دانش سے مکالمہ
اچھا سوال آدھا جواب تو ہوتا ہی ہے، اچھے جواب کے امکان میں اضافے کا سبب بھی۔
انسانی معاشرہ اور فکر و عمل کے حوالے سے سجاول خاں رانجھا کے ذہن میں کچھ سوال اٹھ رہے تھے۔ یہ سوال انھوں نے عصر حاضر کی چند منتخب شخصیتوں کے سامنے رکھے جن کے بارے میں نجیہ عارف کہتی ہیں کہ ان کی دلچسپیاں اور وابستگی زندگی کے مختلف شعبوں سے ہے۔ یہ سوال اور ان کے جواب سجاول خاں رانجھا کی کتاب ''دانش سے مکالمہ'' میں شامل ہیں۔ شاہد اعوان جو اس کتاب کے ناشر ہیں کہتے ہیں کہ دانش سے مکالمہ کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت بذات خود دانش مندی کا تقاضا ہے۔ اچھا سوال آدھا جواب تو ہوتا ہی ہے، اچھے جواب کے امکان میں اضافے کا سبب بھی۔
پروفیسر احمد رفیق اختر سے رانجھا کا سوال تھا ! مجھے یہ بتائیے کہ ایک عورت کیا اللہ تعالیٰ سے یہ شکایت کرسکتی ہے کہ تو نے مجھے مرد کے بجائے عورت کیوں بنایا، جب کہ ہر دور میں عورت کو ظلم و ستم سے واسطہ پڑتا ہے؟
پروفیسر رفیق اختر نے جواب دیا۔ ''میرا خیال ہے جب سے تاریخ انسانی شروع ہوئی ہے سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ انسانی معاشرہ مرد کے غلبے کا معاشرہ ہے۔ جب آغاز سے انسان نے بستیاں آباد کرنا شروع کیں تو اس نے سب سے پہلا سبق جو سیکھا وہ عورت اور مرد کے فرائض کا تعین ہے۔ اصول یہ ٹھہرا کہ چونکہ انسان کا بچہ جانور کے بچے کی طرح فوراً اچک کر چل نہیں سکتا تھا تو اس بچے کی حفاظت اور نگرانی کے لیے پہلے کام جو معاشرے میں بانٹے گئے، یہ تھے کہ عورت کو گھر دیا اور مرد نے شکار کی ذمے داری سنبھالی۔
اس وقت کوئی مذہب نہیں تھا۔ یہ عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک فطری معاہدہ طے پایا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں یہ شعور دیا گیا کہ اگر تم ایسا نہ کروگے تو تمہاری اولاد پنپ نہیں سکتی اور کبھی بھی یہ معاشرہ آگے نہیں چل سکتا۔ اس لیے پہلا وژن جو سوشل سیکٹر میں انسانی جنس کے درمیان آیا وہ ڈیوٹیاں بانٹنے کا آیا کہ تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرتے ہیں، اس طرح کہیں بھی مردوں کے غلبے کی سوسائٹی ابتدائے حال نہیں تھی''۔ مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے دائرہ میں آزاد تھے۔
عبدالستار ایدھی سے بھی رانجھا کے سوال جواب ہوئے۔ انھوں نے ایدھی سے پوچھا، ہمارے ملک میں تبدیلی کیوں نہیں آرہی؟ ایدھی نے جواب دیا ''ہماری نیتیں اچھی نہیں ہیں۔ ملک کو چلانے والے لوگ بھی اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان جب سے بنا ہے تبدیلی کے نعرے میں نے سنے ہیں۔ اس کے بعد یہ غائب ہوجاتے ہیں''۔
رانجھا نے ان سے پوچھا، کوئی شخصیت ہے جس سے آپ متاثر ہوئے ہوں؟ ایدھی صاحب نے کہا ''ابو ذر غفاریؓ، کربلا والے۔ انھوں نے اصول کے لیے اپنی زندگیاں دے دیں۔ دنیاوی طریقے سے کارل مارکس، لینن، اسٹالن کو بھی مانتا ہوں۔ جب عبیداللہ سندھی اسٹالن سے ملنے گیا تو آکر کہتا ہے کہ وہ صرف کلمہ پڑھ لے، باقی سب کچھ مسلمان ہے۔ آج اسلام کو پھیلنے سے روکنے والی قوم ہم خود ہیں''۔
پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد سے سجاول خاں رانجھا نے سوال کیا کہ سوچنا ایک تخلیقی عمل ہے اور یہ ماحول جنم لیتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں رہ کر سوچنا ممکن ہے؟
ڈاکٹر ممتاز احمد نے جواب دیا۔ ''ممکن تو ہے اور اس میں آپ نے جس طرف اشارہ کیا ہے اس میں لفظ ماحول ہے۔ ماحول ایک مرکزی اہمیت رکھتا ہے جب کہ آزادیٔ فکر، آزادیٔ رائے اور نئی سوچ کے لیے ایک خاص قسم کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ماحول جس میں نئی چیزیں سوچنے پر پابندی نہ ہو، جس میں آدمی نئے سوال اٹھا سکے اور جس میں گھڑے گھڑائے جوابات سے آگے کی سوچ سکے۔
مغربی معاشروں میں یہ صورتحال ہے کہ آپ آزادیٔ فکر کا برملا اظہار کرسکتے ہیں۔ نئی سوچ، سوچ سکتے ہیں، نئے آئیڈیاز سامنے لاسکتے ہیں، پاکستان میں بھی اس کا ماحول بن رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کے بعد یہ چیز اتنی اجنبی نہیں رہی کہ لوگ ان مسائل پر گفتگو کریں، جو کچھ عرصہ پہلے تک ممنوع سمجھے جاتے تھے، تو میرا خیال ہے کہ بعض رکاوٹوں کے باوجود اب بتدریج ایسا ماحول پیدا ہوچکا ہے کہ لوگ آزادانہ تحقیق، آزدانہ فکر اور نئی سوچ کے راستے متعین کرسکتے ہیں۔''
معروف قانون دان اور اسکالر بیرسٹر ظفر اللہ خاں سے رانجھا کی گفتگو کا محور شعور تھا۔ انھوں نے بیرسٹر صاحب سے پوچھا کہ قرآن میں بار بار شعور کا ذکر آیا ہے، آپ شعور کو کیسے ڈیفائن کریں گے؟ بیرسٹر صاحب نے جواب دیا۔ قرآن نے جس مفہوم میں شعور کا لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے اس حقیقت کو پہچاننا جو قرآن لارہا ہے۔ گویا حقیقت مطلق کو پہچاننا۔ اس سے مراد وہ تعلیمات ہیں جو نبیؐ لے کر آئے تھے۔
کائنات کیسے بنی، اسے کہاں جانا ہے؟ ان دونوں کے درمیان زندگی کیسے گزارنی ہے؟ اس کا صحیح احاطہ کرنا، گویا مذہبی یا دینی تعلیمات پیش کی جارہی ہیں۔ اس کا جو خاص طرح کا مفہوم ہے اس کے لیے یہاں شعور استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک خاص طرح کی فطرت کو، ایک خاص طرح کے شعور کو یہاں کہا جارہا ہے۔ سجاول خاں رانجھا کے مزید سوال کے جواب میں ظفر اللہ خاں نے یہ وضاحت کی کہ شعور اس مفہوم میں بھی قرآن میں آیا ہے جیسے ذات الٰہی کا شعور اور اس کے نتیجے میں زندگی کی خاص ترتیب، اس کو ماننے کا شعور، اسی کو بعض مقامات پر قلب سلیم بھی کہا گیا ہے۔
ڈاکٹر انورنسیم نے کینیڈا سے پی ایچ ڈی کیا، آسٹریلیا میں پڑھایا، قائداعظم یونیورسٹی میں استاد رہے۔ رانجھا نے ان سے پوچھا، پاکستان کا مسئلہ ہے کیا؟ اس گتھی کو عرصہ دراز سے اہل علم و فکر ایڈریس کررہے ہیں، مختلف پلیٹ فارمز پر بات ہوتی ہے، کبھی پتا نہیں چلتا اس کا سرا کہاں ہے۔ تبدیلی کائنات کا سب سے بڑا اصول ہے، ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان پر اس کا اطلاق ہی نہیں، ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ڈاکٹر انور نسیم نے جواب دیا ''پہلی بات یہ کہ اگر رہنا پاکستان ہی میں ہے تو ہماری سوچ کی بنیاد اس ملک سے بے پناہ محبت ہونی چاہیے۔
دوسری بات جہاں بھی تبدیلی آئی ہے اچھی قیادت کی وجہ سے آئی ہے۔ ملائیشیا میں اگرکچھ ہوا تو ایک فرد سے اتنا فرق پڑا۔ یہاں غیر سول قوتوں کی مداخلت سے نظام ڈی ریل ہوگیا، ہندوستان میں کبھی ایسا نہیں ہوا، کسی بھی وجہ سے ہم لوگ پاکستان کو اون نہیں کررہے۔ کسی گھر، اسکول یا ادارے کی طرح ملک کو چلانے کے لیے بھی جذبہ اور کمٹمنٹ چاہیے۔ آپ جتنے بھی صاحب اختیار کیوں نہ ہوں، دوسرے لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے''۔
ڈاکٹر انیلہ کمال قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کی ڈائریکٹر ہیں۔ سجاول رانجھا نے ان سے پوچھا، نفسیات کی کیا تعریف ہے؟ ڈاکٹر انیلہ نے جواب دیا، نفسیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی انسان کے رویے کا مطالعہ کرتی ہے کہ کوئی کس طرح بولتا ہے، اٹھتا بیٹھتا ہے، بات چیت کرتا ہے، اس کے جو جذبات یا اقدامات ہیں ان سب چیزوں کے مطالعہ کا نام نفسیات ہے۔
پھر رانجھا نے ایک سوال یہ کیا کہ کیا مذہب اور نفسیات میں باہم کوئی تعلق ہے؟ تو ڈاکٹر انیلہ کمال نے جواب دیا کہ مذہب کا انسان کی فطرت سے گہرا تعلق ہے۔ آپ کا رویہ آپ کے اعتقادی سسٹم کے تحت ہے۔ مذہب کا تعلق آپ کے عقاید سے ہے۔ جو آپ سمجھتے ہیں مذہب کے متعلق اسی کے مطابق آپ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
سجاول خاں رانجھا صحافی ہیں۔ سفر نگار اور دانشور ہیں۔ کئی اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹر رہے ہیں، بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ''دانش سے مکالمہ'' میں جن دانشوروں سے گفتگو کی روداد بیان کی ہے ان میں سید منور حسن، ڈاکٹر محمد خالد مسعود، ڈاکٹر سہیل حسن، خورشید احمد ندیم، سلطان بشیر محمود، ڈاکٹر انور احمد، ڈاکٹر فرزانہ باری، پروفیسر عبدالجبار شاکر اور عبدالصمد شامل ہیں۔ ان سے علم، تبدیلی، اسلامی نظام، جماعت سازی، تقلید، رسم و رواج، شخصیت سازی اور اخلاق جیسے بہت سے موضوعات پر گفتگو کی ہے، سوال کیے ہیں اور جواب سنے ہیں، اس مکالمے سے ان کے خیالات سے آگاہی ہوتی ہے، اہل پاکستان کے ذہنی اور فکری جمود کی وجوبات کو جاننے اور سمجھے میں مدد ملتی ہے۔