مہنگا ترین حج پیکیج
کیٹیگری وائٹ کے تحت پیکیج 2 لاکھ 95 ہزار 80 روپے کا ہوگا اور رہائش حرم سے کم از کم 6 کلومیٹر دور ہو گی۔
پاکستان سے ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ بیشتر عازمین کی عمریں 50 سال سے زائد ہوتی ہیں جو زندگی میں صرف 1 مرتبہ یہ فریضہ انجام دیتے ہیں، وہ بھی تب جب ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ رقم ملتی ہے یا پھر بچے جوان ہوکر اپنے والدین کو حج کے لیے بھیجتے ہیں۔
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے پیکیجز ترتیب دیے جائیں جس کے نتیجے میں حجاج پر دیانتداری کے ساتھ صرف اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے جتنے اخراجات اس مبارک فریضے کی ادائیگی پر آتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ذی الحج اور رمضان المبارک ہی کمائی کے سیزن سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا ایئرلائنز کے لیے بھی ضروری ہے وہ منافع کمائیں اور حکام کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ مکہ اور مدینے میں رہائش کے لیے حاصل کی جانے والے عمارتوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں کی مد میں زیادہ سے زیادہ رقم وصول کی جائے۔ تفصیلات حج کرپشن اسکینڈل میں سامنے آچکی ہیں۔
2010 میں سامنے آنے والے اسکینڈل کے بعد خیال تھا کہ حکومت اپنا قبلہ درست کرلے گی اور معاملات کو زیادہ شفاف بنائے گی مگر اس کا کیا کیجیے کہ وفاقی وزیر نے کمال پھرتی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے حکومت کی مدت پورے ہونے سے محض 2 ہفتے پہلے ملکی تاریخ کے مہنگے ترین حج کا اعلان کردیا ہے اور ساتھ ہی پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر درخواستوں کی وصولی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ حالانکہ یہ کام نگراں حکومت بڑی تسلی اور آرام سے کرسکتی تھی مگر یہ اربوں روپے کا معاملہ جو ہے۔
آخری 3 سال میں منتخب حکومت نے حج پیکیجز اتنے مہنگے کردیے ہیں کہ اب قرعہ انداز ی کی نوبت ہی نہیں آتی حالانکہ پہلے مقررہ کوٹہ سے دگنی زائد درخواستیں موصول ہوتی تھیں۔ صرف 2008 میں حکومت کو سرکاری کوٹے کے لیے 1 لاکھ 49 ہزار 280 درخواستیں موصو ل ہوئی تھیں، جن میں سے قرعہ اندازی کے بعد 85 ہزار عازمین حج منتخب ہوئے مگر اب نوبت یہ ہے کہ حکومت درخواستیں وصول کرنے کی تاریخ گزرنے کے بعد بھی تاریخیں بڑھاتی رہتی ہے اور بمشکل تمام ہی درخواستیں پوری ہوتی ہیں۔ آئیے پہلے ملکی تاریخ کے مہنگے ترین حج پیکیج پر نظر ڈالتے ہیں۔
رواں سال حکومت نے 3 کیٹیگریز کا اعلان کیا ہے۔ کیٹیگری وائٹ کے تحت پیکیج 2 لاکھ 95 ہزار 80 روپے کا ہوگا اور رہائش حرم سے کم از کم 6 کلومیٹر دور ہو گی۔ 450 ریال قربانی کی مد میں بھی وصول کیے جائیںگے، قربانی کی رقم کی پیشگی وصولی کی بدعت محترم وزیر نے اسی سال ایجاد کی ہے۔ جب کہ مکہ اور مدینے میں 40 دن قیام کے دوران کھانے پینے اور ہلکی پھلکی خریداری کے لیے حجاج کو کم از کم 15 سو ریال خرچ کرنا ہوں گے۔ یوں کیٹیگری وائٹ کے تحت جانے والے حاجیوں کو اس سال حج کی مد میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 35 ہزار روپے سے زائد خرچ کرنا ہوں گے۔
کیٹیگری گرین کے تحت 3 لاکھ 61 ہزار روپے وصول کیے جائیں گے، یوں دیگر اخراجات ملا کر یہ پیکیج بھی 4 لاکھ روپے سے تجاوز کرجائے گا۔ بلیو کیٹیگری میں پیکیج 4 لاکھ 21 ہزار روپے کا ہوگا، مکہ اور مدینہ میں اخراجات کے لیے کم از کم 1500 ریال بھی رکھے جائیں تو مجموعی رقم 4 لاکھ 55 ہزار سے تجاوز کرجاتی ہے جب کہ رہائش پالیسی کے مطابق 1 کلومیٹر کے اندر ہوگی۔ یوں گزشتہ سال جو بلیو پیکیج دیگر اخراجات کے بغیر 3 لاکھ 19 ہزار کا تھا اب وہ 4 لاکھ سے تجاوز کرگیا ہے ۔ گزشتہ سال کے مقابلے میںکرایوں کی مد میں 12 سے 14 ہزار روپے سے زائد وصول کیے جائیں گے، حالانکہ صرف حج ٹکٹ کے لیے حجاج کرام سے پہلے ہی معمول کے ریٹرن ٹکٹ کے مقابلے میں کم از کم دگنا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔
اس بار وزیر موصوف نے قربانی یعنی دم شکرکی رقم بھی خود وصول کرنے کی بدعت بھی ایجاد کی ہے جس کے تحت 450 ریال فی حاجی وصول کیے جائیں گے۔ عموماً جوافراد حج پر جاتے ہیں وہ خود ہی مکہ پہنچ کر از خود قربان گاہ جا کر اپنے سامنے قربانی کرواتے ہیں تاکہ شک و شبے کی گنجائش نہ رہے، بعض احباب مقامی مدارس یا وہاں اپنے جان پہچان کے افراد سے بات کرکے اپنی استطاعت کے مطابق دنبہ یا بکرا بُک کرواتے ہیں اور قربانی کے وقت گروپ میں شامل افراد اپنے سامنے قربانی کروالیتے ہیں یا انھیں ٹیلیفون پر آگاہ کردیا جاتا ہے کہ قربانی ہوگئی ہے، آپ حلق یعنی سر منڈوا کر احرام کھول سکتے ہیں۔
اکثر حاجی وہاں قائم بینکوں سے قربانی کا ٹوکن خرید لیتے ہیں، بینک انھیں قربانی کا وقت بتاتے ہیں اور حجاج بتائے گئے وقت کے کچھ دیر بعد سر منڈوا کر احرام کھول لیتے ہیں۔ حجاج 350 ریا ل سے 400 ریال میں قربانی کروالیتے ہیں، مگر اب عازمین حج سے جدہ روانگی سے قبل 450 ریال وصول کیے جائیں گے، قربانی کب ہوگی؟ ہوگی بھی یا نہیں ہوگی؟ اور قربانی کے جانور کی اصل قیمت کیا ہوگی؟ یہ سب باتیں اب حجاج کا درد سر نہیں۔
عازمین حج جب پاکستان سے روانہ ہوتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجدالحرام میں گزارا جائے، روزانہ طواف کعبہ کیا جائے، کم ازکم پانچ وقت نماز اور تہجد باجماعت مسجد الحرام میں اداکی جائیں۔ مگر بیشتر عازمین حج کو حرم سے 6 کلومیٹر دور رہائش دی جاتی ہے اور وہ مجبور ہوتے ہیں کہ نمازیں مسجد الحرام کے بجائے قریبی مساجد میں ادا کریں۔ رہائش کے نام پر جو پیسے وصول کیے جاتے ہیں اگر بہتر منصوبہ بندی اور صاف نیتوں کے ساتھ استعمال کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حجاج کے لیے بہتر اور قریبی عمارتوں کا بندوبست کیا جاسکے۔ یہ رہائشی عمارتیں بھی کسی طرح معیاری نہیں ہوتیں، کمرے اتنے مختصر ہوتے ہیں کہ بس صرف بستر لگانے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ ہر سال جب حجاج وطن واپس آتے ہیں تو رہائشی عمارتوں کی حالت زار کا رونا ان کی زبانوں پر ہوتا ہے۔
