علم اور فن کا فرق
یہ خیال کہ جدید سائنسی علمیت کے بغیر فنون کا حصول ممکن نہیں تاریخی غلط بیانی ہے۔
GILGIT:
جدید تعلیم کے مقصد اور افادیت کے بارے میں کالم کی اشاعت کے بعدکئی سوالات سامنے آئے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر مزید بات ہو۔ علم کیا ہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے۔ ہمارے سامنے جب بھی علم اور تعلیم کی بات آتی ہے، ہمارا ذہن اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے مروجہ علوم ہی کی جانب جاتا ہے۔ ہمارے لکھنے، بولنے اور پڑھانے والے افراد، اصحابِ علم و دانش، ہمارے سیاست کار اور ذرایع ابلاغ مروجہ علمیت کو علمیت ثابت کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ آسمان زمین کے قلابے ملا دیتے ہیں بلکہ قرآنی آیات و احادیث بھی بیان فرما دیتے ہیں۔
سترہویں صدی سے پہلے ٹیکنالوجی کا انحصار سائنٹیفک میتھڈ پر نہیں بلکہ مختلف مہارتوں پر ہوا کرتا تھا۔ سترہویں صدی کے بعد ٹیکنالوجی کا انحصار جدید سائنسی علم کے وضع کردہ سائنٹیفک میتھڈ پر ہوگیا۔ نتیجے میں ٹیکنالوجی نہایت طاقت کی حامل ہوگئی اور ٹیکنو سائنس بن گئی۔ عیسوی دنیا پر علمی زوال آیا تو دینی علوم کلیسا سے یونیورسٹی میں منتقل ہوئے۔ یوں سائنسی علم کا مرکز یونیورسٹی قرار پائی۔ یونیورسٹی کے ذریعے یونانی اور رومی خیالات جدید سائنس کے بانیوں تک پہنچے۔
رفتہ رفتہ یہی جامعات عیسائی مذہبی تعلیمات سے مکمل لاتعلق ہو کر صرف علوم عقلیہ کی ترجمان بن گئیں۔ یونیورسٹی وہ مقام تھا جس کے بغیر سائنس کا عملی اطلاق ممکن نہیں تھا۔ سائنسی نظریات کو تجرباتی سطح پر یونیورسٹی کے ذریعے قابل عمل بنایا گیا۔ یونیورسٹی کے ذریعے اس وقت رائج مذہبی روایات کے اندر سے ہی لا مذہبی اور فطری اقدار کے ظہور کو ممکن بنایا گیا اور سائنسی کو جبراً پوری دنیا پر مسلط کردیا گیا۔
یہ خیال کہ جدید سائنسی علمیت کے بغیر فنون کا حصول ممکن نہیں تاریخی غلط بیانی ہے۔ جدید سائنسی علمیت اور سائنٹیفک میتھڈ کے بغیر دنیا کی تمام زرخیز تہذیبوں میں نہایت طاقت ور ترین ٹیکنالوجی موجود تھی جس سے مختلف فنون پرورش پاتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے دس ہزار سال پہلے بھی دنیا میں نہایت زرخیز علوم عملیہ موجود تھے۔ ایران، عراق، عاد و ثمود، قوم سبا، یونان، چین، روما، ہند موہن جو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا، مہر گڑھ، اجنتا، ایلورا میں اس سوجھ بوجھ کے بے شمار آثار آج بھی میسر ہیں۔ قدیم معاشروں کی سائنس جدید سائنس اور سائنٹیفک میتھڈ سے بالکل مختلف فن تھا۔مایا تہذیب کو دیکھئے ۔
روم میں بہترین سڑکیں اور حمام موجود تھے۔ روزانہ دو ملین گیلن پانی روم میں لایا جاتا، پہاڑوں سے نہریں نکال کر تازہ پانی مہیا ہوتا، ہر شخص کو روزانہ دو سو گیلن پانی ملتا تھا۔ شہر کی آبادی دس لاکھ تھی، حمام میں بیک وقت چھ سو سے دو ہزار آدمی تک نہا سکتے تھے۔ پلمبنگ کا کام رومیوں کے یہاں بہترین انداز میں موجود تھا۔ اہرام مصر، عاد و ثمود کے محلات جن میں بجلی کے بغیر پانی اور مکانوں کو ٹھنڈا رکھنے کی ٹیکنالوجی موجود تھی۔ جب ایک کاری گر ایک کام شروع کرتا ایک عمل کا آغاز کرتا تو تخلیق کے سوتے پھوٹتے چلے جاتے اور شاہکار وجود میں آتے رہتے۔
یہ ہنر مند کچھ کہتے نہیں تھے۔ وہ بہت کچھ کر کے دکھاتے تھے، وہ درس گاہوں اور یونیورسٹیوں سے یہ فن حاصل نہیں کرتے تھے۔ فن ان کی زندگی میں رچا بسا تھا۔ ہر شخص اپنی صلاحیت کے ذریعے اس کا اظہار اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر کرتا تھا، یہ کام کسی تعلیمی نظام کے جبر کے ذریعے انجام نہیں پاتا تھا۔ یہ رضا کارانہ عمل تھا، جس میں فنکار کی خوشی اور دلی شمولیت اس کے لیے کام کو ایک مقصد اور لگن کا سبب بنا دیتی تھی۔ ان شاہکاروں کو آج بھی دیکھیں تو عقل حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، مغلوں کے دور کا ایک حمام جو گرم پانی دیتا تھا، انگریزوں نے توانائی کا ماخذ معلوم کرنے کے لیے کھدائی کی تو ایک جلتا ہوا فیتہ نظر آیا، حمام ٹھنڈا ہوگیا اس کے بعد پانی کبھی گرم نہیں ہوسکا۔ ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد جہاں بجلی اور لائوڈ اسپیکر کے بغیر صوتی نظام بہترین شکل میں موجود ہے۔ ہندوستان کی ایک خانقاہ، جہاں فرش کی صفائی کے لیے ہوا داری کا زبردست نظام کام کرتا ہے، ہوا ایسی سمت سے اور ایسے رخ سے داخل ہوتی ہے کہ وہ فرش کی مٹی کوڑے، کاغذوں کو جھاڑو دیتے ہوئے درگاہ کے آخری حصے میں موجود کوڑے دان کے اندر پہنچا دیتی ہے، جھاڑو دینے کا یہ عمل چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔
ہوا کے خاکروب کے ذریعے افرادی قوت کے بغیر صفائی کا یہ طرز ایک معجزہ نظر آتا ہے۔ اہرام کی عمارتیں جہاں پچاس سال سے تحقیقات ہو رہی ہیں مگر اب تک بہت سے راز سر بستہ ہیں۔ چین کے محلات، دیوار چین، تاریخی آثار، یونان کی عمارتیں اسٹڈیم، روما کی عظیم الشان عمارات، بابل نینوا کے کھنڈرات، موہن جو دڑو، ہڑپہ وغیرہ کے تاریخی عظیم الشان آثار و عمارات میں کتابوں، تجربہ گاہوں، تحریر کے علم کا ہر ایک کی دسترس میں ہونا۔ سائنسی علمیت اورسائنٹیفک میتھڈ کے بغیر ان تہذیبوں نے تاریخ میں غیر معمولی آثار چھوڑے ہیں۔ لہٰذا یہ تصور کرنا کہ سائنسی علمیت کے بغیر زندگی میں رنگ، سہولتیں، تعمیر کے کام ممکن نہیں، تاریخ سے ناواقفیت کا شاخسانہ ہے۔ تاریخ طب کی کتابوں سے ہمیں بے شمار واقعات میسر ہیں جو بتاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی، ذہانت ہردور میں رہی ہے۔
انسان نے اپنی ضروریات کے لیے فنون کو ہر عہد میں ایجاد کیا ہے لیکن ان فنون کو اصل علم سمجھنا ہرشے کو پرکھنے کا پیمانہ ان کام چلانے والے علوم کے اصولوں پر رکھنا، کبھی تاریخ انسانی میں کسی تہذیب کا مطمع نظر نہیں رہا۔ ہر شے کو اس کے مقام پر رکھنا عدل کا تقاضا ہے۔
آج کل ابن سینا، ابن الہیثم، رازی اور دیگر ہنرمندوں کو نہایت تکریم، احترام اور عظمت کے ساتھ مغرب کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کو اپنے عہد میں وہ مقام اور مرتبہ حاصل تھا جو اس وقت حاصل ہے؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہے۔ اس زمانے کا تعقل غالب کچھ اور تھا۔ فکر آخرت غالب تھی، دنیا پر آخرت کو ترجیح حاصل تھی لہٰذا دیگر علوم اہم تھے عقلی، کسبی، طبعی، مادی علوم اور ان کے عالم غیر اہم تھے۔
یہ فنون علوم کی تلچھٹ سمجھے جاتے تھے۔ ان شعبوں میں بڑے آدمی نہیں جاتے تھے ۔ ان شعبوں کے بڑے لوگ بھی اپنے عہد میں بہت زیادہ بڑے نہیں سمجھے جاتے تھے۔ اس تعقل غالب کے ہوتے ہو ئے ابن سینا کو اپنے زمانے میں وہ مقام وہ مر تبہ نہیں ملا جو اس وقت دیا جارہا ہے ۔کیونکہ عہدِ حاضر کا تعقل غالب کچھ اور ہے۔ آج مادہ اور علوم عقلیہ ہی اصل علوم قرار دیے گئے ہیں ۔ غیر تجربی، غیر مادی، شاعری ، خطاطی وغیرہ کو دائرہ علم سے خارج کردیا گیا ہے ۔ ابن سینا اور دیگر اسلامی ماہرین علوم عقلیہ اب ہر حوالے میں استعمال ہو رہے ہیں ۔
مغرب کے پاس آئن اسٹائن، نیوٹن، گیلی لیو، کیلر، راجر بیکن ہے تو عالم اسلام اس کے جواب میں اپنے ماہرین علوم عقلیہ کو پیش کرتا ہے۔ان ماہرین کو مغرب کے مقابلے میں پیش کرکے ہم مغرب سے ہم آہنگ ہونے کا عقلی جواز پیش کرتے ہیں اور اپنے احساس کمتری کو چھپانے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ دو کشتیوں کا سوار کبھی پار نہیں لگا کرتا۔علم و فن کی اصطلاحات کی درست تعبیر کے بغیرکم ازکم ذہنی ، اخلاقی اور روحانی ترقی ممکن نہیں۔
جدید تعلیم کے مقصد اور افادیت کے بارے میں کالم کی اشاعت کے بعدکئی سوالات سامنے آئے۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر مزید بات ہو۔ علم کیا ہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے۔ ہمارے سامنے جب بھی علم اور تعلیم کی بات آتی ہے، ہمارا ذہن اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے مروجہ علوم ہی کی جانب جاتا ہے۔ ہمارے لکھنے، بولنے اور پڑھانے والے افراد، اصحابِ علم و دانش، ہمارے سیاست کار اور ذرایع ابلاغ مروجہ علمیت کو علمیت ثابت کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ آسمان زمین کے قلابے ملا دیتے ہیں بلکہ قرآنی آیات و احادیث بھی بیان فرما دیتے ہیں۔
سترہویں صدی سے پہلے ٹیکنالوجی کا انحصار سائنٹیفک میتھڈ پر نہیں بلکہ مختلف مہارتوں پر ہوا کرتا تھا۔ سترہویں صدی کے بعد ٹیکنالوجی کا انحصار جدید سائنسی علم کے وضع کردہ سائنٹیفک میتھڈ پر ہوگیا۔ نتیجے میں ٹیکنالوجی نہایت طاقت کی حامل ہوگئی اور ٹیکنو سائنس بن گئی۔ عیسوی دنیا پر علمی زوال آیا تو دینی علوم کلیسا سے یونیورسٹی میں منتقل ہوئے۔ یوں سائنسی علم کا مرکز یونیورسٹی قرار پائی۔ یونیورسٹی کے ذریعے یونانی اور رومی خیالات جدید سائنس کے بانیوں تک پہنچے۔
رفتہ رفتہ یہی جامعات عیسائی مذہبی تعلیمات سے مکمل لاتعلق ہو کر صرف علوم عقلیہ کی ترجمان بن گئیں۔ یونیورسٹی وہ مقام تھا جس کے بغیر سائنس کا عملی اطلاق ممکن نہیں تھا۔ سائنسی نظریات کو تجرباتی سطح پر یونیورسٹی کے ذریعے قابل عمل بنایا گیا۔ یونیورسٹی کے ذریعے اس وقت رائج مذہبی روایات کے اندر سے ہی لا مذہبی اور فطری اقدار کے ظہور کو ممکن بنایا گیا اور سائنسی کو جبراً پوری دنیا پر مسلط کردیا گیا۔
یہ خیال کہ جدید سائنسی علمیت کے بغیر فنون کا حصول ممکن نہیں تاریخی غلط بیانی ہے۔ جدید سائنسی علمیت اور سائنٹیفک میتھڈ کے بغیر دنیا کی تمام زرخیز تہذیبوں میں نہایت طاقت ور ترین ٹیکنالوجی موجود تھی جس سے مختلف فنون پرورش پاتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے دس ہزار سال پہلے بھی دنیا میں نہایت زرخیز علوم عملیہ موجود تھے۔ ایران، عراق، عاد و ثمود، قوم سبا، یونان، چین، روما، ہند موہن جو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا، مہر گڑھ، اجنتا، ایلورا میں اس سوجھ بوجھ کے بے شمار آثار آج بھی میسر ہیں۔ قدیم معاشروں کی سائنس جدید سائنس اور سائنٹیفک میتھڈ سے بالکل مختلف فن تھا۔مایا تہذیب کو دیکھئے ۔
روم میں بہترین سڑکیں اور حمام موجود تھے۔ روزانہ دو ملین گیلن پانی روم میں لایا جاتا، پہاڑوں سے نہریں نکال کر تازہ پانی مہیا ہوتا، ہر شخص کو روزانہ دو سو گیلن پانی ملتا تھا۔ شہر کی آبادی دس لاکھ تھی، حمام میں بیک وقت چھ سو سے دو ہزار آدمی تک نہا سکتے تھے۔ پلمبنگ کا کام رومیوں کے یہاں بہترین انداز میں موجود تھا۔ اہرام مصر، عاد و ثمود کے محلات جن میں بجلی کے بغیر پانی اور مکانوں کو ٹھنڈا رکھنے کی ٹیکنالوجی موجود تھی۔ جب ایک کاری گر ایک کام شروع کرتا ایک عمل کا آغاز کرتا تو تخلیق کے سوتے پھوٹتے چلے جاتے اور شاہکار وجود میں آتے رہتے۔
یہ ہنر مند کچھ کہتے نہیں تھے۔ وہ بہت کچھ کر کے دکھاتے تھے، وہ درس گاہوں اور یونیورسٹیوں سے یہ فن حاصل نہیں کرتے تھے۔ فن ان کی زندگی میں رچا بسا تھا۔ ہر شخص اپنی صلاحیت کے ذریعے اس کا اظہار اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر کرتا تھا، یہ کام کسی تعلیمی نظام کے جبر کے ذریعے انجام نہیں پاتا تھا۔ یہ رضا کارانہ عمل تھا، جس میں فنکار کی خوشی اور دلی شمولیت اس کے لیے کام کو ایک مقصد اور لگن کا سبب بنا دیتی تھی۔ ان شاہکاروں کو آج بھی دیکھیں تو عقل حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، مغلوں کے دور کا ایک حمام جو گرم پانی دیتا تھا، انگریزوں نے توانائی کا ماخذ معلوم کرنے کے لیے کھدائی کی تو ایک جلتا ہوا فیتہ نظر آیا، حمام ٹھنڈا ہوگیا اس کے بعد پانی کبھی گرم نہیں ہوسکا۔ ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد جہاں بجلی اور لائوڈ اسپیکر کے بغیر صوتی نظام بہترین شکل میں موجود ہے۔ ہندوستان کی ایک خانقاہ، جہاں فرش کی صفائی کے لیے ہوا داری کا زبردست نظام کام کرتا ہے، ہوا ایسی سمت سے اور ایسے رخ سے داخل ہوتی ہے کہ وہ فرش کی مٹی کوڑے، کاغذوں کو جھاڑو دیتے ہوئے درگاہ کے آخری حصے میں موجود کوڑے دان کے اندر پہنچا دیتی ہے، جھاڑو دینے کا یہ عمل چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔
ہوا کے خاکروب کے ذریعے افرادی قوت کے بغیر صفائی کا یہ طرز ایک معجزہ نظر آتا ہے۔ اہرام کی عمارتیں جہاں پچاس سال سے تحقیقات ہو رہی ہیں مگر اب تک بہت سے راز سر بستہ ہیں۔ چین کے محلات، دیوار چین، تاریخی آثار، یونان کی عمارتیں اسٹڈیم، روما کی عظیم الشان عمارات، بابل نینوا کے کھنڈرات، موہن جو دڑو، ہڑپہ وغیرہ کے تاریخی عظیم الشان آثار و عمارات میں کتابوں، تجربہ گاہوں، تحریر کے علم کا ہر ایک کی دسترس میں ہونا۔ سائنسی علمیت اورسائنٹیفک میتھڈ کے بغیر ان تہذیبوں نے تاریخ میں غیر معمولی آثار چھوڑے ہیں۔ لہٰذا یہ تصور کرنا کہ سائنسی علمیت کے بغیر زندگی میں رنگ، سہولتیں، تعمیر کے کام ممکن نہیں، تاریخ سے ناواقفیت کا شاخسانہ ہے۔ تاریخ طب کی کتابوں سے ہمیں بے شمار واقعات میسر ہیں جو بتاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی، ذہانت ہردور میں رہی ہے۔
انسان نے اپنی ضروریات کے لیے فنون کو ہر عہد میں ایجاد کیا ہے لیکن ان فنون کو اصل علم سمجھنا ہرشے کو پرکھنے کا پیمانہ ان کام چلانے والے علوم کے اصولوں پر رکھنا، کبھی تاریخ انسانی میں کسی تہذیب کا مطمع نظر نہیں رہا۔ ہر شے کو اس کے مقام پر رکھنا عدل کا تقاضا ہے۔
آج کل ابن سینا، ابن الہیثم، رازی اور دیگر ہنرمندوں کو نہایت تکریم، احترام اور عظمت کے ساتھ مغرب کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کو اپنے عہد میں وہ مقام اور مرتبہ حاصل تھا جو اس وقت حاصل ہے؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہے۔ اس زمانے کا تعقل غالب کچھ اور تھا۔ فکر آخرت غالب تھی، دنیا پر آخرت کو ترجیح حاصل تھی لہٰذا دیگر علوم اہم تھے عقلی، کسبی، طبعی، مادی علوم اور ان کے عالم غیر اہم تھے۔
یہ فنون علوم کی تلچھٹ سمجھے جاتے تھے۔ ان شعبوں میں بڑے آدمی نہیں جاتے تھے ۔ ان شعبوں کے بڑے لوگ بھی اپنے عہد میں بہت زیادہ بڑے نہیں سمجھے جاتے تھے۔ اس تعقل غالب کے ہوتے ہو ئے ابن سینا کو اپنے زمانے میں وہ مقام وہ مر تبہ نہیں ملا جو اس وقت دیا جارہا ہے ۔کیونکہ عہدِ حاضر کا تعقل غالب کچھ اور ہے۔ آج مادہ اور علوم عقلیہ ہی اصل علوم قرار دیے گئے ہیں ۔ غیر تجربی، غیر مادی، شاعری ، خطاطی وغیرہ کو دائرہ علم سے خارج کردیا گیا ہے ۔ ابن سینا اور دیگر اسلامی ماہرین علوم عقلیہ اب ہر حوالے میں استعمال ہو رہے ہیں ۔
مغرب کے پاس آئن اسٹائن، نیوٹن، گیلی لیو، کیلر، راجر بیکن ہے تو عالم اسلام اس کے جواب میں اپنے ماہرین علوم عقلیہ کو پیش کرتا ہے۔ان ماہرین کو مغرب کے مقابلے میں پیش کرکے ہم مغرب سے ہم آہنگ ہونے کا عقلی جواز پیش کرتے ہیں اور اپنے احساس کمتری کو چھپانے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ دو کشتیوں کا سوار کبھی پار نہیں لگا کرتا۔علم و فن کی اصطلاحات کی درست تعبیر کے بغیرکم ازکم ذہنی ، اخلاقی اور روحانی ترقی ممکن نہیں۔