شاباش پاکستان تحریک انصاف
شاباش! پاکستان تحریک انصاف، آفرین ہے! تم نے ملک کی 65 سالہ تاریخ میں انقلاب برپا کردیا۔
ISLAMABAD:
کوئی بھی اچھا کام جہاں بھی ہو، جو بھی کر رہا ہو، اسے سراہنا چاہیے، اس کی تعریف کرنا چاہیے۔ آج کل عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے جماعتی انتخابات ہورہے ہیں، پہلے مرحلے میں صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا کے انتخابات ہوچکے ہیں، اور ان انتخابات کے نتیجے میں تین بڑی اہم اور دلچسپ خبریں سامنے آئی ہیں، ایک خبر کے مطابق لاہور شہر کی صدارت کے مضبوط امیدوار اور پاکستان تحریک انصاف کے بڑے اہم اور معروف نام میاں محمود الرشید یہ الیکشن ہار گئے ہیں اور لاہور کی صدارت ایک غیر معروف نام عبدالعلیم جیت گئے ہیں یعنی لاہور کے تحریکی ساتھیوں نے ایک بظاہر مضبوط امیدوار میاں محمود الرشید صاحب کے مقابلے میں عبدالعلیم صاحب کو ترجیح دیتے ہوئے انھیں زیادہ ووٹ دے کر کامیاب کروا دیا ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ ملکی سطح پر معروف اور صف اول کے سیاستدان، جن کا خاندانی پس منظر بھی درجہ اول سے بھی کہیں اوپر کا ہے، یعنی شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی اور افتخار گیلانی، ان لوگوں کو کامیاب ہونے کے لیے ووٹروںکی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تیسری خبر یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے مالاکنڈ سے ایک غریب درزی کو تحریک انصاف کے لوگوں نے ووٹوں کے ذریعے اپنا صدر منتخب کرلیا ہے، جب کہ مقابلے میں کھڑا ہونے والا زمیندار ہار گیا ہے۔ یہ تینوں خبریں بڑی زبردست ہیں اور عوام الناس کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔
پورے ملک کے 62 فیصد حصے پر مشتمل صوبہ پنجاب میں تقریباً 36 اضلاع ہیں، انتخابی عمل سے گزرتے ہوئے، پانچ چھ واقعات ایسے بھی ہوئے جہاں الیکشن میں حصہ لینے والے آپس میں الجھ گئے، مگر اس لڑائی جھگڑے میں بندوقیں باہر نہیں نکلیں، کہیں فائرنگ نہیں ہوئی، کوئی گولی نہیں چلی، کوئی زخمی نہیں ہوا، کوئی ایمبولینس نہیں آئی، کہیں اسپتال کا ذکر نہیں ہوا، بس ذرا ہاتھا پائی ہوئی اور بس۔
شاباش! پاکستان تحریک انصاف، آفرین ہے! تم نے ملک کی 65 سالہ تاریخ میں انقلاب برپا کردیا۔ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار کسی جماعت میں باقاعدہ مروجہ انتخابی اصولوں کے تحت پارٹی کے لاکھوں ممبران نے ووٹ کے ذریعے اپنی قیادت کو منتخب کیا ہے۔
لاہور اور کراچی کے فقید المثال جلسوں کے بعد تحریک انصاف کے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے چھوٹے شہروں میں جلسے تو ہوتے رہے، مگر عمران خان اور ان کی ٹیم نے اپنی ساری توجہ پارٹی کے اندر ووٹ کے ذریعے انتخابی عمل کی تکمیل پر مرکوز رکھی، یہ خاصا لمبا عرصہ تھا کہ جس میں تحریک انصاف سیاسی منظرنامے سے تقریباً غائب رہی اور ہماری دیگر بڑی چھوٹی سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ اور عوامی طاقت کے مظاہروں میں مصروف رہیں اور اسی ''مصروفیت'' کے دوران ان بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں نے کسی بڑے ہال یا چھوٹے سے کمرے میں اپنی اپنی جماعتوں کے انتخابات بھی کروالیے اور الیکشن کمیشن کو نومنتخب عہدیداروں کے نام بھی بھجوا دیے۔
پاکستان تحریک انصاف نے یہ طویل عرصہ جو سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے، اپنے پارٹی انتخابات کے باقاعدہ انعقاد کے لیے تیاریوں میں گزار دیا اور بالآخر صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا میں شہر شہر، قصبہ قصبہ، گاؤں گاؤں، پولنگ اسٹیشن بنے، شامیانے لگے، پولنگ آفیسرز بیٹھے، بیلٹ باکس رکھے گئے، ووٹ ڈالے گئے اور یوں روایتی گہما گہمی کے ساتھ لاکھوں ووٹرز نے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا میں اپنے پسندیدہ عہدیداران کا چناؤ کرلیا۔
اب صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن ہونے جارہے ہیں، بہت بڑا انتخابی مرحلہ تو انجام پاچکا، امید ہے باقی دو صوبوں میں بھی یہ کام بخیروخوبی انجام پاجائے گا۔ اس عظیم انقلابی اقدام پر پاکستان تحریک انصاف کے لیے عوام میں ایک نیا حوصلہ، نیا ولولہ پیدا ہوا ہے اور وہ پھر سے اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ پچھلے سال ڈیڑھ سال میں اس جماعت نے اپنے اقتصادی ماہرین، داخلی و خارجی امور کے ماہرین، پانی و بجلی کے ماہرین، ٹیکس کے نظام، پولیس کے نظام، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پالیسیاں بھی بنائی ہیں۔ آیندہ حکومتی ڈھانچہ کیسا ہو، کابینہ کا سائز کیا ہو، ملک میں دہشت گردی کا سدباب کیوں کر ہو، محکمہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار کیسا ہو، ان تمام معاملات پر بھی پاکستان تحریک انصاف مسلسل ہوم ورک کر رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کی طرف سے اعلان کیا ہے کہ 23 مارچ 2013 کے دن مینار پاکستان لاہور کے میدان میں ایک بڑا اجتماع ہوگا جس میں تین چار لاکھ کا مجمع ہوگا اور اس اجتماع میں پورے ملک سے پارٹی الیکشن میں منتخب ہونے والے 80 ہزار عہدیداران اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔ 23 مارچ 2013 کا دن بڑا اہم ہوگا، دیکھیں عمران خان اور اس کی ٹیم اس دن کیا مظاہرہ کرتی ہے۔ مجھے تو 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ کا فائنل یاد آرہا ہے۔
ہماری کرکٹ ٹیم ابتدا ہی میں اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے ورلڈ کپ کی دوڑ سے فارغ ہوچکی تھی، مگر ٹیم کا کپتان عمران خان کہہ رہا تھا ''ہم ابھی بھی ٹورنامنٹ سے باہر نہیں ہوئے''۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک نئے نوجوان بالر وسیم اکرم اور ایک نئے نوجوان بلے باز انضمام الحق کے ساتھ کپتان نے تجربہ کار جاوید میانداد کے کندھے سے کندھا ملاکر ناممکن کو ممکن بنا ڈالا۔ ہماری ٹیم کے پاس ایک ریگولر بالر کم تھا۔ مگر کپتان کا یقین محکم تھا، عمل پیہم تھا۔ کپتان نے اعجاز احمد کو بطور پانچواں بالر استعمال کیا اور خود بھی Pain Killer انجکشن لگا لگا کر بولنگ کرتا رہا، بیٹنگ کرنے One Down پوزیشن پر آتا رہا اور ورلڈ کپ جیت گیا۔
کل عمران خان کے ساتھ جاوید میانداد تھا، آج جاوید ہاشمی ہے، کل کپتان کے ساتھ نئے کھلاڑی وسیم اکرم اور انضمام الحق تھے، آج اس کے ساتھ اسد عمر، ولید اقبال اور ابرار الحق جیسے نوجوان ہیں، دیکھیں یہ بڑے بڑے چیلنجز قبول کرنے والا کپتان تباہی سے دوچار پاکستان کو خوشحالی کے راستے پر ڈالے دے گا؟
چلتے چلتے یہ سن لیں اور مزید شاباش پی ٹی آئی کو! ہارنے والے محمودالرشید صاحب نے جیتنے والے عبدالعلیم خان کو پھولوں کے ہار پہنائے اور اب مل کر 23 مارچ کی حلف برداری والے جلسے کی تیاری کر رہے ہیں۔
کوئی بھی اچھا کام جہاں بھی ہو، جو بھی کر رہا ہو، اسے سراہنا چاہیے، اس کی تعریف کرنا چاہیے۔ آج کل عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے جماعتی انتخابات ہورہے ہیں، پہلے مرحلے میں صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا کے انتخابات ہوچکے ہیں، اور ان انتخابات کے نتیجے میں تین بڑی اہم اور دلچسپ خبریں سامنے آئی ہیں، ایک خبر کے مطابق لاہور شہر کی صدارت کے مضبوط امیدوار اور پاکستان تحریک انصاف کے بڑے اہم اور معروف نام میاں محمود الرشید یہ الیکشن ہار گئے ہیں اور لاہور کی صدارت ایک غیر معروف نام عبدالعلیم جیت گئے ہیں یعنی لاہور کے تحریکی ساتھیوں نے ایک بظاہر مضبوط امیدوار میاں محمود الرشید صاحب کے مقابلے میں عبدالعلیم صاحب کو ترجیح دیتے ہوئے انھیں زیادہ ووٹ دے کر کامیاب کروا دیا ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ ملکی سطح پر معروف اور صف اول کے سیاستدان، جن کا خاندانی پس منظر بھی درجہ اول سے بھی کہیں اوپر کا ہے، یعنی شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی اور افتخار گیلانی، ان لوگوں کو کامیاب ہونے کے لیے ووٹروںکی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تیسری خبر یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے مالاکنڈ سے ایک غریب درزی کو تحریک انصاف کے لوگوں نے ووٹوں کے ذریعے اپنا صدر منتخب کرلیا ہے، جب کہ مقابلے میں کھڑا ہونے والا زمیندار ہار گیا ہے۔ یہ تینوں خبریں بڑی زبردست ہیں اور عوام الناس کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔
پورے ملک کے 62 فیصد حصے پر مشتمل صوبہ پنجاب میں تقریباً 36 اضلاع ہیں، انتخابی عمل سے گزرتے ہوئے، پانچ چھ واقعات ایسے بھی ہوئے جہاں الیکشن میں حصہ لینے والے آپس میں الجھ گئے، مگر اس لڑائی جھگڑے میں بندوقیں باہر نہیں نکلیں، کہیں فائرنگ نہیں ہوئی، کوئی گولی نہیں چلی، کوئی زخمی نہیں ہوا، کوئی ایمبولینس نہیں آئی، کہیں اسپتال کا ذکر نہیں ہوا، بس ذرا ہاتھا پائی ہوئی اور بس۔
شاباش! پاکستان تحریک انصاف، آفرین ہے! تم نے ملک کی 65 سالہ تاریخ میں انقلاب برپا کردیا۔ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار کسی جماعت میں باقاعدہ مروجہ انتخابی اصولوں کے تحت پارٹی کے لاکھوں ممبران نے ووٹ کے ذریعے اپنی قیادت کو منتخب کیا ہے۔
لاہور اور کراچی کے فقید المثال جلسوں کے بعد تحریک انصاف کے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے چھوٹے شہروں میں جلسے تو ہوتے رہے، مگر عمران خان اور ان کی ٹیم نے اپنی ساری توجہ پارٹی کے اندر ووٹ کے ذریعے انتخابی عمل کی تکمیل پر مرکوز رکھی، یہ خاصا لمبا عرصہ تھا کہ جس میں تحریک انصاف سیاسی منظرنامے سے تقریباً غائب رہی اور ہماری دیگر بڑی چھوٹی سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ اور عوامی طاقت کے مظاہروں میں مصروف رہیں اور اسی ''مصروفیت'' کے دوران ان بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں نے کسی بڑے ہال یا چھوٹے سے کمرے میں اپنی اپنی جماعتوں کے انتخابات بھی کروالیے اور الیکشن کمیشن کو نومنتخب عہدیداروں کے نام بھی بھجوا دیے۔
پاکستان تحریک انصاف نے یہ طویل عرصہ جو سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے، اپنے پارٹی انتخابات کے باقاعدہ انعقاد کے لیے تیاریوں میں گزار دیا اور بالآخر صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا میں شہر شہر، قصبہ قصبہ، گاؤں گاؤں، پولنگ اسٹیشن بنے، شامیانے لگے، پولنگ آفیسرز بیٹھے، بیلٹ باکس رکھے گئے، ووٹ ڈالے گئے اور یوں روایتی گہما گہمی کے ساتھ لاکھوں ووٹرز نے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا میں اپنے پسندیدہ عہدیداران کا چناؤ کرلیا۔
اب صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن ہونے جارہے ہیں، بہت بڑا انتخابی مرحلہ تو انجام پاچکا، امید ہے باقی دو صوبوں میں بھی یہ کام بخیروخوبی انجام پاجائے گا۔ اس عظیم انقلابی اقدام پر پاکستان تحریک انصاف کے لیے عوام میں ایک نیا حوصلہ، نیا ولولہ پیدا ہوا ہے اور وہ پھر سے اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ پچھلے سال ڈیڑھ سال میں اس جماعت نے اپنے اقتصادی ماہرین، داخلی و خارجی امور کے ماہرین، پانی و بجلی کے ماہرین، ٹیکس کے نظام، پولیس کے نظام، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پالیسیاں بھی بنائی ہیں۔ آیندہ حکومتی ڈھانچہ کیسا ہو، کابینہ کا سائز کیا ہو، ملک میں دہشت گردی کا سدباب کیوں کر ہو، محکمہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار کیسا ہو، ان تمام معاملات پر بھی پاکستان تحریک انصاف مسلسل ہوم ورک کر رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کی طرف سے اعلان کیا ہے کہ 23 مارچ 2013 کے دن مینار پاکستان لاہور کے میدان میں ایک بڑا اجتماع ہوگا جس میں تین چار لاکھ کا مجمع ہوگا اور اس اجتماع میں پورے ملک سے پارٹی الیکشن میں منتخب ہونے والے 80 ہزار عہدیداران اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔ 23 مارچ 2013 کا دن بڑا اہم ہوگا، دیکھیں عمران خان اور اس کی ٹیم اس دن کیا مظاہرہ کرتی ہے۔ مجھے تو 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ کا فائنل یاد آرہا ہے۔
ہماری کرکٹ ٹیم ابتدا ہی میں اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے ورلڈ کپ کی دوڑ سے فارغ ہوچکی تھی، مگر ٹیم کا کپتان عمران خان کہہ رہا تھا ''ہم ابھی بھی ٹورنامنٹ سے باہر نہیں ہوئے''۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک نئے نوجوان بالر وسیم اکرم اور ایک نئے نوجوان بلے باز انضمام الحق کے ساتھ کپتان نے تجربہ کار جاوید میانداد کے کندھے سے کندھا ملاکر ناممکن کو ممکن بنا ڈالا۔ ہماری ٹیم کے پاس ایک ریگولر بالر کم تھا۔ مگر کپتان کا یقین محکم تھا، عمل پیہم تھا۔ کپتان نے اعجاز احمد کو بطور پانچواں بالر استعمال کیا اور خود بھی Pain Killer انجکشن لگا لگا کر بولنگ کرتا رہا، بیٹنگ کرنے One Down پوزیشن پر آتا رہا اور ورلڈ کپ جیت گیا۔
کل عمران خان کے ساتھ جاوید میانداد تھا، آج جاوید ہاشمی ہے، کل کپتان کے ساتھ نئے کھلاڑی وسیم اکرم اور انضمام الحق تھے، آج اس کے ساتھ اسد عمر، ولید اقبال اور ابرار الحق جیسے نوجوان ہیں، دیکھیں یہ بڑے بڑے چیلنجز قبول کرنے والا کپتان تباہی سے دوچار پاکستان کو خوشحالی کے راستے پر ڈالے دے گا؟
چلتے چلتے یہ سن لیں اور مزید شاباش پی ٹی آئی کو! ہارنے والے محمودالرشید صاحب نے جیتنے والے عبدالعلیم خان کو پھولوں کے ہار پہنائے اور اب مل کر 23 مارچ کی حلف برداری والے جلسے کی تیاری کر رہے ہیں۔