مقابل ہے آئینہ

ملک میں پہلی بار زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر تک پہنچ گئے


MJ Gohar March 08, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت ختم ہونے میں صرف ایک ہفتہ باقی ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومت اپنے اقتدار کی مدت پوری کررہی ہے جو بلاشبہ ملک میں جمہوریت کے استحکام کی علامت ہے، اب نگراں حکومت کے قیام کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں صلاح مشوروں کا عمل شروع ہوچکا ہے، وفاقی وزیر جناب خورشید شاہ کے بقول 17 مارچ کو ملک میں نگراں حکومت ہوگی۔ یوں تو گزشتہ پانچ سال کے دوران بھی حکومت مخالف حلقوں کی جانب سے زمینی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حکومت کا ''پوسٹ مارٹم'' کیا جاتا رہا ہے۔

تاہم اب آیندہ الیکشن میں فتح و شکست کے پس منظر میں حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کے حوالے سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے چھوٹے بڑے ہر دو پہلوانوں نے باقاعدہ ''دنگل'' کا آغاز کردیا ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے گزشتہ دنوں دیے گئے اس بیان کے بعد کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال میں جو کام کیے وہ ماضی کی کسی حکومت نے نہیں کیے، حکومت مخالف اور بھٹو دشمنی کے حاشیہ برداروں نے محض تنقید برائے تنقید اور مخالفت برائے مخالفت کے تحت پانچ سالہ حکومتی کارکردگی کو اپنے ہدف پر رکھ لیا ہے اور ایسی ایسی دور کی کوڑیاں لا کے دلوں کے اندر چھپے بغض اور نفرتوں کو عیاں کر رہے ہیں کہ جیسے خود تو دودھ کے دھلے ہیں اور بقول شاعر: ''دامن نچوڑدیں تو فرشتہ وضو کریں''۔

بزرگ کہتے ہیں کہ کسی کام میں کیڑے نکالنا اور تبرا بھیجنا سب سے آسان کام ہے کیونکہ اس کے لیے کسی تحقیق اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی جب کہ سچ کو آشکار کرنے اور اس کی تلاش میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، حقائق تک رسائی کے لیے لگن، جستجو اور محنت شاقہ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن جب حاسدوں کے قلب و ذہن میں نفرتوں اور مخالفتوں کا سودا سما جائے اور پھر ''آزاد میڈیا'' کے دور میں لکھنے اور بولنے پر قدغن بھی نہ ہو تو پھر سچائیوں کو تلاش کرنے کی جھنجھٹ میں پڑے بغیر ہی زبان و قلم کے ''نشتر'' چلانے والے ''موسمی نشانہ بازوں'' کی دانش پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

دوسروں کی آنکھ کا بال تو سب دیکھ لیتے ہیں، لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر کسی کو نظر نہیں آتا۔ یہ سہرا بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو جاتا ہے کہ اس نے کمال ضبط و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور تحریرو تقریر کے نام نہاد ''شہ سواروں'' کو دلوں کی بھڑاس نکالنے کے بھرپور مواقع دیے تاکہ کسی حاسد کا دل نہ ٹوٹے۔ یہ حکومت کا ظرف اور صدر زرداری کا حوصلہ ہے کہ انھوں نے اپنی ذات پر براہ راست ہونے والی تنقید کو بھی بڑے تحمل سے برداشت کیا اور ملکی سیاست میں مفاہمت، رواداری، یگانگت اور بردباری کی آمیزش سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روایت کی داغ بیل ڈالی۔

ہمارے مہربان دوست پیپلز پارٹی کے ہمدم دیرینہ و مخلص رفیق کار ضیاء کھوکھر جو وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں بحیثیت کنسلٹنٹ (میڈیا) اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں ایک وسیع المطالعہ شخصیت میں قومی و عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں بطور خاص بھٹو فیملی کی طویل سیاسی جدوجہد پر ان کی تحریروں کو ''اتھارٹی'' کا درجہ حاصل ہے، انھوں نے نہایت عرق ریزی کے بعد حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی پر ایک مستند دستاویز تیار کی ہے جو مخالفین کے لیے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں وہ اپنا ''اصل چہرہ'' دیکھ سکتے ہیں۔ ضیاء کھوکھر نے مہربانی فرما کے اس تاریخی دستاویز کی ایک کاپی راقم کو بھی ارسال کی ہے جو نوائے خامہ کے قارئین کے لیے یہاں حرف بہ حرف پیش کررہا ہوں۔ 2013-2008 کے دوران موجودہ حکومت کے اقدامات۔

