ہاکی کو اب بھی پاکستان کا قومی کھیل رہنا چاہیے
گرین شرٹس 23 سال میں ایک بھی عالمی ٹائٹل حاصل نہ کر سکے
ایک وقت تھا جب پاکستان ہاکی ٹیم کی کامیابیوں کے ہر سو چرچے تھے، اس کھیل سے وابستہ کھلاڑی جدھر جاتے، شائقین پرتپاک استقبال کرتے، سر آنکھوں پر بٹھاتے، انہیں صدارتی ایوارڈز، مہنگے ترین پلاٹس اور دیگر مراعات سے نوازا جاتا، ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں مدعو کیا جاتا، سرکاری اداروں میں پرکشش ملازمتیں دی جاتیں، لیکن اب شاید وہ ہاکی کا سنہری دور ماضی کا قصہ بن چکا۔
گرین شرٹس1994کے بعد سے ورلڈ کپ کے ٹائٹل سے محروم ہیں، اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دنیا بھر کے عالمی اعزازات اپنے نام کرنے والی قومی ہاکی ٹیم ورلڈ کپ 2014ء کے بعد اولمپکس 2016ء سے بھی باہر ہو گئی، ٹیم کی ناکامیوں کا سفر تاحال جاری ہے، ایشیا کپ بالخصوص آسٹریلیا میں شیڈول4ملکی انٹرنیشنل فیسٹول میں پاکستانی ٹیم کی شرمناک شکستوں کے بعد سوشل میڈیا میں طوفان مچا ہوا ہے، کوئی ان ناکامیوں کا ذمہ دار موجودہ فیڈریشن کو قرار دے رہا ہے تو کوئی عہدیداروں کو ہٹانے کے مطالبے کر رہا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے گزشتہ ایڈیشن میں راقم کا آرٹیکل ''اور ہاکی ٹوٹ گئی'' شائع ہوا تو دنیا بھر سے شائقین کا ردعمل سامنے آیا، آسٹریلیا سے ایک شائق رضا سعید کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا میں موجود تارکین وطن کو طعنے دیئے جا رہے ہیں کہ یہ ہے وہ تمہاری ٹیم جس کی غیر معمولی کارکردگی کا تم دعوی کیا کرتے تھے، اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، یہ ٹیم تو ہمارے ملک کی کسی کلب سطح کی ٹیم کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔
انگلینڈ میں موجود ایک اور شائق زبیر احمد سعد کے مطابق ہاکی پاکستان کا قومی کھیل اس لئے تھا کہ اس نے دنیا بھر میں پاکستان کی آن بان شان میں اضافہ کیا لیکن یہی ٹیم اب دیار غیر میں پاکستان کی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے، اگر شرمندگی اور ناکامی ہی گرین شرٹس کا مقدر بن چکی ہے تو ہاکی کی بجائے کرکٹ یا کسی اور گیم کو پاکستان کا قومی کھیل قرار دے دینا چاہیے۔
ہاکی کو ہی پاکستان کا قومی کھیل برقرار رہنا چاہیے یا اس کی جگہ کسی کھیل کو دے دینی چاہیے، یہ موضوع قابل بحث ہیں تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ نصف صدی کی عالمی حکمرانی کے بعد ہاکی تیزی سے ناکامیوں اور پستیوں کی گھاٹیوں میں گرتی جا رہی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ سرکاری طور پر اب بھی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے عوامی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اس کھیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ قارئین کی معلومات کے لئے ہاکی ہمیشہ سے پاکستان کا قومی کھیل نہیں تھی، درحقیقت 1950 کی دہائی کے آخر تک کسی بھی کھیل کو قومی حیثیت حاصل نہیں تھی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے پہلے ٹیسٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار کی زیرقیادت متاثر کن نتائج پیش کئے تو کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ کرکٹ کو پاکستان کا قومی کھیل قرار دیا جائے، مگر پھر تین ایسے مواقع سامنے آئے جس سے نہ صرف ہاکی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا بلکہ آخر کار ریاست نے اسے پاکستان کا قومی کھیل بھی قرار دے دیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہیں کرکٹ پسند ہی نہیں تھی۔
خوش قسمتی سے پاکستانی ٹیم نے 1960ء میں روم اولمپکس کے فائنل میں بھارت کو شکست دے کر پہلا اولمپک ہاکی ٹائٹل اپنے نام کیا تو ہاکی صدر ایوب کا مزید محبوب کھیل بن گیا، اس وقت ایوب خان کی اقتدار پر گرفت مضبوط تھی، انہوں نے اس فتح کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے پاکستانی معاشرے اور نظام حکومت کی پیشرفت اور ترقی کی علامت کے طور پر پیش کیا ۔ہاکی میں پاکستان کی شہرت آسمان کو چھونے لگی۔
گزشتہ تین دہائیوں سے کرکٹ پاکستان کا محبوب کھیل ہے، ٹیم کے تمام تر تنازعات اور مسائل کے باوجود کرکٹرز ہی نوجوانوں کے آئیڈیل ہیں، کرکٹ ہی واحد گیم ہے جو ملک کے تمام صوبوں کو آپس میں تسبیح کے دانوں کی طرح آپس میں پروئے ہوئے ہے، پاک، بھارت میں جب بھی اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی ہے تو کرکٹ ڈپلومیسی کو ہی بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے،شائقین یہ سوچنے اور غور کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جب کرکٹ ہی ملکی یکجہتی کی علامت کا روپ دھار چکی ہے تو کیوں نہ اس گیم کو ہی قومی کھیل کا درجہ قرار دے دیا جائے۔
گرین شرٹس1994کے بعد سے ورلڈ کپ کے ٹائٹل سے محروم ہیں، اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دنیا بھر کے عالمی اعزازات اپنے نام کرنے والی قومی ہاکی ٹیم ورلڈ کپ 2014ء کے بعد اولمپکس 2016ء سے بھی باہر ہو گئی، ٹیم کی ناکامیوں کا سفر تاحال جاری ہے، ایشیا کپ بالخصوص آسٹریلیا میں شیڈول4ملکی انٹرنیشنل فیسٹول میں پاکستانی ٹیم کی شرمناک شکستوں کے بعد سوشل میڈیا میں طوفان مچا ہوا ہے، کوئی ان ناکامیوں کا ذمہ دار موجودہ فیڈریشن کو قرار دے رہا ہے تو کوئی عہدیداروں کو ہٹانے کے مطالبے کر رہا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے گزشتہ ایڈیشن میں راقم کا آرٹیکل ''اور ہاکی ٹوٹ گئی'' شائع ہوا تو دنیا بھر سے شائقین کا ردعمل سامنے آیا، آسٹریلیا سے ایک شائق رضا سعید کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا میں موجود تارکین وطن کو طعنے دیئے جا رہے ہیں کہ یہ ہے وہ تمہاری ٹیم جس کی غیر معمولی کارکردگی کا تم دعوی کیا کرتے تھے، اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، یہ ٹیم تو ہمارے ملک کی کسی کلب سطح کی ٹیم کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔
انگلینڈ میں موجود ایک اور شائق زبیر احمد سعد کے مطابق ہاکی پاکستان کا قومی کھیل اس لئے تھا کہ اس نے دنیا بھر میں پاکستان کی آن بان شان میں اضافہ کیا لیکن یہی ٹیم اب دیار غیر میں پاکستان کی شرمندگی کا باعث بن رہی ہے، اگر شرمندگی اور ناکامی ہی گرین شرٹس کا مقدر بن چکی ہے تو ہاکی کی بجائے کرکٹ یا کسی اور گیم کو پاکستان کا قومی کھیل قرار دے دینا چاہیے۔
ہاکی کو ہی پاکستان کا قومی کھیل برقرار رہنا چاہیے یا اس کی جگہ کسی کھیل کو دے دینی چاہیے، یہ موضوع قابل بحث ہیں تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ نصف صدی کی عالمی حکمرانی کے بعد ہاکی تیزی سے ناکامیوں اور پستیوں کی گھاٹیوں میں گرتی جا رہی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ سرکاری طور پر اب بھی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے عوامی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اس کھیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ قارئین کی معلومات کے لئے ہاکی ہمیشہ سے پاکستان کا قومی کھیل نہیں تھی، درحقیقت 1950 کی دہائی کے آخر تک کسی بھی کھیل کو قومی حیثیت حاصل نہیں تھی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے پہلے ٹیسٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار کی زیرقیادت متاثر کن نتائج پیش کئے تو کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ کرکٹ کو پاکستان کا قومی کھیل قرار دیا جائے، مگر پھر تین ایسے مواقع سامنے آئے جس سے نہ صرف ہاکی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا بلکہ آخر کار ریاست نے اسے پاکستان کا قومی کھیل بھی قرار دے دیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہیں کرکٹ پسند ہی نہیں تھی۔
خوش قسمتی سے پاکستانی ٹیم نے 1960ء میں روم اولمپکس کے فائنل میں بھارت کو شکست دے کر پہلا اولمپک ہاکی ٹائٹل اپنے نام کیا تو ہاکی صدر ایوب کا مزید محبوب کھیل بن گیا، اس وقت ایوب خان کی اقتدار پر گرفت مضبوط تھی، انہوں نے اس فتح کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے پاکستانی معاشرے اور نظام حکومت کی پیشرفت اور ترقی کی علامت کے طور پر پیش کیا ۔ہاکی میں پاکستان کی شہرت آسمان کو چھونے لگی۔
گزشتہ تین دہائیوں سے کرکٹ پاکستان کا محبوب کھیل ہے، ٹیم کے تمام تر تنازعات اور مسائل کے باوجود کرکٹرز ہی نوجوانوں کے آئیڈیل ہیں، کرکٹ ہی واحد گیم ہے جو ملک کے تمام صوبوں کو آپس میں تسبیح کے دانوں کی طرح آپس میں پروئے ہوئے ہے، پاک، بھارت میں جب بھی اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی ہے تو کرکٹ ڈپلومیسی کو ہی بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے،شائقین یہ سوچنے اور غور کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جب کرکٹ ہی ملکی یکجہتی کی علامت کا روپ دھار چکی ہے تو کیوں نہ اس گیم کو ہی قومی کھیل کا درجہ قرار دے دیا جائے۔