اب ذرا ملکی تاریخ کے مہنگے ترین حج کا ماضی کی حج پالیسی سے تقابل کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اپنی پہلی حج پالیسی کا اعلان اگست 2008 میں کیا۔ حج پیکیج میں صرف ایک کیٹیگری تھی اور رقم 1 لاکھ 85 ہزار روپے تھی، اس وقت ریال کی قیمت 16 روپے تھی، جب کہ کل رقم یعنی 1 لاکھ 85 ہزار میں عازمین حج کو زرمبادلہ بھی فراہم کیا گیا۔ اس طرح اعلان کردہ پیکیج میں ہی حجاج نے تمام تر اخراجات (بمع قربانی اور خوراک) پورے کرلیے تھے، جب کہ تمام عازمین کو رہائش 2 کلومیٹر کی حدود میں دینے کا اعلان کیاگیا تھا۔
آج 5 سال بعد کل حج اخراجات بڑھ کر 3 لاکھ 35 ہزار (وائٹ کیٹیگری) سے 4 لاکھ 50 ہزار (بلیو کیٹیگری) تک پہنچ چکے ہیں، یعنی پانچ سال کے عرصے میںکم از کم دگنے۔ حکومتی موقف ہے کہ ریال کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ اگر غور کیا جائے تو 5 سال کے عرصے میں ریال کی قدر میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ حج اخراجات میں 100 سے 150 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ 2007 میں حج پیکیج تمام تر اخراجات کے ساتھ صرف 1 لاکھ 30 ہزار روپے کا تھا۔
اب آپ خود ہی حساب کرلیں کہ ریال 2010 میں 23 روپے کے مقابلے میں آج 26 روپے کا ہے مگر حج کے اخراجات 100 فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔ یہ ہے منتخب حکومت اور اس کے وزرا کے 5 سالہ دور میں عوام پر کیے گئے احسانات کی صرف ایک جھلک۔
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے پیکیجز ترتیب دیے جائیں جس کے نتیجے میں حجاج پر دیانتداری کے ساتھ صرف اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے جتنے اخراجات اس مبارک فریضے کی ادائیگی پر آتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ذی الحج اور رمضان المبارک ہی کمائی کے سیزن سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا ایئرلائنز کے لیے بھی ضروری ہے وہ منافع کمائیں اور حکام کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ مکہ اور مدینے میں رہائش کے لیے حاصل کی جانے والے عمارتوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں کی مد میں زیادہ سے زیادہ رقم وصول کی جائے۔ تفصیلات حج کرپشن اسکینڈل میں سامنے آچکی ہیں۔
2010 میں سامنے آنے والے اسکینڈل کے بعد خیال تھا کہ حکومت اپنا قبلہ درست کرلے گی اور معاملات کو زیادہ شفاف بنائے گی مگر اس کا کیا کیجیے کہ وفاقی وزیر نے کمال پھرتی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے حکومت کی مدت پورے ہونے سے محض 2 ہفتے پہلے ملکی تاریخ کے مہنگے ترین حج کا اعلان کردیا ہے اور ساتھ ہی پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر درخواستوں کی وصولی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ حالانکہ یہ کام نگراں حکومت بڑی تسلی اور آرام سے کرسکتی تھی مگر یہ اربوں روپے کا معاملہ جو ہے۔
آخری 3 سال میں منتخب حکومت نے حج پیکیجز اتنے مہنگے کردیے ہیں کہ اب قرعہ انداز ی کی نوبت ہی نہیں آتی حالانکہ پہلے مقررہ کوٹہ سے دگنی زائد درخواستیں موصول ہوتی تھیں۔ صرف 2008 میں حکومت کو سرکاری کوٹے کے لیے 1 لاکھ 49 ہزار 280 درخواستیں موصو ل ہوئی تھیں، جن میں سے قرعہ اندازی کے بعد 85 ہزار عازمین حج منتخب ہوئے مگر اب نوبت یہ ہے کہ حکومت درخواستیں وصول کرنے کی تاریخ گزرنے کے بعد بھی تاریخیں بڑھاتی رہتی ہے اور بمشکل تمام ہی درخواستیں پوری ہوتی ہیں۔ آئیے پہلے ملکی تاریخ کے مہنگے ترین حج پیکیج پر نظر ڈالتے ہیں۔
رواں سال حکومت نے 3 کیٹیگریز کا اعلان کیا ہے۔ کیٹیگری وائٹ کے تحت پیکیج 2 لاکھ 95 ہزار 80 روپے کا ہوگا اور رہائش حرم سے کم از کم 6 کلومیٹر دور ہو گی۔ 450 ریال قربانی کی مد میں بھی وصول کیے جائیںگے، قربانی کی رقم کی پیشگی وصولی کی بدعت محترم وزیر نے اسی سال ایجاد کی ہے۔ جب کہ مکہ اور مدینے میں 40 دن قیام کے دوران کھانے پینے اور ہلکی پھلکی خریداری کے لیے حجاج کو کم از کم 15 سو ریال خرچ کرنا ہوں گے۔ یوں کیٹیگری وائٹ کے تحت جانے والے حاجیوں کو اس سال حج کی مد میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 35 ہزار روپے سے زائد خرچ کرنا ہوں گے۔
کیٹیگری گرین کے تحت 3 لاکھ 61 ہزار روپے وصول کیے جائیں گے، یوں دیگر اخراجات ملا کر یہ پیکیج بھی 4 لاکھ روپے سے تجاوز کرجائے گا۔ بلیو کیٹیگری میں پیکیج 4 لاکھ 21 ہزار روپے کا ہوگا، مکہ اور مدینہ میں اخراجات کے لیے کم از کم 1500 ریال بھی رکھے جائیں تو مجموعی رقم 4 لاکھ 55 ہزار سے تجاوز کرجاتی ہے جب کہ رہائش پالیسی کے مطابق 1 کلومیٹر کے اندر ہوگی۔ یوں گزشتہ سال جو بلیو پیکیج دیگر اخراجات کے بغیر 3 لاکھ 19 ہزار کا تھا اب وہ 4 لاکھ سے تجاوز کرگیا ہے ۔ گزشتہ سال کے مقابلے میںکرایوں کی مد میں 12 سے 14 ہزار روپے سے زائد وصول کیے جائیں گے، حالانکہ صرف حج ٹکٹ کے لیے حجاج کرام سے پہلے ہی معمول کے ریٹرن ٹکٹ کے مقابلے میں کم از کم دگنا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔
اس بار وزیر موصوف نے قربانی یعنی دم شکرکی رقم بھی خود وصول کرنے کی بدعت بھی ایجاد کی ہے جس کے تحت 450 ریال فی حاجی وصول کیے جائیں گے۔ عموماً جوافراد حج پر جاتے ہیں وہ خود ہی مکہ پہنچ کر از خود قربان گاہ جا کر اپنے سامنے قربانی کرواتے ہیں تاکہ شک و شبے کی گنجائش نہ رہے، بعض احباب مقامی مدارس یا وہاں اپنے جان پہچان کے افراد سے بات کرکے اپنی استطاعت کے مطابق دنبہ یا بکرا بُک کرواتے ہیں اور قربانی کے وقت گروپ میں شامل افراد اپنے سامنے قربانی کروالیتے ہیں یا انھیں ٹیلیفون پر آگاہ کردیا جاتا ہے کہ قربانی ہوگئی ہے، آپ حلق یعنی سر منڈوا کر احرام کھول سکتے ہیں۔
اکثر حاجی وہاں قائم بینکوں سے قربانی کا ٹوکن خرید لیتے ہیں، بینک انھیں قربانی کا وقت بتاتے ہیں اور حجاج بتائے گئے وقت کے کچھ دیر بعد سر منڈوا کر احرام کھول لیتے ہیں۔ حجاج 350 ریا ل سے 400 ریال میں قربانی کروالیتے ہیں، مگر اب عازمین حج سے جدہ روانگی سے قبل 450 ریال وصول کیے جائیں گے، قربانی کب ہوگی؟ ہوگی بھی یا نہیں ہوگی؟ اور قربانی کے جانور کی اصل قیمت کیا ہوگی؟ یہ سب باتیں اب حجاج کا درد سر نہیں۔
عازمین حج جب پاکستان سے روانہ ہوتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجدالحرام میں گزارا جائے، روزانہ طواف کعبہ کیا جائے، کم ازکم پانچ وقت نماز اور تہجد باجماعت مسجد الحرام میں اداکی جائیں۔ مگر بیشتر عازمین حج کو حرم سے 6 کلومیٹر دور رہائش دی جاتی ہے اور وہ مجبور ہوتے ہیں کہ نمازیں مسجد الحرام کے بجائے قریبی مساجد میں ادا کریں۔ رہائش کے نام پر جو پیسے وصول کیے جاتے ہیں اگر بہتر منصوبہ بندی اور صاف نیتوں کے ساتھ استعمال کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حجاج کے لیے بہتر اور قریبی عمارتوں کا بندوبست کیا جاسکے۔ یہ رہائشی عمارتیں بھی کسی طرح معیاری نہیں ہوتیں، کمرے اتنے مختصر ہوتے ہیں کہ بس صرف بستر لگانے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ ہر سال جب حجاج وطن واپس آتے ہیں تو رہائشی عمارتوں کی حالت زار کا رونا ان کی زبانوں پر ہوتا ہے۔
اب ذرا ملکی تاریخ کے مہنگے ترین حج کا ماضی کی حج پالیسی سے تقابل کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اپنی پہلی حج پالیسی کا اعلان اگست 2008 میں کیا۔ حج پیکیج میں صرف ایک کیٹیگری تھی اور رقم 1 لاکھ 85 ہزار روپے تھی، اس وقت ریال کی قیمت 16 روپے تھی، جب کہ کل رقم یعنی 1 لاکھ 85 ہزار میں عازمین حج کو زرمبادلہ بھی فراہم کیا گیا۔ اس طرح اعلان کردہ پیکیج میں ہی حجاج نے تمام تر اخراجات (بمع قربانی اور خوراک) پورے کرلیے تھے، جب کہ تمام عازمین کو رہائش 2 کلومیٹر کی حدود میں دینے کا اعلان کیاگیا تھا۔
آج 5 سال بعد کل حج اخراجات بڑھ کر 3 لاکھ 35 ہزار (وائٹ کیٹیگری) سے 4 لاکھ 50 ہزار (بلیو کیٹیگری) تک پہنچ چکے ہیں، یعنی پانچ سال کے عرصے میںکم از کم دگنے۔ حکومتی موقف ہے کہ ریال کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ اگر غور کیا جائے تو 5 سال کے عرصے میں ریال کی قدر میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ حج اخراجات میں 100 سے 150 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ 2007 میں حج پیکیج تمام تر اخراجات کے ساتھ صرف 1 لاکھ 30 ہزار روپے کا تھا۔
اب آپ خود ہی حساب کرلیں کہ ریال 2010 میں 23 روپے کے مقابلے میں آج 26 روپے کا ہے مگر حج کے اخراجات 100 فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔ یہ ہے منتخب حکومت اور اس کے وزرا کے 5 سالہ دور میں عوام پر کیے گئے احسانات کی صرف ایک جھلک۔