی سے الٹی چھری پھیر کر ہر گلی میں تڑپتی ہوئی لاشیں ایسے پھینک رہے ہیں جیسے کوڑا کرکٹ۔ مگر ان اقدامات پر عمل درآمد کرانا آسان نہ ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ اس دوران کراچی میں بھڑکنے والا الائو مزید بھڑک جائے اور اسے بھڑکانے والے بھاگنے کے بجائے اس پر تیل پاشی کریں اور حالات بدتر کرنے کی سازش کو اور تقویت دی جا ئے۔
پہلی مشکل اس سیاسی مدد کے حصول سے متعلق ہے جس کے بغیر فوج اور ا نٹیلی جنس کے ادارے تمام تر سنجیدگی کے باوجود یہاں پر صفائی نہیں کر پائیں گے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پچھلے چھ سال کے دوران ملکی معاملات میں اپنا حصہ ڈالنے کا جو سخت معیار اپنائے رکھا ہے اس کا اب اصل امتحان ہو گا۔ جب تک سیاسی قیادت فوج کو کھلا ہاتھ نہیں دے گی، اس وقت تک کراچی کے حالات نہیں سدھریں گے۔
اس سیاسی اجازت کے بغیر جنرل کیانی اگر کام کرنا چاہیں گے تو یہ سوال یقیناً اٹھایا جا ئے گا کہ انھوں نے اتنا خون خرابہ ہونے کے بعد خو د پر لاگو کی ہو ئی بندش کو پھلانگنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور اگر سیاسی قیادت کی مرضی کے خلاف اب معاملات اپنے ہاتھ میں لیں گے تو پہلے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ یقیناً جنرل کیانی موجودہ سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ لیے بغیر کراچی میں کوئی آپریشن نہیں کریں گے۔
مگر پھر سیاسی دھڑے کیوں چاہیں گے کہ فوج نظم و نسق میں اپنی مداخلت بڑھائے؟ سندھ میں تمام سیاسی جماعتیں خون خرابہ کرنے والے گروہوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ ہر کسی کے پاس اپنی نجی ملیشیا ہے، قتل کرنے والے گروپ ہیں اور ان کے ذریعے کروڑوں روپوں کا کاروبار ہے۔ جس سے یہ جماعتیں اپنے اکابرین کی جیبیں بھرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ ایک مفصل نظام یہ ہے جس کو جنرل مشرف کے دور میں بالخصوص تقویت اور طاقت ملی اور پھر باقی کسر زرادری صاحب نے پوری کردی۔ اس منافع بخش قتل و غارت گری کے کاروبار کو کون ختم کرنا چاہے گا؟ اگر یہ ختم ہو گیا تو تمام سیاست کی بساط بدل جائے گی۔
دوسرے الفاظ میں سیاسی جماعتیں فوج کی طرف سے تجویز کیے گئے اقدامات سے خود کو علیحدہ کر کے اس مسئلے کو فوج اور سیاست دانوں کا جھگڑا بنا سکتی ہیں۔ پھر ذرایع ابلاغ میں اپنے مخصوص ایجنٹوں کے ذریعے یہ افواہیں پھیل دی جائیں گی کہ فوج کراچی کو سنبھالنے کے نام پر جمہوریت کا گلا دبا رہی ہے۔ فوجی کمان اس معمے میں مبتلا ہوچکی ہے جس کا وہ ابھی تک شکار رہے ہیں۔ یعنی وہ کونسی حد ہے جس کے پار فوج سیاسی قیادت کے بغیر خود سے قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی۔
اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ سندھ میں عبوری حکومت کے قیام تک انتظار کیا جا ئے اور انتخابات کو بہترین انداز سے کرانے کی آئینی ذمے داری نبھاتے ہوئے عبوری حکومت کے دیے گئے حکم کے تابع اس شہر کو جابروں کے ہاتھوں سے چھڑانے کے عمل کا آغاز کردیا جائے۔ یہ راستہ کم مشکل تو ہے مگر پھر بھی جس سیاسی جماعت پر ہاتھ ڈالا جا ئے گا وہی آہ و فریاد کا سلسلہ شروع کر کے انتخابات سے علیحدہ ہونے اور احتجاج کا راستہ اپنانے کی دھمکی دے گی۔ کراچی میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو اپنے اسلحہ خانوں اور قتل گاہوں کی جانب آتی ہوئی آہٹوں کو سنتے ہی بین الاقوامی اداروں کے سامنے نسل کشی کی آہ و بکاہ شروع کر دیں گی اور پھر مدد کے لیے باقاعدہ اقوام متحدہ کا رخ کریں گی۔
اس چالاکی کا مناسب جواب سوچے بغیرسوچے سمجھے دیا گیا تو عبوری حکومت کے دور میں فوج کے ہاتھوں کراچی کو سوگ کی کیفیت سے نکالنے کا کام اضافی مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسرا معاملہ عدلیہ کا بھی ہے جو کسی ماورائے قانون قدم کا سختی سے نوٹس لیتی ہے اور اپنا اختیار حتمی جانتی ہے۔ مگر ان تمام رکاوٹوں کے باوجود کراچی کو سیدھے راستے پر لانے کا بندوبست کرنا ہی ہو گا۔ تجزیوں اور تفکرات سے بھری ہوئی بات چیت کا وقت ختم ہو گیا۔ اگر اب ایکشن نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ کہیں یہ شہر ملیا میٹ ہی نہ ہو جائے گا۔
