نظارۂ دریدہ منظری…
سندھ کے آئی جی کی خدمات وفاق کے حوالے کردی گئیں مگر ان کو برطرف نہیں کیا گیا
دریدہ منظری کے سلسلے گئے ہیں دور تک
پلٹ چلو نظارۂ زوال کر نہ پائو گے
یہ شعر آج عباس ٹائون کی تباہی کا مکمل عکاس ہے، کہتے تو ہیں کہ آنسو تو آنکھوں میں ہوتے ہیں مگر یہ کیسے آنسو ہیں جو چشم کائنات سے برس کر بھی دھرتی کی سلگتی بھڑکتی خون آلود آگ کو نہ بجھا سکے، برصغیر کی تقسیم کے وقت تاریخ کے صفحات پر جو بلوے اور فساد رقم ہوئے وہ بچپن سے سنتے آئے تھے مگر وہاں تو دو قوموں اور دو تہذیبوں کا ٹکرائو تھا سو صبر بھی کرلیا اور جبر بھی۔ مگر اب مختلف چینلز پر ان آنکھوں نے جو مناظر دیکھے اور عباس ٹائون جا کر بربادی کی جو کہانیاں سننے کو ملیں اس کی سماعت کے بعد غالباً سمندر نے بھی اپنا منہ چھپا لیا ہوگا کہ وہ ان اُجڑے ہوئے بے شمار بے خانماں خاندانوں کے آنسوئوں کو دیکھ کر اپنی وسعت پر ناز کرنا بھول گیا ہوگا۔
حضرت علی ؓ نے کہا تھا کہ ''کوئی ریاست کفر پر تو زندہ رہ سکتی ہے لیکن ظلم پر قائم نہیں رہ سکتی''
اور آج وہی زمانہ آرہا ہے یعنی
وہ دور قریب آ رہا ہے
جب داد ہنر نہ مل سکے گی
پوچھو گے ہر اک سے ہم کہاں ہیں
پر اپنی خبر نہ مل سکے گی
کیا مسند اقتدار پر متمکن متکبر افراد کے ہاتھوں سے عنان حکومت ختم ہونے کو ہے؟ مگر اس کا کیا کیجیے کہ اقتدار کا نشہ اور ہوس زر نے انھیں اس مقام پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں وہ
''جو بچا ہے جلد سمیٹ لو''
کی تیاریوں میں شب و روز مصروف عمل ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اُن بے شمار جلے ہوئے خستہ فلیٹوں کے اندر بچا کچا سامان لوٹنے والے ٹڈی دل کی طرح نمودار ہوگئے تھے، کٹے ہوئے بازو اور پیروں کو اپنے پیروں سے روندتے ہوئے یہ خونیں بھیڑیئے اُجڑے ہوئے لوگوں کے گھروں میں گھس کر مال سمیٹ رہے تھے کہ شاید مل جائے ان کوکوئی سونے کی چوڑی، کوئی ہیرے کی انگوٹھی ، کوئی سبز نوٹوں کی گڈی اور آج ایک اخبار کی اطلاع نے چنگیز خان اور ہلاکو خان کا قامت اچانک بلند کردیا۔ جی ہاں بلند کردیا، تاہم وہ جتنے بھی ظالم تھے ان نام نہاد مسلمانوں سے بہتر تھے جنہوں نے اپنوں کو قتل کیا اور پھر بھی چین نہ ملا تو انھیں جی بھر لوٹا۔
یہ پاکستان کے 60سالہ دور حکومت کا ارزل ترین باب ہے یہ بربریت، درندگی اور سفاکی کی آخری حد ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان دینے والی حکومت کے پرچم تلے عوام لامکاں، بے لباس اور بھوک سے نڈھال ہیں۔
عباس ٹائون کے مکین ٹوٹے ہوئے سامان اور ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے عجب حسرت و یاس سے اپنے گھروں کو تک رہے ہیں جہاں ایک طرف ان کا کمانے والا گیا، اپنا پیارا گیا تو دوسری طرف چھت بھی نہ رہی۔ انعام و اکرام کی یہ برسات ان ننھے بچوں کو تو واپس نہیں لا سکے گی جن کے چھوٹے چھوٹے جوتے، چابی سے چلنے والے بھالو، ٹن ٹن کرتے بندر اور پلکیں جھپکاتی ہوئی گڑیاں میڈیا نے دکھائی تھیں۔ مائوں کی خالی گودیں جن کے دامن بھی تار تار ہیں اپنی بے بسی، بے کسی کا ماتم کرتی رہیں گی، ٹوٹی ہوئی چوکھٹوں اور دروازوں سے گزر کر اب کوئی اندر نہ آئے گا۔
شام گئے دفتر اور کاروبار سے لوٹنے والے بے شمار ابو اپنے چہیتے بچوں کو آغوش میں نہ سمیٹ سکیں گے، ننھے بچے ممتا کے محبت بھرے لمس کو ساری عمرترسیں گے۔ یہ سانحہ ہے، حادثہ ہے یا کیا ہے شاید یہ دونوں لفظ اس ہولناک تباہی کے بعد بہت چھوٹے لگتے ہیں۔
ایک جانب آگ اور خون کی یہ ہولی جاری تھی بے گور و کفن لاشوں سے میدان پٹا پڑا تھا، چیخوں، آہوں اور کراہوں سے آسمان کے کنگورے ہل رہے تھے تو دوسری جانب عین اسی وقت مہتہ پیلس میں ''کراچی کی بیٹی'' کی منگنی کی تقریب کا عشائیہ تھا۔ مہتہ پیلس سے بہت دور تک رینجرز، پولیس کی موبائلیں تھیں سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ اس عظیم الشان تقریب میں ہائی فائی حکمراں بھی شریک ہونے والے تھے۔ خدا جانے اس ڈنر کو اڑانے والوں کے حلق سے تر نوالے کس طرح اترے ہوں گے۔ کون اس المناک خبر کی اطلاع سن کر بغیر کھانا کھائے واپس چلا گیا ہوگا۔ کاش شاید کوئی ایک ایسا ایک آدھ حساس انسان ہو۔
لے دے کر عوام کی آخری امیدیں چیف جسٹس سے ہی وابستہ ہیں۔ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن، عوام کی بار بار نشاندہی پر ہر بار از خود نوٹس لیتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کم ہوتا ہے۔
سندھ کے آئی جی کی خدمات وفاق کے حوالے کردی گئیں مگر ان کو برطرف نہیں کیا گیا لیکن کیا ان کے برطرف کیے جانے سے ملک میں بڑھتی ہوئی خونریزی رک جائے گی، سیاسی جماعتیں متحد ہوجائیں گی، فرقہ واریت دم توڑ دے گی، خودکش بمبار ختم ہوجائیں گے؟ کسی حنائی دلہن کی طرح جگمگاتا ہوا میرا شہر کسی ''بیوہ کی چوڑی'' کی طرح ٹوٹ رہا ہے اس کی مانگ کی افشاں ماند ہوتی جارہی ہے اس کے وجود سے اٹھتی ہوئی عطربیز جنون خیز خوشبوئیں بارود کی بو میں تبدیل ہورہی ہے اس کو اناری لباس کی بجائے سفید کفن پہنایا جارہا ہے یہ شہر، یہ ملک، یہ سب ہمارا ہے یہاں کے کھیتوں سے اگنے والے گندم پر کروڑوں پاکستانیوں کا حق ہے مگر ظلم ہے کہ یہ اناج بھی ذخیرہ ہوتا ہے جس کے اگانے والے دو وقت کی روٹی سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روٹی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
یو ںمحسوس ہوتا ہے جیسے ہر سمت تاریکی پھیلتی جارہی ہے ایسے میں صاحبان اقتدار سے بجز اس کے ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ
شہر اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگادیا کرو
دیکھیں اس آگ میں جل کر پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام پارس بنیں گے یا راکھ ...؟
پلٹ چلو نظارۂ زوال کر نہ پائو گے
یہ شعر آج عباس ٹائون کی تباہی کا مکمل عکاس ہے، کہتے تو ہیں کہ آنسو تو آنکھوں میں ہوتے ہیں مگر یہ کیسے آنسو ہیں جو چشم کائنات سے برس کر بھی دھرتی کی سلگتی بھڑکتی خون آلود آگ کو نہ بجھا سکے، برصغیر کی تقسیم کے وقت تاریخ کے صفحات پر جو بلوے اور فساد رقم ہوئے وہ بچپن سے سنتے آئے تھے مگر وہاں تو دو قوموں اور دو تہذیبوں کا ٹکرائو تھا سو صبر بھی کرلیا اور جبر بھی۔ مگر اب مختلف چینلز پر ان آنکھوں نے جو مناظر دیکھے اور عباس ٹائون جا کر بربادی کی جو کہانیاں سننے کو ملیں اس کی سماعت کے بعد غالباً سمندر نے بھی اپنا منہ چھپا لیا ہوگا کہ وہ ان اُجڑے ہوئے بے شمار بے خانماں خاندانوں کے آنسوئوں کو دیکھ کر اپنی وسعت پر ناز کرنا بھول گیا ہوگا۔
حضرت علی ؓ نے کہا تھا کہ ''کوئی ریاست کفر پر تو زندہ رہ سکتی ہے لیکن ظلم پر قائم نہیں رہ سکتی''
اور آج وہی زمانہ آرہا ہے یعنی
وہ دور قریب آ رہا ہے
جب داد ہنر نہ مل سکے گی
پوچھو گے ہر اک سے ہم کہاں ہیں
پر اپنی خبر نہ مل سکے گی
کیا مسند اقتدار پر متمکن متکبر افراد کے ہاتھوں سے عنان حکومت ختم ہونے کو ہے؟ مگر اس کا کیا کیجیے کہ اقتدار کا نشہ اور ہوس زر نے انھیں اس مقام پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں وہ
''جو بچا ہے جلد سمیٹ لو''
کی تیاریوں میں شب و روز مصروف عمل ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اُن بے شمار جلے ہوئے خستہ فلیٹوں کے اندر بچا کچا سامان لوٹنے والے ٹڈی دل کی طرح نمودار ہوگئے تھے، کٹے ہوئے بازو اور پیروں کو اپنے پیروں سے روندتے ہوئے یہ خونیں بھیڑیئے اُجڑے ہوئے لوگوں کے گھروں میں گھس کر مال سمیٹ رہے تھے کہ شاید مل جائے ان کوکوئی سونے کی چوڑی، کوئی ہیرے کی انگوٹھی ، کوئی سبز نوٹوں کی گڈی اور آج ایک اخبار کی اطلاع نے چنگیز خان اور ہلاکو خان کا قامت اچانک بلند کردیا۔ جی ہاں بلند کردیا، تاہم وہ جتنے بھی ظالم تھے ان نام نہاد مسلمانوں سے بہتر تھے جنہوں نے اپنوں کو قتل کیا اور پھر بھی چین نہ ملا تو انھیں جی بھر لوٹا۔
یہ پاکستان کے 60سالہ دور حکومت کا ارزل ترین باب ہے یہ بربریت، درندگی اور سفاکی کی آخری حد ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان دینے والی حکومت کے پرچم تلے عوام لامکاں، بے لباس اور بھوک سے نڈھال ہیں۔
عباس ٹائون کے مکین ٹوٹے ہوئے سامان اور ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے عجب حسرت و یاس سے اپنے گھروں کو تک رہے ہیں جہاں ایک طرف ان کا کمانے والا گیا، اپنا پیارا گیا تو دوسری طرف چھت بھی نہ رہی۔ انعام و اکرام کی یہ برسات ان ننھے بچوں کو تو واپس نہیں لا سکے گی جن کے چھوٹے چھوٹے جوتے، چابی سے چلنے والے بھالو، ٹن ٹن کرتے بندر اور پلکیں جھپکاتی ہوئی گڑیاں میڈیا نے دکھائی تھیں۔ مائوں کی خالی گودیں جن کے دامن بھی تار تار ہیں اپنی بے بسی، بے کسی کا ماتم کرتی رہیں گی، ٹوٹی ہوئی چوکھٹوں اور دروازوں سے گزر کر اب کوئی اندر نہ آئے گا۔
شام گئے دفتر اور کاروبار سے لوٹنے والے بے شمار ابو اپنے چہیتے بچوں کو آغوش میں نہ سمیٹ سکیں گے، ننھے بچے ممتا کے محبت بھرے لمس کو ساری عمرترسیں گے۔ یہ سانحہ ہے، حادثہ ہے یا کیا ہے شاید یہ دونوں لفظ اس ہولناک تباہی کے بعد بہت چھوٹے لگتے ہیں۔
ایک جانب آگ اور خون کی یہ ہولی جاری تھی بے گور و کفن لاشوں سے میدان پٹا پڑا تھا، چیخوں، آہوں اور کراہوں سے آسمان کے کنگورے ہل رہے تھے تو دوسری جانب عین اسی وقت مہتہ پیلس میں ''کراچی کی بیٹی'' کی منگنی کی تقریب کا عشائیہ تھا۔ مہتہ پیلس سے بہت دور تک رینجرز، پولیس کی موبائلیں تھیں سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی اور کیوں نہ ہوتی کہ اس عظیم الشان تقریب میں ہائی فائی حکمراں بھی شریک ہونے والے تھے۔ خدا جانے اس ڈنر کو اڑانے والوں کے حلق سے تر نوالے کس طرح اترے ہوں گے۔ کون اس المناک خبر کی اطلاع سن کر بغیر کھانا کھائے واپس چلا گیا ہوگا۔ کاش شاید کوئی ایک ایسا ایک آدھ حساس انسان ہو۔
لے دے کر عوام کی آخری امیدیں چیف جسٹس سے ہی وابستہ ہیں۔ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن، عوام کی بار بار نشاندہی پر ہر بار از خود نوٹس لیتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کم ہوتا ہے۔
سندھ کے آئی جی کی خدمات وفاق کے حوالے کردی گئیں مگر ان کو برطرف نہیں کیا گیا لیکن کیا ان کے برطرف کیے جانے سے ملک میں بڑھتی ہوئی خونریزی رک جائے گی، سیاسی جماعتیں متحد ہوجائیں گی، فرقہ واریت دم توڑ دے گی، خودکش بمبار ختم ہوجائیں گے؟ کسی حنائی دلہن کی طرح جگمگاتا ہوا میرا شہر کسی ''بیوہ کی چوڑی'' کی طرح ٹوٹ رہا ہے اس کی مانگ کی افشاں ماند ہوتی جارہی ہے اس کے وجود سے اٹھتی ہوئی عطربیز جنون خیز خوشبوئیں بارود کی بو میں تبدیل ہورہی ہے اس کو اناری لباس کی بجائے سفید کفن پہنایا جارہا ہے یہ شہر، یہ ملک، یہ سب ہمارا ہے یہاں کے کھیتوں سے اگنے والے گندم پر کروڑوں پاکستانیوں کا حق ہے مگر ظلم ہے کہ یہ اناج بھی ذخیرہ ہوتا ہے جس کے اگانے والے دو وقت کی روٹی سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا۔
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روٹی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
یو ںمحسوس ہوتا ہے جیسے ہر سمت تاریکی پھیلتی جارہی ہے ایسے میں صاحبان اقتدار سے بجز اس کے ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ
شہر اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگادیا کرو
دیکھیں اس آگ میں جل کر پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام پارس بنیں گے یا راکھ ...؟