جدید جمہوریت کا انقلابی…
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بار بار جمہوریت کے نام پر اس قدر دھوکا دیا گیا کہ لوگ اس نظام سے صحیح طور روشناس ہی نہ ہو سکے
لوگوں کی خوش حالی کا کیا خوب پیمانہ بتایا گیا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس چیز سے وہاں کے لوگ کس قدر خوش ہیں۔ اب اس نظام میں دوسرے چاہے کتنے ہی کیڑے نکالیں، اگر یہ انتخاب وہاں کے عوام کا ہے تو پھر کسی کو اس میں تنقید اور مداخلت کا کوئی حق نہیں، ان کے لیے سب سے بڑی جمہوریت وہی ہے، جو ان کی مرضی سے وہاں رائج ہے، چاہے دوسروں کو اس میں سو خامیاں دکھائی دیتی رہیں، لیکن جمہوریت کا بنیادی جزو عوام ہوتے ہیں، یہ لوگوں کی رضا مندی اور مرضی کے گرد گھومنے والا نظام ہے، اب حقیقی جمہوریت تو وہی ہے کہ عوام اپنی مرضی کا نظام اور اپنی منشا کے مطابق کسی کا بھی چنائو کریں اور اگر اس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو بار بار اس ہی کا انتخاب کرتے رہیں، یا اس کی جگہ کسی دوسرے کو لے آئیں، یہی جمہوریت کا اصل حسن ہے۔
عوام کی تائید سے حکمرانی کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ پھر اسے دنیا کی بھی بڑی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے میں بھی کوئی دقت اور پریشانی نہیں اٹھانی پڑتی، ایسا ہی کچھ معاملہ ہیوگو شاویز کے ساتھ بھی رہا، اس نے اپنے لوگوں کی حمایت سے امریکا کے پہلو میں رہتے ہوئے اس کی عمل داری کو نہ چلنے دیا، جب کہ آج بھی امریکا سے کوسوں دور کتنے ہی ایسے ممالک ہیں جو امریکا کی مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتے۔
1999 میں جب وینزویلا کے عوام نے شاویز کو صدر کے عہدے کے لیے منتخب کیا تو پھر مسلسل 14 برس اس کے سوا کسی کو صدر کے عہدے پر دیکھنے کے روادار نہ رہے، عوام دوستی کے سبب انھیںمرتے دم تک اپنے لوگوں کا ایسا اعتماد رہا کہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
امریکا اس خطے میں ابھی کیوبا کے فیڈل کاسترو کی مخالفت کو صحیح طور ہضم نہ کر پایا تھا کہ بائیں بازو کا ایک اور رہنما ہیوگو شاویز کی صورت میں اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور ایسے کہ دنیا بھر میں سوویت یونین کے انہدام کو اشتراکی نظام کی شکست اور ناکامی قرار دینے والوں کو لاجواب کر دیا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بار بار جمہوریت کے نام پر اس قدر دھوکا دیا گیا کہ لوگ اس نظام سے صحیح طور روشناس ہی نہ ہو سکے، ان کے نزدیک یہ سلسلہ بس منتخب ہونے تک وعدے کرنے اور اس کے بعد انھیں بھول جانے کا ہی نام ہے۔ اس لیے اکثر ایسا ہی ہوا ہے کہ حکومت ملتے ہی عوام میں حزب اقتدار کا تاثر گہنانا شروع ہو جاتا ہے، ہیوگو شاویز اقتدار میں آکر عوام کو بھول جانے والوں کے لیے ایک ایسا سبق ہے کہ جو یہ بتاتا ہے کہ کس طرح اختیار ملنے کے بعد شہرت اور مقبولیت حاصل کی جاتی ہے۔ انھوں نے مسلسل 14 برس اقتدار میں رہ کر دنیا کو عوام کے دلوں پر حکومت کرنے کا فن بتا دیا۔ اگر اس کی زندگی وفا کرتی تو خدا جانے اس کے اقتدار کا سورج مزید کتنا عرصہ وینزویلا کے افق پر جگمگاتا رہتا اور وہ دنیا بھر کے کچلے ہوئے لوگوں کی امید کی کرن بنا رہتا۔ وہ جدید دنیا کا ایسا عظیم انقلابی تھا جو عوامی راستہ اختیار کرتے ہوئے ایسی تبدیلی لایا جو تادیر یاد رکھی جائے گی۔