ایک خبر یہ ہے کہ شروع میں دس یا بارہ بڑے جرائم کے مراکز متوقع آپریشن کی زد میں آ سکتے ہیں۔ یہاں کے زخم خوردہ رہائشیوں اور ملک کے محب وطن شہریوں کے لیے یہ تمام ممکنہ اقدامات امید اور حوصلے کا باعث ہو ںگے اور ہونے بھی چاہئیں۔ پاکستان کی معاشی شہ رگ عرصہ دراز سے قصائیوں کے قبضے میں ہے جو تمام ترتوانائی سے الٹی چھری پھیر کر ہر گلی میں تڑپتی ہوئی لاشیں ایسے پھینک رہے ہیں جیسے کوڑا کرکٹ۔ مگر ان اقدامات پر عمل درآمد کرانا آسان نہ ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ اس دوران کراچی میں بھڑکنے والا الائو مزید بھڑک جائے اور اسے بھڑکانے والے بھاگنے کے بجائے اس پر تیل پاشی کریں اور حالات بدتر کرنے کی سازش کو اور تقویت دی جا ئے۔
پہلی مشکل اس سیاسی مدد کے حصول سے متعلق ہے جس کے بغیر فوج اور ا نٹیلی جنس کے ادارے تمام تر سنجیدگی کے باوجود یہاں پر صفائی نہیں کر پائیں گے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پچھلے چھ سال کے دوران ملکی معاملات میں اپنا حصہ ڈالنے کا جو سخت معیار اپنائے رکھا ہے اس کا اب اصل امتحان ہو گا۔ جب تک سیاسی قیادت فوج کو کھلا ہاتھ نہیں دے گی، اس وقت تک کراچی کے حالات نہیں سدھریں گے۔
اس سیاسی اجازت کے بغیر جنرل کیانی اگر کام کرنا چاہیں گے تو یہ سوال یقیناً اٹھایا جا ئے گا کہ انھوں نے اتنا خون خرابہ ہونے کے بعد خو د پر لاگو کی ہو ئی بندش کو پھلانگنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور اگر سیاسی قیادت کی مرضی کے خلاف اب معاملات اپنے ہاتھ میں لیں گے تو پہلے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ یقیناً جنرل کیانی موجودہ سیاسی قوتوں کو اپنے ساتھ لیے بغیر کراچی میں کوئی آپریشن نہیں کریں گے۔
مگر پھر سیاسی دھڑے کیوں چاہیں گے کہ فوج نظم و نسق میں اپنی مداخلت بڑھائے؟ سندھ میں تمام سیاسی جماعتیں خون خرابہ کرنے والے گروہوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ ہر کسی کے پاس اپنی نجی ملیشیا ہے، قتل کرنے والے گروپ ہیں اور ان کے ذریعے کروڑوں روپوں کا کاروبار ہے۔ جس سے یہ جماعتیں اپنے اکابرین کی جیبیں بھرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ ایک مفصل نظام یہ ہے جس کو جنرل مشرف کے دور میں بالخصوص تقویت اور طاقت ملی اور پھر باقی کسر زرادری صاحب نے پوری کردی۔ اس منافع بخش قتل و غارت گری کے کاروبار کو کون ختم کرنا چاہے گا؟ اگر یہ ختم ہو گیا تو تمام سیاست کی بساط بدل جائے گی۔
دوسرے الفاظ میں سیاسی جماعتیں فوج کی طرف سے تجویز کیے گئے اقدامات سے خود کو علیحدہ کر کے اس مسئلے کو فوج اور سیاست دانوں کا جھگڑا بنا سکتی ہیں۔ پھر ذرایع ابلاغ میں اپنے مخصوص ایجنٹوں کے ذریعے یہ افواہیں پھیل دی جائیں گی کہ فوج کراچی کو سنبھالنے کے نام پر جمہوریت کا گلا دبا رہی ہے۔ فوجی کمان اس معمے میں مبتلا ہوچکی ہے جس کا وہ ابھی تک شکار رہے ہیں۔ یعنی وہ کونسی حد ہے جس کے پار فوج سیاسی قیادت کے بغیر خود سے قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی۔
اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ سندھ میں عبوری حکومت کے قیام تک انتظار کیا جا ئے اور انتخابات کو بہترین انداز سے کرانے کی آئینی ذمے داری نبھاتے ہوئے عبوری حکومت کے دیے گئے حکم کے تابع اس شہر کو جابروں کے ہاتھوں سے چھڑانے کے عمل کا آغاز کردیا جائے۔ یہ راستہ کم مشکل تو ہے مگر پھر بھی جس سیاسی جماعت پر ہاتھ ڈالا جا ئے گا وہی آہ و فریاد کا سلسلہ شروع کر کے انتخابات سے علیحدہ ہونے اور احتجاج کا راستہ اپنانے کی دھمکی دے گی۔ کراچی میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو اپنے اسلحہ خانوں اور قتل گاہوں کی جانب آتی ہوئی آہٹوں کو سنتے ہی بین الاقوامی اداروں کے سامنے نسل کشی کی آہ و بکاہ شروع کر دیں گی اور پھر مدد کے لیے باقاعدہ اقوام متحدہ کا رخ کریں گی۔
اس چالاکی کا مناسب جواب سوچے بغیرسوچے سمجھے دیا گیا تو عبوری حکومت کے دور میں فوج کے ہاتھوں کراچی کو سوگ کی کیفیت سے نکالنے کا کام اضافی مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسرا معاملہ عدلیہ کا بھی ہے جو کسی ماورائے قانون قدم کا سختی سے نوٹس لیتی ہے اور اپنا اختیار حتمی جانتی ہے۔ مگر ان تمام رکاوٹوں کے باوجود کراچی کو سیدھے راستے پر لانے کا بندوبست کرنا ہی ہو گا۔ تجزیوں اور تفکرات سے بھری ہوئی بات چیت کا وقت ختم ہو گیا۔ اگر اب ایکشن نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ کہیں یہ شہر ملیا میٹ ہی نہ ہو جائے گا۔