گٹکے اور مین پوری کا استعمال 18 سال سے کم عم سیکڑوں نوجوان منہ کے کینسر کا شکار

گٹکے میں چونے کاپتھر، جانوروں کا خون، پسا ہوا شیشہ، افیون، مین پوری اورچھالیہ ملائی جاتی ہے،ڈاکٹرفیاض الحسن

چھالیہ کھانے سے بھی کینسرہوتا ہے، منہ سکڑنے سے اوپر اورنیچے کے جبڑے آپس میں مل جاتے ہیں، ڈاکٹرقیصرسجاد۔ فوٹو: فائل

سندھ میں گٹکے، مین پوری اورچھالیہ کے استعمال سے منہ کے کینسرکے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کے نتیجے میں سندھ میں ہرسال 2سے 3 ہزارافراد منہ کے کینسرکے مرض میں مبتلاہورہے ہیں، جن میں زیادہ تعداد18سال سے کم عمرنوجوانوں کی ہے۔

نیو کلیئر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن اینڈ ریڈیا لوجی کے انچارج ڈاکٹر فیاض الحسن نے بتایا ہے کہ چونے کا پتھر، جانوروں کا خون ،پسا ہوا شیشہ ،افیون ،چھالیہ مین پوری گٹکے میں استعمال کیا جاتاہے جومنہ کے کینسر کا سبب بنتاہے جبکہ اب خواتین کی بڑی تعداد بھی گٹکے اورمین پوری کھارہی ہیں جس کے باعث اب خواتین بھی منہ کے کینسرمیں مبتلا ہورہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں18سال سے کم عمر کے بچے چھالیہ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اورشہرمیں کئی آبادیاں ایسی ہیں جہاں گٹکا مین پوری اورچھالیہ ہر عورت اور بچہ کھارہاہے،یہی وجہ ہے کہ کراچی میں منہ کا کینسراب وبائی مرض کی طرح پھیل رہا ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے ایکسپریس سے گفتگو میں کہاکہ حکومت سندھ کی جانب سے گٹکے اور مین پوری کی فروخت کے خلاف اسمبلی میں بل جمع کرانااحسن اقدام ہے تاہم ملک میں کئی ایسے قوانین موجودہیں جن پرعمل نہیں کرایاجارہاہے صرف کراچی میں 122 برانڈ کی چھالیہ مارکیٹوں میں دستیاب ہے یہ حیران کن بات ہے کہ شہرمیں جان بچانے والی دواؤں کی توقلت ہوجاتی ہے لیکن پابندی کے باوجود گٹکے مین پوری اورچھالیہ کی فروخت کھلے عام جاری رہتی ہے۔


ڈاکٹر قیصر سجاد نے شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ سندھ اسمبلی گٹکے اور مین پوری کی فروخت کے خلاف توبل اسمبلی میں پیش کررہی ہے مگراس سے زیادہ خطرناک چیزچھالیہ ہے جس پرپابندی لگانے اوراس کی فروخت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کررہی چھالیہ ہر کسی کی پہنچ میں ہے اور یہ ایسا نشہ ہے جس سے منہ کا کینسر ہی نہیں بلکہ اس سے جسم میںخون کی مقداربھی کم ہوتی ہے ،چھالیہ کاجوس ہی کارسینوجین یعنی کینسرکاسبب بنتاہے،ٹیکسٹائل اورمصنوعی رنگ بھی کینسرکاسبب بنتے ہیں جوسپاریوں میں ملائے جاتے ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری نے بتایا کہ ملک میں چھالیہ کی پیداوارنہیں ہوتی ہے بلکہ یہ چھالیہ امپورٹ کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب تک چھالیہ ملک میںپہنچتی ہے تواس میں پھپھوندی لگ چکی ہوتی ہے اورپاکستان میں جتنی بھی چھالیہ استعمال کی جاتی ہے وہ پھپھوندی زدہ ہی ہوتی ہے جس کے کھانے سے جگر کا کینسر بھی ہوتا ہے، چھالیہ کھانے سے سب سے میوکس فائبروسز یعنی منہ سکڑ جانے کی شکایت بھی عام ہے اور اس بیماری کا دنیا میں کوئی علاج موجود نہیں ہے، سب میوکس فائبروسز سے تالو بھی سکڑ جاتا ہے اور اوپرنیچے کا جبڑا آپس میں مل جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ کینسر کا تو سو فیصد علاج ہے لیکن سب میوکس فائبروسز کا کوئی علاج ممکن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں منہ سکڑ جانے کی بیماری عام ہے جس پرقابوپانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

 
Load Next Story