عصر حاضر میں ہیوگو شاویز جیسا عوامی انداز اختیار کرنے والا اور اس پائے کا کوئی منتخب نمایندہ نظر نہیں آتا جو اتنی استقامت کا حامل ہو، جو ہزاروں کے مجمع سے جب ہم کلام ہوتا تھا تو پھر لوگوں اور اس کے بیچ کوئی پردہ حائل نہ ہوتا۔ اقتدار کے ایوانوں کا مکین ہو کر بھی وہ عوام میں رہنا جانتا تھا۔ کبھی عالمی سطح پر امریکی سامراج کی توسیع پسندی کو للکارتا، تو کبھی غریب عوام کی آنکھوں کا یہ تارا ان کے سامنے گانے گا کر ان کی محبت کا جواب دے رہا ہوتا۔
عالمی سطح پر امریکی عزائم کی مخالفت یوں تو ہر دور میں مختلف رہنما کرتے آئے ہیں اور امریکا ان سے نبرد آزما بھی رہا، لیکن شاویز کی مثال ان تمام لوگوں سے اس طرح منفرد رہی کہ وہ اپنی عوامی طاقت کے سہارے آخر دم تک امریکی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ڈٹا رہا، اس کی جمہور پسندی ہی دراصل اس ہمت کو تقویت پہنچاتی رہی، ورنہ تاریخ شاہد ہے کہ امریکا اپنے مخالفین کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا رہا، وہی امریکا اگر علی الاعلان اسے للکارنے والے شاویز کا بال بیکا نہ کر سکا تو فقط اس لیے کہ اس کے پیچھے پورا وینزویلا کھڑا تھا۔
امریکا کو بے بس کرنے والے ہیوگو شاویز جون 2011 میں سرطان کی بیماری میں مبتلا ہوگئے، تاہم گزشتہ سال جون میں انھوں نے اس مرض سے صحت یابی کا اعلان کیا، لیکن کچھ دنوں میں یہ مرض دوبارہ لوٹ آیا اور اس کے بعد سے وہ شدید علیل ہو گئے، اس ہی باعث جنوری میں چوتھی بار صدر کے عہدے کا حلف نہیں اٹھا سکے، وہ کیوبا میں علاج کے بعد 18 فروری کو وطن لوٹے تھے۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران ان کے چھ آپریشن کیے گئے، زندگی کے آخری ایام میں وہ سانس کی تکلیف میں بھی مبتلا ہوگئے اور بالآخر اکیسویں صدی کا یہ عظیم حریت پسند رہنما 5 مارچ 2013 کو ابدی نیند سوگیا۔
عوام کی تائید سے حکمرانی کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ پھر اسے دنیا کی بھی بڑی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے میں بھی کوئی دقت اور پریشانی نہیں اٹھانی پڑتی، ایسا ہی کچھ معاملہ ہیوگو شاویز کے ساتھ بھی رہا، اس نے اپنے لوگوں کی حمایت سے امریکا کے پہلو میں رہتے ہوئے اس کی عمل داری کو نہ چلنے دیا، جب کہ آج بھی امریکا سے کوسوں دور کتنے ہی ایسے ممالک ہیں جو امریکا کی مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتے۔
1999 میں جب وینزویلا کے عوام نے شاویز کو صدر کے عہدے کے لیے منتخب کیا تو پھر مسلسل 14 برس اس کے سوا کسی کو صدر کے عہدے پر دیکھنے کے روادار نہ رہے، عوام دوستی کے سبب انھیںمرتے دم تک اپنے لوگوں کا ایسا اعتماد رہا کہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
امریکا اس خطے میں ابھی کیوبا کے فیڈل کاسترو کی مخالفت کو صحیح طور ہضم نہ کر پایا تھا کہ بائیں بازو کا ایک اور رہنما ہیوگو شاویز کی صورت میں اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور ایسے کہ دنیا بھر میں سوویت یونین کے انہدام کو اشتراکی نظام کی شکست اور ناکامی قرار دینے والوں کو لاجواب کر دیا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بار بار جمہوریت کے نام پر اس قدر دھوکا دیا گیا کہ لوگ اس نظام سے صحیح طور روشناس ہی نہ ہو سکے، ان کے نزدیک یہ سلسلہ بس منتخب ہونے تک وعدے کرنے اور اس کے بعد انھیں بھول جانے کا ہی نام ہے۔ اس لیے اکثر ایسا ہی ہوا ہے کہ حکومت ملتے ہی عوام میں حزب اقتدار کا تاثر گہنانا شروع ہو جاتا ہے، ہیوگو شاویز اقتدار میں آکر عوام کو بھول جانے والوں کے لیے ایک ایسا سبق ہے کہ جو یہ بتاتا ہے کہ کس طرح اختیار ملنے کے بعد شہرت اور مقبولیت حاصل کی جاتی ہے۔ انھوں نے مسلسل 14 برس اقتدار میں رہ کر دنیا کو عوام کے دلوں پر حکومت کرنے کا فن بتا دیا۔ اگر اس کی زندگی وفا کرتی تو خدا جانے اس کے اقتدار کا سورج مزید کتنا عرصہ وینزویلا کے افق پر جگمگاتا رہتا اور وہ دنیا بھر کے کچلے ہوئے لوگوں کی امید کی کرن بنا رہتا۔ وہ جدید دنیا کا ایسا عظیم انقلابی تھا جو عوامی راستہ اختیار کرتے ہوئے ایسی تبدیلی لایا جو تادیر یاد رکھی جائے گی۔
عصر حاضر میں ہیوگو شاویز جیسا عوامی انداز اختیار کرنے والا اور اس پائے کا کوئی منتخب نمایندہ نظر نہیں آتا جو اتنی استقامت کا حامل ہو، جو ہزاروں کے مجمع سے جب ہم کلام ہوتا تھا تو پھر لوگوں اور اس کے بیچ کوئی پردہ حائل نہ ہوتا۔ اقتدار کے ایوانوں کا مکین ہو کر بھی وہ عوام میں رہنا جانتا تھا۔ کبھی عالمی سطح پر امریکی سامراج کی توسیع پسندی کو للکارتا، تو کبھی غریب عوام کی آنکھوں کا یہ تارا ان کے سامنے گانے گا کر ان کی محبت کا جواب دے رہا ہوتا۔
عالمی سطح پر امریکی عزائم کی مخالفت یوں تو ہر دور میں مختلف رہنما کرتے آئے ہیں اور امریکا ان سے نبرد آزما بھی رہا، لیکن شاویز کی مثال ان تمام لوگوں سے اس طرح منفرد رہی کہ وہ اپنی عوامی طاقت کے سہارے آخر دم تک امریکی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ڈٹا رہا، اس کی جمہور پسندی ہی دراصل اس ہمت کو تقویت پہنچاتی رہی، ورنہ تاریخ شاہد ہے کہ امریکا اپنے مخالفین کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا رہا، وہی امریکا اگر علی الاعلان اسے للکارنے والے شاویز کا بال بیکا نہ کر سکا تو فقط اس لیے کہ اس کے پیچھے پورا وینزویلا کھڑا تھا۔
امریکا کو بے بس کرنے والے ہیوگو شاویز جون 2011 میں سرطان کی بیماری میں مبتلا ہوگئے، تاہم گزشتہ سال جون میں انھوں نے اس مرض سے صحت یابی کا اعلان کیا، لیکن کچھ دنوں میں یہ مرض دوبارہ لوٹ آیا اور اس کے بعد سے وہ شدید علیل ہو گئے، اس ہی باعث جنوری میں چوتھی بار صدر کے عہدے کا حلف نہیں اٹھا سکے، وہ کیوبا میں علاج کے بعد 18 فروری کو وطن لوٹے تھے۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران ان کے چھ آپریشن کیے گئے، زندگی کے آخری ایام میں وہ سانس کی تکلیف میں بھی مبتلا ہوگئے اور بالآخر اکیسویں صدی کا یہ عظیم حریت پسند رہنما 5 مارچ 2013 کو ابدی نیند سوگیا۔