’’تانگہ کی سواری ختم ہونے سے2وقت کی روٹی کو ترس گئے‘‘

نعل بند دلبر حسن کی مجبوریوں میں بندھی زندگی کا احوال


Rana Naseem March 10, 2013
3 بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنا زندگی کی سب سے بڑی آزمائش بن چکی ہے ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: گھوڑوں کے ارتقاء کا عمل ساڑھے چار کروڑ سے ساڑھے پانچ کروڑ سال کے دوران ہوا۔ تقریباً 4 ہزار سال قبل مسیح انسانوں نے پہلی بار گھوڑے کو پالتو جانور کے طور پر اپنایا تھا۔

3ہزار قبل مسیح سے گھوڑوں کو عام طور پر پالا جا رہا ہے۔ اس وقت تقریباً تمام تر گھوڑے ہی پالتو ہیں، لیکن جنگلی گھوڑوں کی ایک نسل اور پالتو گھوڑوں کو دوبارہ آزاد کرنے سے پیدا ہونے والی نسلیں پالتو نہیں۔ گھوڑوں کی جسمانی ساخت انھیں حملہ آوروں سے بچ کر بھاگنے کے قابل بناتی ہے۔ گھوڑوں میں توازن کی حس بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کھڑے یا بیٹھ کر دونوں ہی انداز سے سو سکتے ہیں۔ زیادہ تر پالتو گھوڑوں کو 2 سے 4 سال کی عمر میں زین اور لگام کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔ 5 سال کا گھوڑا پوری طرح جوان ہوتا ہے اور اوسطاً گھوڑوں کی عمر 25 سے 30 سال تک ہوتی ہے۔

دنیا میں اس وقت گھوڑوں کی 300 سے زیادہ اقسام ہیں، جو مختلف کام سر انجام دیتی ہیں۔ انسان اور گھوڑے مل کر مختلف کھیلوں اور مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ روز مرہ کے کام کاج جیسا کہ پولیس، زراعت، تفریح اور علاج کے لئے بھی ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ بہت سارے کاموں کے لئے گھوڑوں کے بجائے مشینیں ایجاد کر لی گئی ہیں لیکن پھر بھی 10 کروڑ گھوڑے، گدھے اور خچر آج بھی دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں زراعت اور نقل و حمل کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

گھوڑوں سے بہت سی مصنوعات بھی حاصل کی جاتی ہیں جن میں گوشت، دودھ، کھال، بال، ہڈی اور حاملہ گھوڑی کے پیشاب سے کئی ادویات بھی کشید کی جاتی ہیں۔ گھوڑے کی صحت اور انسانی خدمت کا دارو مدار اس کی ٹانگوں اور کُھر پر ہوتا ہے۔ اگر گھوڑے کی ٹانگ یا کُھر میں نقص ہو تو گھوڑے کی اہمیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ کُھر جس چیز سے بنتے ہیں وہی چیز انسانی جسم میں ناخن کہلاتی ہے۔ اس لئے گھوڑوں کو نعل لگائی جاتی ہے۔ گھوڑے کے کُھر انسانی ناخن کی طرح بڑھتے رہتے ہیں اور ہر 5سے 8 ہفتوں بعد نعل اتار کر ان کے کھروں کو تراش خراش کر دوبارہ نعل لگا دیئے جاتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ گھوڑے کی پہلی نعل بنانے والا کون تھا۔



 

پہلے پہل ایشائی شہسوار اپنے گھوڑوں کے سموں کیلئے چمڑے کے نعل استعمال کرتے تھے۔ پہلی صدی کے دوران رومیوں نے گھوڑے کی نعل بنانے کے لئے چمڑے اور دھات کا استعمال کیا۔ چھـٹی اور ساتویں صدی میں یورپی شہسواروں نے گھوڑوں کے سموں کیلئے باقاعدہ طور پر دھاتوں سے نعل بنائے۔ 13ویں اور 14ویں صدی میں لوہے سے نعل بنانے کا رواج عام ہو گیا۔1835ء میں امریکا میں ہنری برڈن نے پہلی بار نعل بنانے کیلئے مشین ایجاد کی جس سے تقریباً 60 نعلیں بنائی گئیں۔ گھوڑا انسانی خدمت گزار ہے، اسی لئے پالتو گھوڑوں کی خوراک، پانی اور دیکھ بھال انسانی ذمے داری ہوتی ہے۔ عموماً مالکان اپنے گھوڑوں کی دیکھ بھال کے لئے طبیبوں اور ان کے کُھروں کی دیکھ بھال کرنے والے ماہرین (نعل بند)کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

دور قدیم میں جنگوں اور نوابوں کے شوق کی وجہ سے گھوڑے کی جتنی اہمیت تھی، اسی نسبت سے نعل بند کی قدر بھی کی جاتی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ نعم البدل ملنے کے باعث گھوڑوں کی طرح نعل بندی کا کام بھی زوال پذیر ہو چکا ہے اور نتیجتاً نعل بندوں کی آسودہ زندگی کے دروازے بھی بند ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آج کے مشینی دور میں ایک نعل بند کس طرح جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہے؟ یہ جاننے کے لئے ہم نے سرگودھا کے اربن ایریا بلاک نمبر 29 کے رہائشی 55 سالہ دلبر حسن سے بات چیت کی، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

دلبر حسن نے ایک غریب اور محنت کش جان محمد کے گھر میں آنکھ کھولی۔ بچپن سے ہی ملنے والی محرومیوں نے آج تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ غربت کے باعث پڑھنے لکھنے کی شدید خواہش کے باوجود دلبرحسن صرف 4 جماعتیں ہی پاس کر سکا۔ چھوٹی عمر میں ہی گھر کی ذمے داریوں نے آن گھیرا تو دلبر نے مزدوری شروع کر دی۔ گھر کے کام کاج اور روٹی پکانے کی ضرورت نے 23 سال کی عمر میں دلبر کی شادی کروا دی جس کے بعد زندگی کے امتحانوں کا ایک نیا سلسلہ چل نکلا۔ دلبر کی 6بیٹیاں ہیں جن میں سے تین کو اس نے جیسے تیسے کرکے بیاہ دیا لیکن باقی کی تین اب اس کے لئے بہت بڑی آزمائش بن چکی ہیں۔ کرائے کے مکان میں رہنے والا یہ نعل بند آج تک اپنا گھر تک نہیں بنا سکا۔



دلبر حسن نے بتایا کہ شادی کے دو سال بعد معاشی بدحالی کی وجہ سے اس کے سسر محمد اسلام نے اسے نعل بندی کا کام سکھا دیا۔ جس میں اس وقت کچھ آسودگی تھی، اس لئے میں نے شوق سے یہ کام بہت جلد سیکھ لیا۔ اور آج یہ کام کرتے ہوئے مجھے30 سال گزر چکے ہیں۔ پہلے پہل جب تانگوں کی سواری کا دور تھا، اس وقت 6 سے 7سو روپے کی دیہاڑی بن جاتی تھی جس سے بہت اچھی گزر بسر ہو رہی تھی، بلکہ 3بیٹیوں کی شادی بھی اسی آمدن سے کی۔ لیکن جب سے یہ موٹرسائیکل رکشہ (چاند گاڑی) آیا ہے، دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں۔

آج کل سو سے ڈیڑھ سو روپے بمشکل دیہاڑی بنتی ہے جس سے گھر کا چولہا بھی نہیں جل سکتا، اسی لئے میری بیٹیاں بھی محنت مزدوری (کپڑے سلائی) کرنے پر مجبور ہیں۔ سوچتا ہوں پہلے والا دور اچھا تھا۔ اب اتنی مہنگائی میں 3 بچیوں کے ہاتھ کیسے پیلے کر پاؤں گا؟ انہی پریشانیوں کی وجہ سے رات رات بھر نیند نہیں آتی۔ بچیوں کے چہروں کی طرف دیکھتا ہوں تو بے اختیار سر آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے اور آنکھیں ندی بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سہارا نہیں۔ عمر بھی ڈھلتی جارہی ہے، میں مر گیا تو ان بچیوں کا کیا ہوگا؟(دلبر حسن بات کرتے کرتے اچانک خاموش ہوگیا، اس نے اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیا، لیکن صاف نظر آرہا تھا کہ اس کی مجبوریاں اور بے بسی آنسو بن کر آنکھوں سے بہہ رہی ہیں، پانی سے اس کی داڑھی بھی تر ہو چکی تھی۔

بہرحال اپنے پلو سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے وہ دوبارہ ہم سے گویا ہوا ) صاحب۔۔۔! اپنے کام کے لئے مستقل ٹھکانہ بنانے کی گنجائش نہیں، اس لئے سڑک پر بیٹھ کر کام کرتا ہوں، یہ سب میں جھیل سکتا ہوں اور آج تک جھیل رہا ہوں۔ لیکن اُس وقت یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوتا جب لوگ بے عزتی کرتے ہیں۔ سڑک پر بیٹھے شخص کو ہمارے اپنے لوگ بھی عزت دینے کو تیار نہیں۔ سڑک پر بیٹھ کر کام کے دوران اکثر کمیٹی اور ٹریفک پولیس والے تنگ کرتے ہیں۔ ان کی خدمت کرنے کی سکت نہیں، اسی لئے وہ صرف مجھے ڈانٹ ڈپٹ کر گزارا کرتے ہیں۔ شہر کے ہر بازار اور سڑک پر تجاوزات قائم ہیں۔ لوگوں نے مستقل اور پختہ تعمیرات کر رکھی ہیں لیکن انھیں کوئی نہیں پوچھتا کیوں کہ یہ لوگ بااثر ہیں، کمیٹی اور پولیس والوں کا صرف ہم جیسے بے بسوں پر زور چلتا ہے۔ اور یہ ناانصافی ہی اس ملک کو ترقی نہیں کرنے دیتی۔

نعل بندی کے کام پر گفتگو کرتے ہوئے دلبر حسن کا کہنا تھا کہ نعل لگانے سے گھوڑے سمیت دیگر جانور لنگڑے نہیں ہوتے اور وزن بھی زیادہ کھینچتے ہیں۔ ایک نعل 20سے30روپے کی لگائی جاتی ہے جو 15سے 20 روز چلتی ہے۔ کام کے دوران متعدد بار چوٹیں آئی ہیں۔ گھوڑے اور گدھے ٹانگیں مارتے ہیں۔ ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں جو کئی کئی روز ٹھیک نہیں ہوتے۔ ان چھوٹے چھوٹے حادثات کی وجہ سے جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں کیوں کہ کام نہیں کروں گا تو گھر میں روٹی کیسے پکے گی؟ ان مشکلات کے باعث متعدد بار نعل بندی کا کام چھوڑنے کے بارے میں سوچا مگر آج کے دور میں ہم جیسوں کے لئے کوئی دوسرا کام ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بن چکا ہے۔ چاند گاڑی آنے سے قبل سرگودھا میں متعدد لوگ نعل بندی کا کام کرتے تھے لیکن اب کم ہوتے ہوتے صرف3یا4افراد یہ کام کر رہے ہیں۔

نعل بند دلبر حسن نے اپنی دانستہ اور پیشے کے مطابق حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر چاند گاڑیوں کو بند کروا کر تانگہ کی سواری کو بحال کرے۔ دلبر کا کہنا تھا کہ تانگہ ایک شاہی سواری ہے، اس میں حادثات نہیں ہوتے تھے جبکہ چاند گاڑی سے حادثات بڑھے ہیں اور خواتین کی بے پردگی بھی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ حکومتی اور عوامی سطح پر شہروں کو صاف ستھرے بنانے اور آلودگی سے پاک ماحول کے لئے ٹانگوں کی سواری پر پابندیاں لگائی گئیں، ٹانگوں کی جگہ چاند گاڑی نے لی تو آج یہ چاند گاڑیاں کیا ماحول کو صاف بنا رہی ہیں؟ چاند گاڑیوں کی وجہ سے ماحولیاتی اور صوتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دھویں کی وجہ سے لوگوں میں بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔ تو پھر میرا سوال یہ ہے کہ چاندگاڑی بہتر سواری ہے یا تانگہ؟ خدارا۔۔! حکمران غریبوں کے لئے بھی سوچیں۔ ہمارے بڑوں نے ایسے پاکستان کے لئے قربانیاں نہیں دی تھیں جہاں زندگی گزارنے کا حق صرف امیر کو حاصل ہو، غریبوں کے لئے تو قبرستانوں میں بھی جگہ نہیں رہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں