قانونِ قدرت

اولادکیطرف دیکھیے توجہالت،غفلت اور نالائقی کاوہ سیلاب نظرآتاہےکہ انسان گھبراجاتا ہے مگرہم قانون قدرت کوبھول رہے ہیں۔


راؤ منظر حیات November 20, 2017
[email protected]

ویک فاریسٹ انسٹیٹیوٹ (Wake Forest Institute)میں سائنس کی ایک نئی جہت جنم لے چکی ہے۔ایک ایسامرحلہ جسکاادراک ہمارے جیسے ملکوں میں خواب میں بھی نہیں کیاجاسکتا۔تحقیق کے حوالے سے 2017ء میں ادارے نے رپورٹ شایع کی ہے جسے پورے امریکا میں نہ صرف تسلیم کیاگیاہے بلکہ دیگر اداروں نے بھی اس پر بہت توجہ دینی شروع کردی ہے۔بنیادی طورپر سائنسدانوں نے انسان کے تمام قدرتی اعضاء کوجسم سے باہرپیداکرنے یابنانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔

یہ ایک ایسی انقلابی تحقیق ہے جس سے دنیابدل جائے گی۔اس تبدیلی کااندازہ خیرہمارے جیسے لوگ ابھی تصوربھی نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر انتھونی اتالانے اس کامیابی کوایک انقلاب کانام دیاہے۔ سائنسدانوں نےBioinkایجادکی ہے۔ انتہائی سادہ طریقے سے یہ بات کی جا سکتی ہے کہ انسانی خلیے پرباؤانک سے کسی بھی عضو کوپرنٹ کردیاجائیگا۔یعنی اگر انسانی ہاتھ بنانا ہے تواسے خلیے پرچھاپ دیاجائیگا۔اگردل بناناہے تواسی ترتیب سے دل کی تمام جزئیات سیل پرپرنٹ کردی جائینگی۔

دوسرے مرحلے میں ایسے محلول تیارکیے گئے ہیں جس میں یہ خلیے قدرتی طریقے سے بڑھناشروع ہوجائینگے۔ یعنی ایک خاص رفتارسے،انسان کے لیے اس کے قد،حجم اور نسل کے حساب سے ایک نیاہاتھ بن جائیگا۔نیاجگربن جائیگا۔اس حیرت انگیز غیر قدرتی عضوکوآسانی سے انسانی جسم میں پیوند کردیا جائیگا۔ اندازہ کیجیے،کہ اگرکسی آدمی کی آنکھ خراب ہوچکی ہے تواسے چندہفتے میں بالکل نئی قدرتی آنکھ مل جائے گی۔اگرآدمی کونئے جگرکی ضرورت ہے تواسے بڑے آرام اورتسلی سے نیاجگردیدیاجائیگا۔انسانی زندگی پر اس کے کس درجہ محیرالعقول اثرات پڑینگے،سائنسدان ابھی وضاحت سے نہیں بتاسکتے۔

اس سے آگے کی تحقیق مزیدحیران کن ہے۔امریکا میں فلاڈیلفیامیں بچوں کااسپتال ہے۔ڈاکٹرعرصے سے ایک معاملے پرتحقیق کررہے تھے کہ ہرسال سیکڑوں بچے صرف اس لیے مرتے ہیں کہ وہ وقت سے پہلے پیدا (Premature) ہوجاتے ہیں۔یعنی انکادماغ،دل یا اعضاء مکمل طورپرنہیں بنے ہوتے اوروقت سے قبل پیدا ہونے کی وجہ سے زندہ نہیں رہ پاتے۔یہ معاملہ یامسئلہ خیرہمارے ملک میں بھی ہے۔مگریہاں سیاست اورپیسے کے سوا سوچنے کاوقت کسی کے پاس نہیں۔لہذاہمارے جیسے بے سمت اوربے مقصدمعاشرے میں یہ باتیں سوچنا بھی وقت کاضیاع ہے۔

ویسے ضرورت بھی کوئی نہیں کہ ہمارے صاحبِ ثروت لوگ،عام آدمی کی بھلائی کے متعلق سوچیں۔کیونکہ دولت کی عمارت توقائم ہی عام آدمی کی بربادی پر ہے۔ جہاں بھی کوئی حق مانگنے کی کوشش کرے،اسے مذہبی لوریاں سناکرخاموش کردیا جاتا ہے۔اسے ایسی ایسی روایات اور تاریخی کہانیوں سے خاموش کیاجاتاہے کہ انسان دنگ رہ جاتاہے۔ خیر مقصد اس سال یعنی 2017ء کی نئی تحقیقات کوسامنے لانا ہے۔فلاڈیلفیامیں واقع اسپتال کے ڈاکٹروں نے نایاب کام کیاہے۔انھوں نےBio Bagsبنائے ہیں۔ان کے آرپاربھرپورطریقے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں وہ تمام اجزاء موجودہیں جوشکمِ مادرمیں پائے جاتے ہیں۔ غیر سائنسی اعتبارسے اسے مصنوعی ماں بھی کہہ سکتے ہیں۔

جیسے ہی ڈاکٹرمحسوس کرتاہے کہ بچہ وقت سے پہلے پیداہوسکتاہے، اسے فوری طورپر"بائیوبیگ"میں منتقل کردیاجاتاہے۔انتہائی مشاق سائنسدان اورڈاکٹر چوبیس گھنٹے اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔بچے کووہ تمام قدرتی خوراک حاصل ہوتی ہے جوصرف ماں کے پیٹ میں مل سکتی ہے۔ جب بچہ اپنی مدت پوری کرلیتاہے،اس کے تمام قدرتی اعضاء بھرپور طریقے سے بن جاتے ہیں تواسے بائیوبیگ سے نکال کر ماں باپ کے حوالے کردیاجاتاہے۔

پوری دنیامیں ہر سال لاکھوں بچے صرف اس لیے مرجاتے ہیں کہ انھیں شکمِ مادرمیں پلنے کاپوراوقت یعنی نوماہ نہیں مل پاتے۔یہ Biobagہرسال لاکھوں انسانی جانوں کو ضایع ہونے سے بچائیگا۔انسانی جان کوضایع ہونے سے بچانے کے لیے یہ ایک"کمال تحقیق"ہے۔

اب توجہ ایک اورسمت مبذول کرتاہوں۔پوری دنیا "خلا"کومسخرکرنے میں مصروف ہے۔سائنسدان خلامیں سیٹلائٹ یاسیارے بھیجتے رہتے ہیں۔ہمارے سیل فون سے لے کرانٹرنیٹ اورہراہم چیزکسی نہ کسی سیارے سے منسلک ہے۔آج کی دنیامیں ہزاروں سیارے خلامیں گردش کر رہے ہیں۔سائنسی میدان میں ماہرممالک اس پرحددرجہ توجہ دے رہے ہیں۔جوملک"خلا"پرفتح پائیگا،وہی دنیاکا بادشاہ ہوگا۔اس وقت امریکا اورروس اس میدان میں بہت آگے ہیں۔پاکستان کاذکرنہیں کرناچاہتا۔کیونکہ ابھی تک ہم اس میدان میں طفلِ مکتب ہیں۔

سیارے کوخلامیں پہنچانے کے لیے راکٹ استعمال کیاجاتاہے۔یہ اس تجربے کا مہنگاترین عنصرہے۔ایک راکٹ عمومی طورپر62ملین ڈالر لاگت سے تیارہوتاہے۔لگسمبرگ میں واقع ایک فضائی کمپنی Space-xنے حیرت انگیزکام کیاہے۔اس کے پاس فیلکن 9نام کاراکٹ ہے۔عام راکٹوں کی طرح سیاروں کو خلاتک لے کرجاتاہے۔اصل کام یہ ہواکہ کمپنی نے راکٹ کودوبارہ استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔اب یہ کمپنی پرانے راکٹ کوحاصل کرتی ہے۔

اس پرسائنسدان محنت کرتے ہیں اورپھراسے بالکل نیا بنا دیا جاتاہے۔اس تجربے سے خلاتک سیارے بھیجنے کاعمل حددرجہ سستا ہوجائیگا۔یعنی خلاتک سفرکرنے کاعمل حددرجہ سادہ اورمزیدقابل عمل ہوجائیگا۔حال ہی میں اس کمپنی نے ایک استعمال شدہ راکٹ کے ذریعے وسطی اورجنوبی امریکا میں نئی انٹرنیٹ سروس کا آغازکیاہے۔انسانی عقل کس تیزی سے لافانی ترقی کر رہی ہے،یہ صرف اورصرف سوچاجاسکتاہے۔

2017ء کی ایجادات کاسلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کینسرکے متعلق عرض کرناچاہتاہوں۔کینسرسے دنیامیں لاتعدادلوگ ہرسال بے کسی اورتکلیف کے عالم میں مرتے ہیں۔تیسری دنیامیں کینسراسپتال نہ ہونے کے برابرہیں اور علاج بے حدمہنگاہے۔امریکا میں سائنسدانوں نے ایک کمال تجربہ کیاہے۔انھوں نے ایک دوائی بنائی ہے جسے انسانی خون میں شامل کردیاجاتاہے۔

دوائی کااثریہ ہے کہ یہ انسان کے اندرموجودخونی خلیوں(Blood Cells) کو کینسرکے خلیے ختم کرنے کی صلاحیت دے دیتی ہے۔یعنی جب یہ دوائی بذریعہ انجکشن انسانی جسم میں داخل کی جاتی ہے توبغیرکسی تکلیف کے انسانی خون میں موجودخلیے اس درجہ طاقتورہوجاتے ہیں کہ کینسرکے سیلزسے لڑناشروع کر دیتے ہیں اورانھیں ختم کردیتے ہیں۔یعنی اگرکسی انسان کو کینسرجیساموذی مرض ہے تویہ دوائی اس مریض کواس قابل کردیگی کہ اسے کسی اسپتال یاکلینک جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

اس کا اپنااندورنی دفاعی نظام اس درجہ طاقتور ہوجائے گاکہ کینسرخودبخودختم ہوجائیگا۔تجربے کے طورپراس سال محلول کوبارہ کینسرکے مریضوں میں داخل کیاگیا۔ان تمام کو"Lymphoma"تھا،جومہلک ترین کینسرکی ایک قسم ہے۔تمام مریض مرنے کے قریب تھے اورہرطرح کے علاج سے مایوس ہوچکے تھے۔صرف تین مہینے کے عرصے میں جب دوبارہ ٹیسٹ کیے گئے تومکمل طورپرشفایاب ہو چکے تھے۔سائنسدان کہتے ہیں کہ کچھ عرصے کے بعد کینسر کا علاج نزلہ اورزکام کی سطح پرچلاجائیگا۔اس کے علاوہ 2017ء میں مزیدکئی ایجادات ہوئیںہیں جن سے انسانی زندگی بہتر اورمضبوط ہوجائے گی۔

مگرمقصدقطعاًیہ نہیں کہ بتاؤں کہ صرف اسی برس یعنی 2017ء میں مغربی دنیاکس درجہ ترقی کرچکی ہے۔ توجہ دلانا چاہتاہوں کہ یہ تمام کام امریکا اوریورپ میں ہوا ہے۔اس میں ایک بھی مسلمان ملک یامسلمان سائنسدان شامل نہیں ہے۔اس میں ایک بھی مسلمان محقق شامل نہیں ہے۔مجھے اب اس بدقسمتی پرکسی قسم کی کوئی حیرت یادکھ نہیں ہوتا۔اس لیے کہ بحیثیت مسلمان ہم سائنس دشمن نہیں بلکہ علم دشمن ہیں۔ نئی ایجادکرناتودورکی بات،ہم لوگ توشعوری طورپرانسانی ترقی پرسوچنابھی شائدگناہ سمجھتے ہیں۔

اپنے ملک کی بات کرناچاہتاہوں۔کیونکہ میری توجہ کا قدرتی مرکزاپناملک ہے۔یہاں جاہل حکمرانی کررہے ہیں اور عالم جوتیاں چٹخارہے ہیں۔ مقتدر طبقے کوغورسے دیکھیے۔ ان میں سے ایک بھی تعلیمی اعتبارسے تجسس کاجذبہ نہیں رکھتا۔ان کی اولادپرتوجہ فرمائیے۔ ایک بھی علمی طورپرمستحکم نہیں ہے۔یہ پیسے کے بل بوتے پر مغربی یونیورسٹیوں میں چلے توضرورجاتے ہیں، مگر اکثر انتہائی سادہ سے مضامین میںبھی پاس نہیں ہوپاتے۔کسی نہ کسی جعلی طریقے سے اپنے اوپرکسی معزز یونیورسٹی کاٹھپا لگواتے ہیں۔اس کے بعد اقتدارپرخاندانی چوردروازے سے قابض ہونے کے کھیل میں مشغول ہیں۔تعصب کے بغیر دیکھیے۔ذاتی سیاسی فکرکو بالائے طاق رکھ کر پرکھیے۔

آپ کو انتہائی ادنیٰ ذہن کے لوگ بلند مقامات پرحکومت کرتے نظر آئینگے۔بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔اب حکم یہ ہے کہ ہماری اولادبھی تمہاری حاکم رہے گی۔اولادکی طرف دیکھیے تو جہالت،غفلت اور نالائقی کاوہ سیلاب نظرآتاہے کہ انسان گھبرا جاتا ہے۔ مگر ہم قانون قدرت کوبھول رہے ہیں۔ جب کوئی قوم بے حسی،بے ضابطگی اورجرائم کوملکی وتیرہ سمجھنے لگے تو مغلوب ہوجاتی ہے۔فناکردی جاتی ہے۔ قانون قدرت سے مفر آج تک کسی کوبھی نہیں ہوا۔ پر شائد ہمیں استثناء حاصل ہوچکاہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