محمد حفیظ کا کیریئر غیر محفوظ

غیر قانونی بولنگ ایکشن کیخلاف آئی سی سی کا ’’ایکشن‘‘


Abbas Raza November 19, 2017
سخت قوانین متعارف کروائے جانے کے بعد آپریشن کلین اپ میں آف سپنرز کی کم بختی آگئی۔ فوٹو : فائل

LONDON: آئی سی سی کے 25جون2014کو ہونے والے اجلاس میں مشکوک بولنگ ایکشن کے حوالے سے قوانین سخت کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ بازو کا خم 15ڈگری سے متجاوز ہونے پر بولرز کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، ماضی میں رپورٹ ہونے والے بولرز کو طبی بنیادوں پر چھوٹ دینے کے گنجائش تھی،یعنی کسی کا قدرتی طور پر، حادثے کا آپریشن کی وجہ سے بازو ٹیڑھا ہے تو اس کا عذر تسلیم کرلیا جاتا تھا، اس رعایت کا فائدہ شعیب ملک اور 2009میں رپورٹ ہونے والے سعید اجمل نے بھی اٹھایا۔

آئی سی سی کیساتھ وابستہ ماہرین کے مطابق اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ آسٹریلیا سمیت بعض ملکوں کی ڈومیسٹک کرکٹ میں ایسے سپنرز کی تلاش شروع ہوگئی تھی جن کے بازو قدرتی یا حادثاتی طور پر ٹیڑھے ہوں، مقصد یہ تھا کہ مخصوص زاویہ سے گھومنے والی گیندوں پر حریف ٹیم کو پریشان کرنے والے بولرز تیار کئے جاسکیں، دوسری جانب بولنگ ایکشن قانون میں تبدیلی کرنے پر آئی سی سی کا موقف تھا کہ اگر کسی بولر کا بازو قدرتی یا حادثاتی طور پر ٹیڑھا ہے تو اس کی سزا بیٹسمین کو کیوں دی جائے،اس کا حق ہے کہ صرف قانونی گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے بولرز کا مقابلہ کرے، مشکوک ایکشن کسی وجہ سے بھی ہو فیئر پلے کا تقاضا ہے کہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

سخت قوانین متعارف کروائے جانے کے بعد آپریشن کلین اپ میں آف سپنرز کی کم بختی آگئی،اس وقت ون ڈے کرکٹ کے نمبر ون بولر اور گزشتہ 3سال میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے سعید اجمل کا بولنگ ایکشن اگست 2014میں رپورٹ ہوگیا،انہوں نے بڑی محنت سے اصلاح کے بعد نیا ایکشن اختیار کیا اور ٹیسٹ بھی کلیئر کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن 2015میں کم بیک پر صرف2 ون ڈے اور 3ٹی ٹوئنٹی میچز میں ہی اندازہ ہوگیا کہ ان کی بولنگ میں دم خم نہیں رہا، قومی ٹیم سے ڈراپ ہوئے، طویل انتظار کے بعد دوبارہ جگہ بنتی نہ دیکھ کر رواں ماہ ریٹائرمنٹ کا اعلان بھی کردیا۔

دوسری جانب محمدحفیظ بھی بار بار شکوک کی زد میں آتے رہے، نومبر 2014 میں نیوزی لینڈ کیخلاف ابوظبی ٹیسٹ کے دوران ان کا بولنگ ایکشن رپورٹ ہوا، دسمبر میں آئی سی سی کی منظور شدہ لیب میں ہونے والے بائیومکینک ٹیسٹ میں بازو کا خم قانونی حد 15 ڈگری کی قانونی حد کے بجائے 31تک پائے جانے کے بعد انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں بولنگ سے روک دیا گیا، جنوری 2015 میں انہوں نے غیر رسمی ٹیسٹ کروایا تو بھی مسائل برقرار تھے، اصلاح کے لیے مزید کام کرنے کے بعد اپریل 2015 میں آئی سی سی کی نامزد لیب میں ہونے والے ٹیسٹ میں کلیئرنس پانے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی سال جون میں سری لنکا کیخلاف گال ٹیسٹ کے دوران دوبارہ شکوک کی زد میں آگئے، جولائی 2015 میں ایک سال کی پابندی عائد کر دی گئی، یاد رہے کہ اصلاح کے بعد کلیئر ہونے کے بعد اگلے 24ماہ میں کسی وقت بھی دوبارہ ایکشن غیر قانونی ثابت ہوجائے تو ایک سال کے لیے پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ مدت مکمل ہونے کے بعد محمد حفیظ نے دوبارہ بولنگ ایکشن کی اصلاح کے لیے کام کیا اور نومبر2016میں ایک بار پھر آل راؤنڈر کا سٹیٹس بحال کرانے میں کامیاب ہوگئے۔

گزشتہ ماہ سری لنکا کیخلاف ون ڈے سیریز کے تیسرے میچ میں بولنگ ایکشن مشکوک قرار دیتے ہوئے امپائرز نے آئی سی سی کو رپورٹ کردی، قواعد و ضوابط کے تحت آل راؤنڈر نے سیریز میں بولنگ جاری رکھی، انہیں یکم نومبر کو انگلینڈ میں لفبرا کی بائیو مکینک لیب میں ٹیسٹ کے لیے بھجوایا گیا،آئی سی سی کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق محمد حفیظ ایک بار پھر کلیئرنس پانے میں ناکام رہے، بائیو مکینک ٹیسٹ میں ان کی بیشتر گیندوں میں بازو کا خم 15 ڈگری سے زائد پایا گیا جو آئی سی سی قوانین کے آرٹیکل 11.1 کیخلاف ورزی ہے۔

موجودہ صورتحال میں آرٹیکل 4.5 کے تحت محمد حفیظ اپنے بولنگ ایکشن میں اصلاح کرکے دوبارہ ٹیسٹ دینے کے اہل ہونگے لیکن اس دوران انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں بولنگ کرانے کی اجازت نہیں ہوگی،دیگر ملکوں کے کرکٹ بورڈز بھی اپنی حدود میں ہونے والے ایونٹس میں اس فیصلے کا اطلاق کرنے کے پابند ہونگے، تاہم آف سپنر آرٹیکل 11.5کے تحت پی سی بی کی اجازت سے ڈومیسٹک ایونٹ میں بولنگ کرانے کے اہل ہوں گے، محمد حفیظ اپنے ایکشن کی اصلاح ہوجانے کی تسلی کے بعد کسی وقت بھی دوبارہ جائزے کے لیے آئی سی سی کو درخواست کرسکتے ہیں لیکن کلیئر ہوبھی گئے تو24 ماہ میں دوبارہ گرفت میں آنے پر ایک سال کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ میں بولنگ نہیں کرسکیں گے۔

ماضی میں بولنگ پر پابندی کے دوران بطور آل راؤنڈر ٹیم کے لیے خدمات پیش نہ کرپانے والے محمد حفیظ کی ٹیم میں جگہ بھی خطرے میں پڑتی رہی ہے،بیٹنگ فارم خراب ہونے کے بعد ان کو باہر بٹھادینے کی مثالیں بھی موجود ہیں، بطور بیٹسمین کارکردگی ذرا بھی خراب ہوئی تو بلال آصف سمیت چند نوجوان آل راؤنڈز ان کی جگہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، گرچہ سابق کپتان وسیم اکرم نے محمد حفیظ کو بولنگ کا خیال چھوڑ کر صرف بیٹنگ پر توجہ دینے کا مشورہ دیا ہے لیکن دیکھا جائے تو محمد حفیظ کی بولنگ پر پابندی پاکستان کرکٹ کا بڑا نقصان ہے۔

آف سپنر حریف ٹیموں کے لیفٹ ہینڈرز کیخلاف قومی ٹیم کا موئثر ہتھیار تھے،ایکشن غیر قانونی قرار دیئے جانے سے بولنگ کا کمبی نیشن خراب ہوگا،دراصل آف سپنرز کا سب سے موئثر ہتھیار ''دوسرا'' ہوتا ہے، سعید اجمل کے بعد سنیل نارائن نے اس فن میں اپنا لوہا منوایا لیکن اس گیند کو کرتے ہوئے بازو کا خم 15ڈگری سے زیادہ ہوجانے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، موجودہ صورتحال میں محمدحفیظ بولر نہیں رہیں گے، ایکشن نمایاں تبدیل ہوا تو موئثر ثابت نہ ہونے کا قوی امکان ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ آل راؤنڈر تینوں بار انٹرنیشنل ایونٹس اور ایک مرتبہ بھارت میں چیمپئنز لیگ کے دوران رپورٹ ہوئے تھے، سری لنکا کیخلاف سیریز کے جس ون ڈے میچ میں ان کے بولنگ ایکشن پر شکوک کا اظہار کیا، اس میں بھارتی روی سندرم اور احسن رضا فیلڈ، رچرڈ کیٹل برو ٹی وی امپائر جبکہ اینڈی پائی کرافٹ ریفری تھے۔

گزشتہ پابندی کی ایک سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد محمد حفیظ نے ایکشن کی اصلاح کرتے ہوئے بائیو مکینک ٹیسٹ میں کلیئرنس پائی اور دوبارہ بولنگ شروع کی، سری لنکا کیخلاف سیریز میں رپورٹ کئے جانے سے قبل رواں سیزن کے قائد اعظم ٹرافی میچز میں بھی سوئی ناردرن گیس ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے ایکشن میں رہے، 14.28کی اوسط سے 7وکٹیں بھی حاصل کیں، ایک اننگز میں 62رنز دیکر 4شکار بھی کئے لیکن کسی ڈومیسٹک امپائرزکی نظریں قطعی طور پر کسی غیر قانونی گیند کو نہ بھانپ سکیں جبکہ آئی سی سی کی نامزد لفبرو لیب میں ان کی بیشترگیندیں میں بازو کا خم 15ڈگری سے زیادہ نوٹ کیا گیا۔

حیرت ہے کہ ہزاروں ماہانہ کے سنٹرل کنٹریکٹ پانے والوں سمیت کسی کو ایکشن میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی، ایک عرصہ قبل معلوم ہواتھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں 70کے قریب بولرز شکوک کی زد میں آئے ہیں لیکن بعد ازاں اس ضمن میں کیا کام ہوا، کسی کو معلوم نہیں، دوسری جانب طویل عرصہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بیکار پڑی رہنے کے بعد مقامی یونیورسٹی کی معاونت سے فعال کی جانے والی بائیومکینک لیب کی افادیت کی بھی کوئی افادیت نظر نہیں آرہی۔

سابق کپتان ماجد خان کہتے رہے ہیں کہ دنیا کا کوئی آف سپنر بازو کے خم میں تبدیلی کئے بغیر گیند کو گھمانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، ان کا موقف پیش نظر رکھا جائے تو آئی سی سی کے وضع کردہ سخت قوانین کو ہی چیلنج کیا جانا چاہیے،اس کا مشورہ شعیب اختر نے بھی دیا ہے،سابق سپیڈ سٹار کا خیال ہے کہ متاثرہ کرکٹرز کے بورڈز کو عالمی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے قوانین میں تبدیلی کے لیے کام کرنا چاہیے۔

پی سی بی میں تو شاید کبھی یہ ہمت پیدا نہ ہوا، طاقتور بھارتی بورڈ کرسکتا تھا لیکن روی چندرن ایشون جیسے ''چکر'' کو کلیئر کروالینے کے بعد شاید اس کو قانون تبدیل کروانے کی ضرورت ہی نہیں رہی، ان حالات میں کمزور پی سی بی کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ موجودہ بولنگ ایکشن قوانین کے تقاضوں پر پورا نہ اترنے والے سپنرز پر ڈومیسٹک کرکٹ میں ہی نظر رکھے، نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تھوڑی محنت سے اصلاح ممکن ہوتو کام کیا جائے، دوسری صورت میں مشکوک ایکشن والے بولرز کا انبار لگا کر سبکی نہ اٹھائی جائے۔

اس پروگرام میں ''دوسرا'' کے موجود ثقلین مشتاق اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،انہیں دنیا بھر میں سپنرز کیساتھ کام کرنے کا تجربہ اور جدید کرکٹ کے تقاضوں سے بھی آشنا ہیں،بولنگ ایکشن کی جانچ کے لیے بنائی جانے والی سوفٹ ویئر کا استعمال بھی جانتے ہیں،مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے سپنرز کی رہنمائی کرنے والے سابق کرکٹر کی پی سی بی نی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی،قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال شاداب خان جیسے لیگ سپنر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں آمد پاکستان کرکٹ کے لیے اچھا شگون ہے لیکن اس طرح کے خوشگوار تجربات کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں،دائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے آف سپنرز تیار کرنے کے لیے جدید خطوط پر تربیت کی اشد ضرورت ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں