بلوچستان دہشت گردوں کے مقاصد کیا ہیں

بلوچستان میں ایک عرصے سے غیرملکی ایجنسیاں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں

بلوچستان میں ایک عرصے سے غیرملکی ایجنسیاں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

بلوچستان کے علاقے تربت سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزید 5 نوجوانوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جنھیں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں مارے جانے والوں کی تعداد20ہو گئی ہے۔ لیویز ذرایع کے مطابق لاشیں تربت کے علاقے تجابان سے ملیں ، مقتولین سے ملنے والی دستاویزات سے ان کی شناخت دانش، قاسم، ثاقب، عثمان قادر اور بدر منیرکے ناموں سے ہوئی جن کا تعلق پنجاب کے ضلع گجرات سے بتایا گیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کی ناکہ بندی کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی ہے۔

لیویز ذرایع کے مطابق مذکورہ افراد پنجاب سے غیر قانونی طور پر ایران اور وہاں سے یورپ جانا چاہتے تھے۔وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے تربت میں5افراد کے قتل کی شدید مذمت اور متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت سوز واقعات بلوچ روایات کے منافی ہیں، بزدل دہشتگرد نہتے لوگوں کا خون بہا رہے ہیں۔

سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی تربت میں دوسری بار لاشیں ملنے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان واقعات کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائی جائے، انھوں نے مقتولین کی مغفرت کی بھی دعا کی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلرز کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی، ایک ہی دہشت گرد گروپ ہے جو لوگوں کو قتل کررہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے 5 افراد کے قتل کی ذمے داری بھی قبول کرلی۔

چند روز پیشتر بھی ضلع تربت سے 30کلو میٹر دور بلیدہ کے پہاڑی علاقے سے 15افراد کی لاشیں ملی تھیں جنھیں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا، یہ تمام افراد مزدور پیشہ تھے جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اب مزید پانچ نوجوانوں کی لاشیں ملنا اس امر کا مظہر ہے کہ بلوچستان میں ایک مخصوص گروپ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کر رہا جس کا مقصد ملک میں صوبائیت اور نفرت کو ہوا دینا ہے۔

بلوچستان میں ایک عرصے سے غیرملکی ایجنسیاں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں جس کے سبب وہاں امن و امان کی صورت حال میں خلل پیدا ہوا۔ پنجاب سے آنے والے نوجوانوں اور دیگر افراد کو قتل کرنے والے گروپ کے پیچھے بھی غیرملکی ایجنسیوں کی منصوبہ بندی معلوم ہوتی ہے جس کا مقصد صوبوں کو آپس میں لڑانا ، پاکستان کی یکجہتی اور سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔


پنجاب کے یہ نوجوان بلوچستان میں ملازمت کرنے آئے تھے نہ وہ وہاں رہائش رکھنے کے خواہش مند تھے' وہ تو پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانا چاہتے تھے' ان بے گناہ افراد کو قتل کرنے والے انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں بہادر کہا جا سکتا ہے۔

اگرچہ سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کر رہے ہیں' متعدد افراد کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا ہے جس کے سبب وہاں امن و امان کی صورت حال میں پہلے کی نسبت کافی بہتری آئی ہے لیکن بلوچستان میں غیرملکی ایجنسیوں کا اثرورسوخ اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ اسے چند دنوں میں ختم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے لیے لازم ہے سرحدوں پر سیکیورٹی میکنزم مضبوط بناتے ہوئے جدید آلات کے ذریعے سرحدوں پر آنے جانے والوں کی کڑی نگرانی کی جائے۔

نوجوانوں کو سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر غیرقانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف بھی وسیع پیمانے پر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو دولت کے لالچ میں نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

دوسری جانب نوجوانوں کو بھی غیرقانونی طور پر ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے سے گریز کرنا چاہیے' متعدد ایسے واقعات منظرعام پر آ چکے ہیں کہ غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے والے نوجوان سفر کی مشکلات کے باعث راستے ہی میں دم توڑ گئے یا پھر کسی ملک کے سرحدی سیکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں نشانہ بن گئے۔ بیروز گار نوجوانوں پر بیرون ملک جانے کا جنون اس قدر زیادہ سوار ہوتا ہے کہ تمام حقائق جاننے کے باوجود وہ اپنی زندگیوں سے کھیلنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

اگر اپنے ملک میں روز گار کے وسیع مواقع میسر ہوں تو ممکن ہے یہ نوجوان بیرون ملک جانے سے گریز کریں لیکن ان نوجوانوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ زندگی سے زیادہ قیمتی چیز کوئی نہیں۔ حکومت اگر قانونی طور پر بیرون ملک روز گار کے مواقع تلاش کرے تو ممکن ہے یہ نوجوان غیرقانونی راستے اختیار کرنے سے گریز کریں۔ یہ بات زدعام ہے کہ انسانی اسمگلروں کو سرکاری اداروں کے اہلکاروں کا بھرپور تعاون حاصل ہوتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو انسانی اسمگلرز نوجوانوں کو بیرون ملک جانے کا جھانسہ دے کر ان سے بڑی رقوم اینٹھنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں۔

تربت جیسے واقعات مزید پیش آ سکتے ہیں اس لیے انتظامیہ کو ان سانحات کو روکنے کے لیے متحرک ہونا پڑے گا۔ سیکیورٹی اداروں کے لیے بھی ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دینے والے عناصر کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائی کریں اس مقصد کے لیے گراس روٹ لیول پر عوام کا تعاون حاصل کیا جائے تو شرپسند عناصر کا قلع قمع کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔

 
Load Next Story