سینٹری ورکرز کی ٹارگٹ کلنگ پر شہر میں خوف و ہراس
قاتلوں کی عدم گرفتاری پر مظاہرے، ملازمین کیلئے یونیفارم کی شرط ختم، ڈیوٹی ٹائمنگ تبدیل
پنجاب حکومت عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں کی مد سے خطیر رقم امن وامان کے قیام کے لیے خرچ کرتی ہے تاکہ عوام کے جان و مال کا تحفظ ممکن بنایا جاسکے اور عوام اپنے علاقے اور ملک کے ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں انہیں ٹیکسوں کی مد سے حاصل ہونے والی آمدن سے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی تنخواہیں اور اس کی استعداد کار بڑھانے کے لیے وسائل و آلات مہیا کیے جاتے ہیں۔ راولپنڈی میں بھی گذشتہ سالوں کے دوران محکمہ پولیس کی استعداد کار بڑھانے کے لیے اقدامات کئے گئے، جن میں دہشت گردی کی روک تھام اور اس سے جڑے مقدمات کی تفتیش کرنے کے لیے کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ جیسے شعبے کا اضافہ کیا گیا، جو بھرپور انداز میں آپریشنل ہے۔
اسی طرح فرانزک سائنس ایجنسی کا کولیکشن پوائنٹ قائم کرکے کرائم سین کو محفوظ بنانے اور وہاں سے شواہد ا کھٹے کرنے کے لیے ماہرین تعینات کیے گئے ہیں تو دوسری طرف سی پیک سے جڑے منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے چاہنیز سمیت غیر ملکی ماہرین کی حفاظت کے لیے الگ سے پولیس کے خصوصی یونٹ سپیشل پروٹیکشن یونٹ کا قیام عمل میں لایاگیا ہے۔ آبادی کو مدنظر رکھ کر نئے تھانے اور پولیس چوکیاں قائم کیں گئیں اور قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کے لیے سرکل کی سطح پر انویسٹی ونگ کے ہومی سائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ تشکیل دیئے، جن کے ذمہ داری صرف قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کرنا ہے، یوں راولپنڈی میں امن وامان کی صورت حال دیگر شہروں سے بہتر ہونا چاہیے اور جرائم پیشہ عناصر کو یہاں آکر جرم کرتے ہوئے ڈرنا چاہیے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دو سابق وزراء اعظم کو اسی شہر میں قتل کیاگیا تو اسی شہر میں سابق صدر پر جان لیوا خودکش حملے بھی ہوئے۔
ہائی پروفائل واقعات کے علاوہ راولپنڈی میں عام جرائم کی صورت حال بھی گھمبیر ہے۔ سٹریٹ کرائم میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے، جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، یہ سب کچھ مسند اقتدار پر بیٹھنے اور عوام کے بھاری ٹیکسوں کے ذریعے مراعات اور تنخواہیں پانے والے ارباب اختیار اور ضلعی و ڈویژنل پولیس سربراہان سمیت صوبے کے پولیس چیف تک کے نوٹس میں ضرور آتا ہے، لیکن اس کے باوجود پراسرار خاموشی نے راولپنڈی کے باسیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
دہشت گردی کی روک تھام کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہوا تو راولپنڈی میں دہشت گردی سمیت پولیس عملے اور مذہبی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات میں نمایاں کمی آئی اور عوام نے سکھ کا سانس لیا، لیکن ایسے میں رواں سال کے دوران تھانہ صادق آباد کے علاقے میں مخصوص اوقات میں راولپنڈی کی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے منسلک نجی کمپنی کے گلی محلوں میں صفائی کرنے والے پانچ محنت کشوں کو ٹارگٹ کر کے موت کے گھاٹ اتارنے جیسے واقعات نے راولپنڈی پولیس اور انتظامیہ کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور وہی پولیس و انتظامی افسران جو جون اور اگست میں اسی کمپنی کے دو محنت کشوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کو ٹارگٹ کلنگ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے وہ ہفتے کے روز نشانہ بنائے جانے والے تین محنت کشوں کے واقعے کے بعد از خود واقعات کو ٹارگٹ کلنگ قرار دے کر مقدمات کی تفتیش کے لیے کاونٹر ٹیرازم ڈیپارٹمنٹ سمیت ماہر تفتیشی افسران کو تفتیشی ٹیم میں شامل کر کے ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے متحرک دکھائی دیے رہی ہے۔
مخصوص کمپنی کے محنت کشوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کرنے کا سلسلہ گزشتہ جون میں شرو ع ہوا، 3 جون کو آصف مسیح نے تھانہ صادق آباد کو مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایاکہ 23 سالہ بیٹا عاشر آصف کمپنی میں ملازمت کرتا ہے، ایک روز ڈیوٹی پر گیا تو صبح ساڑھے پانچ بجے اسی کمپنی کے ڈرائیور شعیب نے فون پر اطلاع دی کہ عاشر چاندنی چوک فلائی آور کے قریب ڈیوٹی پر تھا کہ اسے نامعلوم شخص نے فائرنگ کرکے قتل کردیا ہے۔
صادق آباد پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش راولپنڈی پولیس کے ہومی سائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ کے سپرد کر دی۔ ابھی راولپنڈی پولیس اس مقدمے کی تفتیش جاری رکھے ہوئے تھی کہ تقریبا اڑھائی ماہ بعد 18 اگست کو ایک مرتبہ پھر اسی کمپنی کے محنت کشوں کرامت مسیح اور صغیر مسیح کو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے نشانہ بنایا۔ اس حوالے سے تھانہ صادق آباد میں مقدمہ درج کراتے ہو ئے اکرم مسیح نے پولیس کو بتایاکہ بڑا بھائی کرامت مسیح مذکورہ کمپنی میں سینٹری ورکر کی حیثیت سے ملازم تھا، جو صبح پانچ بج کر تیس منٹ پر گھر سے ڈیوٹی کے لیے ڈھوک کشمیریاں چوک چلاگیا دس منٹ بعد میں اور میرا بھتیجا سرفراز بھی ڈیوٹی کے لئے وہاں پہنچ گئے کہ ہمارے سامنے ایک موٹرسائیکل جو مری روڈ کی جانب سے آیا پر سوار دو لڑکوں نے بھائی پر فائرنگ شروع کردی لگاتار چھ فائر کیے جو بھائی کو سینے اور گردن پر لگے، بھائی شدید زخمی ہوکر گر گیا، حملہ آور شمع بک ڈپو کے سامنے کام کرتے ہوئے دوسرے سینٹری ورکر صغیر مسیح کی طرف لپکے اور اس کوبھی شدید فائرنگ کرتے ہوئے زخمی کرکے ٹرانسفارمر چوک کی جانب فرار ہو گئے۔ کرامت مسیح موقع پر ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ مذکورہ مقدمے کی تفتیش بھی انوسٹی گیشن یونٹ کے ہومی سائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ کے سپرد کردی گی لیکن مذکورہ دونوں واقعات کی تفتیش کے دوران پولیس ملزمان کو ٹریس نہ کرسکی۔
دونوں واقعات کے حوالے سے نجی کمپنی کے محنت کشوں میں ابھی تشویش ختم نہ ہوئی تھی کہ اڑھائی ماہ بعد ایک مرتبہ پھر تھانہ صادق آباد کی حدود میں ہی صبح سویرے اسی کمپنی کے تین مزید محنت کشوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ 11نومبر کو تھانہ صادق آباد میں مقدمہ درج کراتے ہوئے ماجد مسیح نے پولیس کو بتایاکہ وہ بے نظیر بھٹو ہسپتال میںملازمت کرتا ہے۔ بڑا بھائی آصف مسیح مذکورہ کمپنی میں سینٹری ورکر کی حیثیت سے ملازمت کرتا ہے۔ اس کا بھائی صبح چار بجے اپنی ڈیوٹی پر گیا، تو چھ بجے کے قریب اس کے ایک ساتھی ندیم مسیح نے آکر بتایا کہ وہ آصف کے ساتھ نشتر سڑیٹ میں کام کررھے تھے کہ شکریال کی جانب سے ایک موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوان لڑکے آئے اور آتے ہی آصف پر فائرنگ کی، جس سے آصف شدید زخمی ہوکر موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ اسی دوران ملزمان نے ثاقب حسین سینٹری ورکر اور محمد ارشاد پر بھی فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں ثاقب حسین موقع پر ہی دم توڑ گیا اور محمد ارشاد زخمی ہوگیا۔
پولیس نے مذکورہ واقعہ کا مقدمہ بھی قتل و اقدام قتل کے جرم میں درج کرکے تفتیش ہومی سائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ کے سپرد کردی، تاہم اس دوران چار دن تک موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد زخمی ہونے والا ڈرائیور محمدارشاد بھی دم توڑ گیا۔ پانچ ماہ کے عرصہ میں ایک ہی تھانے کی حدود میں ایک ہی کمپنی سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات کے بعد نہ صرف کمپنی میں کام کرنے والے محنت کشوں اور ان کے عزیز واقارب بلکہ راولپنڈی کے شہریوں میں بھی گہری تشویش پائی جارھی ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے سیاسی و سماجی حلقوں نے باقاعدہ مظاہرے کر کے ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے راولپنڈی انتظامیہ اور راولپنڈی پولیس کے ارباب اختیار نے خصوصی اقدامات کئے ہیں اور صفائی کرنے والے ملازمین کے لیے یونیفارم کی شرط ختم کرکے ان کی ڈیوٹی ٹائمنگ کو تبدیل کیاگیا ہے، ورکروں کے لیے پلان مرتب کرکے سکیورٹی مہیا کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ اس حوالے سے ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی وصال فخر سلطان راجہ نے سی پی او راولپنڈی کو ہدایت جاری کیں کہ تھانوں کی سطح پر موٹرسائیکل سوار وں کی پٹرولنگ ، پکٹنگ کرکے نفری کو بھی مزید بڑھایا جائے۔ انھوں نے تھانہ صادق آباد میں درج ہونے والے تینوں مقدمات کے بارے میں اب تک ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا اور ہدایات دیں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ راولپنڈی سے مدد حاصل کرنے سمیت تمام وسائل بروئے کار لا کر ان مقدمات میں ملوث گینگ کو بے نقاب کر کے گرفتار کیا جائے۔ ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی وصال فخر سلطان راجہ اور سی پی او راولپنڈی اسرار احمد خان راولپنڈی میں پولیسنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ راولپنڈی شہر کو صاف ستھر ا رکھنے میں مصروف رہنے والے محنت کشوں کے قاتلوں کو کب قانون کی کی گرفت میں لاتے ہیں؟
اسی طرح فرانزک سائنس ایجنسی کا کولیکشن پوائنٹ قائم کرکے کرائم سین کو محفوظ بنانے اور وہاں سے شواہد ا کھٹے کرنے کے لیے ماہرین تعینات کیے گئے ہیں تو دوسری طرف سی پیک سے جڑے منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے چاہنیز سمیت غیر ملکی ماہرین کی حفاظت کے لیے الگ سے پولیس کے خصوصی یونٹ سپیشل پروٹیکشن یونٹ کا قیام عمل میں لایاگیا ہے۔ آبادی کو مدنظر رکھ کر نئے تھانے اور پولیس چوکیاں قائم کیں گئیں اور قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کے لیے سرکل کی سطح پر انویسٹی ونگ کے ہومی سائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ تشکیل دیئے، جن کے ذمہ داری صرف قتل جیسے سنگین مقدمات کی تفتیش کرنا ہے، یوں راولپنڈی میں امن وامان کی صورت حال دیگر شہروں سے بہتر ہونا چاہیے اور جرائم پیشہ عناصر کو یہاں آکر جرم کرتے ہوئے ڈرنا چاہیے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دو سابق وزراء اعظم کو اسی شہر میں قتل کیاگیا تو اسی شہر میں سابق صدر پر جان لیوا خودکش حملے بھی ہوئے۔
ہائی پروفائل واقعات کے علاوہ راولپنڈی میں عام جرائم کی صورت حال بھی گھمبیر ہے۔ سٹریٹ کرائم میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے، جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، یہ سب کچھ مسند اقتدار پر بیٹھنے اور عوام کے بھاری ٹیکسوں کے ذریعے مراعات اور تنخواہیں پانے والے ارباب اختیار اور ضلعی و ڈویژنل پولیس سربراہان سمیت صوبے کے پولیس چیف تک کے نوٹس میں ضرور آتا ہے، لیکن اس کے باوجود پراسرار خاموشی نے راولپنڈی کے باسیوں کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
دہشت گردی کی روک تھام کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہوا تو راولپنڈی میں دہشت گردی سمیت پولیس عملے اور مذہبی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات میں نمایاں کمی آئی اور عوام نے سکھ کا سانس لیا، لیکن ایسے میں رواں سال کے دوران تھانہ صادق آباد کے علاقے میں مخصوص اوقات میں راولپنڈی کی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے منسلک نجی کمپنی کے گلی محلوں میں صفائی کرنے والے پانچ محنت کشوں کو ٹارگٹ کر کے موت کے گھاٹ اتارنے جیسے واقعات نے راولپنڈی پولیس اور انتظامیہ کو ہلاکر رکھ دیا ہے اور وہی پولیس و انتظامی افسران جو جون اور اگست میں اسی کمپنی کے دو محنت کشوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کو ٹارگٹ کلنگ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے وہ ہفتے کے روز نشانہ بنائے جانے والے تین محنت کشوں کے واقعے کے بعد از خود واقعات کو ٹارگٹ کلنگ قرار دے کر مقدمات کی تفتیش کے لیے کاونٹر ٹیرازم ڈیپارٹمنٹ سمیت ماہر تفتیشی افسران کو تفتیشی ٹیم میں شامل کر کے ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے متحرک دکھائی دیے رہی ہے۔
مخصوص کمپنی کے محنت کشوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کرنے کا سلسلہ گزشتہ جون میں شرو ع ہوا، 3 جون کو آصف مسیح نے تھانہ صادق آباد کو مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایاکہ 23 سالہ بیٹا عاشر آصف کمپنی میں ملازمت کرتا ہے، ایک روز ڈیوٹی پر گیا تو صبح ساڑھے پانچ بجے اسی کمپنی کے ڈرائیور شعیب نے فون پر اطلاع دی کہ عاشر چاندنی چوک فلائی آور کے قریب ڈیوٹی پر تھا کہ اسے نامعلوم شخص نے فائرنگ کرکے قتل کردیا ہے۔
صادق آباد پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش راولپنڈی پولیس کے ہومی سائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ کے سپرد کر دی۔ ابھی راولپنڈی پولیس اس مقدمے کی تفتیش جاری رکھے ہوئے تھی کہ تقریبا اڑھائی ماہ بعد 18 اگست کو ایک مرتبہ پھر اسی کمپنی کے محنت کشوں کرامت مسیح اور صغیر مسیح کو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے نشانہ بنایا۔ اس حوالے سے تھانہ صادق آباد میں مقدمہ درج کراتے ہو ئے اکرم مسیح نے پولیس کو بتایاکہ بڑا بھائی کرامت مسیح مذکورہ کمپنی میں سینٹری ورکر کی حیثیت سے ملازم تھا، جو صبح پانچ بج کر تیس منٹ پر گھر سے ڈیوٹی کے لیے ڈھوک کشمیریاں چوک چلاگیا دس منٹ بعد میں اور میرا بھتیجا سرفراز بھی ڈیوٹی کے لئے وہاں پہنچ گئے کہ ہمارے سامنے ایک موٹرسائیکل جو مری روڈ کی جانب سے آیا پر سوار دو لڑکوں نے بھائی پر فائرنگ شروع کردی لگاتار چھ فائر کیے جو بھائی کو سینے اور گردن پر لگے، بھائی شدید زخمی ہوکر گر گیا، حملہ آور شمع بک ڈپو کے سامنے کام کرتے ہوئے دوسرے سینٹری ورکر صغیر مسیح کی طرف لپکے اور اس کوبھی شدید فائرنگ کرتے ہوئے زخمی کرکے ٹرانسفارمر چوک کی جانب فرار ہو گئے۔ کرامت مسیح موقع پر ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ مذکورہ مقدمے کی تفتیش بھی انوسٹی گیشن یونٹ کے ہومی سائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ کے سپرد کردی گی لیکن مذکورہ دونوں واقعات کی تفتیش کے دوران پولیس ملزمان کو ٹریس نہ کرسکی۔
دونوں واقعات کے حوالے سے نجی کمپنی کے محنت کشوں میں ابھی تشویش ختم نہ ہوئی تھی کہ اڑھائی ماہ بعد ایک مرتبہ پھر تھانہ صادق آباد کی حدود میں ہی صبح سویرے اسی کمپنی کے تین مزید محنت کشوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ 11نومبر کو تھانہ صادق آباد میں مقدمہ درج کراتے ہوئے ماجد مسیح نے پولیس کو بتایاکہ وہ بے نظیر بھٹو ہسپتال میںملازمت کرتا ہے۔ بڑا بھائی آصف مسیح مذکورہ کمپنی میں سینٹری ورکر کی حیثیت سے ملازمت کرتا ہے۔ اس کا بھائی صبح چار بجے اپنی ڈیوٹی پر گیا، تو چھ بجے کے قریب اس کے ایک ساتھی ندیم مسیح نے آکر بتایا کہ وہ آصف کے ساتھ نشتر سڑیٹ میں کام کررھے تھے کہ شکریال کی جانب سے ایک موٹرسائیکل پر سوار دو نوجوان لڑکے آئے اور آتے ہی آصف پر فائرنگ کی، جس سے آصف شدید زخمی ہوکر موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ اسی دوران ملزمان نے ثاقب حسین سینٹری ورکر اور محمد ارشاد پر بھی فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں ثاقب حسین موقع پر ہی دم توڑ گیا اور محمد ارشاد زخمی ہوگیا۔
پولیس نے مذکورہ واقعہ کا مقدمہ بھی قتل و اقدام قتل کے جرم میں درج کرکے تفتیش ہومی سائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ کے سپرد کردی، تاہم اس دوران چار دن تک موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد زخمی ہونے والا ڈرائیور محمدارشاد بھی دم توڑ گیا۔ پانچ ماہ کے عرصہ میں ایک ہی تھانے کی حدود میں ایک ہی کمپنی سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات کے بعد نہ صرف کمپنی میں کام کرنے والے محنت کشوں اور ان کے عزیز واقارب بلکہ راولپنڈی کے شہریوں میں بھی گہری تشویش پائی جارھی ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے سیاسی و سماجی حلقوں نے باقاعدہ مظاہرے کر کے ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے راولپنڈی انتظامیہ اور راولپنڈی پولیس کے ارباب اختیار نے خصوصی اقدامات کئے ہیں اور صفائی کرنے والے ملازمین کے لیے یونیفارم کی شرط ختم کرکے ان کی ڈیوٹی ٹائمنگ کو تبدیل کیاگیا ہے، ورکروں کے لیے پلان مرتب کرکے سکیورٹی مہیا کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ اس حوالے سے ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی وصال فخر سلطان راجہ نے سی پی او راولپنڈی کو ہدایت جاری کیں کہ تھانوں کی سطح پر موٹرسائیکل سوار وں کی پٹرولنگ ، پکٹنگ کرکے نفری کو بھی مزید بڑھایا جائے۔ انھوں نے تھانہ صادق آباد میں درج ہونے والے تینوں مقدمات کے بارے میں اب تک ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا اور ہدایات دیں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ راولپنڈی سے مدد حاصل کرنے سمیت تمام وسائل بروئے کار لا کر ان مقدمات میں ملوث گینگ کو بے نقاب کر کے گرفتار کیا جائے۔ ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی وصال فخر سلطان راجہ اور سی پی او راولپنڈی اسرار احمد خان راولپنڈی میں پولیسنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ راولپنڈی شہر کو صاف ستھر ا رکھنے میں مصروف رہنے والے محنت کشوں کے قاتلوں کو کب قانون کی کی گرفت میں لاتے ہیں؟