زرعی شعبہ:۔ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا، زائد ضرورت گندم اور چاول ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ حاصل کیا گیا۔ دیہاتی علاقوں میں آٹھ سو ارب روپے کی اضافی آمدن ہوئی۔ بینظیر ٹریکٹر اسکیم، کسانوں کے لیے چھوٹے قرضے، کھاد اور بیج پر سبسڈی، انرجی و آبپاشی شعبہ، بھاشا ڈیم پر کام کا آغاز، نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کا 40 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، اس سے 970 میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہوگی، تھر میں کوئلے اور بجلی کے منصوبوں پر کام کا آغاز، تربیلہ ڈیم کے تین یونٹس کی مرمت کا کام مکمل ہوا، تربیلہ ڈیم کے چوتھے توسیعی منصوبے پر کام کا آغاز، منگلا ڈیم ''اپ ریزنگ'' منصوبے کی تکمیل، میرانی ڈیم کی تکمیل، الائی خواڑ پاور پراجیکٹ کی تکمیل، اس پروجیکٹ سے 121 میگا واٹ بجلی پروڈیوس ہورہی ہے، جناح پاور پروجیکٹ (چشمہ) کی تکمیل، اس سے 96 میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہورہی ہے، ست پارہ ڈیم کی تکمیل اس سے 17 میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہورہی ہے۔

دوبر خواڑ میں ڈیم کی تکمیل اگلے چھ ماہ میں ہوجائے گی اس سے 130 میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہوگی، گومل ڈیم تکمیل کے قریب ہے اس سے 17 میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہوگی، گولن گول پاور پروجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ہے، 106 میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہوگی، ملک میں اولین شمسی توانائی گرڈ کی تکمیل، ایران سے بجلی کی امپورٹ اور امریکی دباؤ کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن کا حالیہ معاہدہ، قطر سے گیس کی امپورٹ کا معاہدہ، ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی تکمیل اس سے 50 میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہورہی ہے، غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کو سستی بجلی دینے کے لیے 1.1 ٹریلین روپے کی سبسڈی دی گئی، حکومت نے 3 ہزار7 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹ مکمل کرلیے، چشمہ نیوکلیئر پاور پراجیکٹ فیز II کی تکمیل اس سے تین سو میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہونا شروع ہوگئی ہے، چشمہ نیوکلیئر پاور پراجیکٹ فیز III اور فیز IV پر کام کا آغاز۔ ان دونوں کی تکمیل کے بعد مزید 600 میگاواٹ بجلی پروڈیوس ہونا شروع ہوجائے گی۔

اقتصادی شعبہ:۔ ملک میں پہلی بار ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، ملک میں پہلی بار زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ڈالر تک پہنچ گئے، 2008 میں افراط زر کی شرح 25 فیصد تھی موجودہ حکومت اس کو Single Digit میں لے آئی ہے، کم سے کم قابل ٹیکس آمدنی کی حد ایک لاکھ سے بڑھاکر 4 لاکھ کرکے عوام کو ریلیف دیا گیا، غربت کے خاتمے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا اس سے 72 لاکھ غریب خاندان مستفید ہورہے ہیں، چھوٹے کاروبار کے لیے قرضے مل رہے ہیں، ہیلتھ انشورنس اسکیم شروع کی گئی ہے، پاکستان بیت المال کے ذریعے علاج معالجے اور تعلیمی شعبے میں غریب طلبا و طالبات کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی فیس کے لیے مالی امداد دی جارہی ہے۔

ایک لاکھ ڈگری ہولڈرز کے لیے انٹرن شپ پروگرام شروع کیا گیا ہے، 6 لاکھ 60 ہزار افراد کو بیرون ملک روزگار کے لیے بھیجا گیا، برطرف سرکاری ملازمین کو بحال کیا گیا، ورک چارج اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو ریگولر کردیا گیا، انڈسٹریل ورکرز کو کمپنیوں کے ملکیتی شیئرز دیے گئے اور بورڈ آف ڈائریکٹرز میں نمایندگی دی جارہی ہے، کم ازکم تنخواہ آٹھ ہزار روپے مقرر کی گئی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ کیا گیا، 2009 میں اسٹاک ایکسچینج کا انڈکس 7000 پوائنٹس تھا جو بڑھ کر 18000 پوائنٹس تک پہنچ چکا ہے، گوادر پورٹ چین کے حوالے کیا گیا جس سے قومی معیشت کو فائدہ ہوگا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ملک و قوم کی خدمت کے حوالے سے مخالفین کے سامنے کارکردگی کا آئینہ رکھ دیا ہے، اب وہ اس میں اپنا چہرہ دیکھتے اور سر دھنتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں