پولیس چھری مار کو تو پکڑ نہ سکی خواجہ سراؤں کو کیا تحفظ دے گی بندیا رانا

اسلحہ دے دیا جائے تو خواتین اپنا تحفظ خود کر لیں گے، بندیا رانا


Zohaib Jiye Ja November 20, 2017
خواجہ سراؤں کی آڑ میں نوسر باز بڑی تعداد میں جنسی کاروبار میں ملوث ہیں، شمیم ممتاز۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی کے خواجہ سراؤں نے لائسنس یافتہ پستول رکھنے کا مطالبہ کردیا جب کہ ان کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس ہم پر ہونے والے تشدد میں ہمیں تحفظ فراہم نہیں کرسکتی تو پھر چوڑیاں پہن لے۔

جینڈر انٹریکٹیو الائنس کی صدر بندیا رانا نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چھرا مار گروپ کو پکڑنے کا ٹاسک خواجہ سراؤں کو دیا جائے ہم سڑکوں پر خواتین کا تحفظ اور لائنسنس یافتہ پستول سے اپنی حفاظت خود کریں گے اس حوالے سے تشویش ہے کہ خواجہ سراؤں کا کسی پارٹی یا جرائم سے کوئی تعلق نہیں جبکہ پولیس کا کام ہے کہ وہ معلوم کریں کہ کونسا گروپ خواجہ سراؤں کے قتل میں ملوث ہے انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے اس حوالے سے اراکین سندھ اسمبلی بھی بیان دینا پسند نہیں کرتے سیاستدان الیکشن کے دوران ووٹوں کے لیے مہم میں ہمیں استعمال کرتے ہیں۔

بندیا رانا محکمہ سماجی بہبود میں فوکل پرسن بھی ہیں انھوں نے مزید بتایا کہ محکمہ میں سماجی بہبود کا وزیر زیادرہ عرصے وزارت پر نہیں ٹھہرتا ہے مطالبات سن لیے جاتے ہیں اور محکمے کی جانب سے یقین دہانی بھی کرائی جاتی ہے لیکن کوئی خاطر خواہ انتظامات اور وعدے پورے نہیں کیے جاتے سندھ حکومت کو چاہیے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی طرح خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کے لیے فنڈز مختص کرکے کام کرے، انہوں نے بتایا کہ خواجہ سراؤں میں 20 فیصد تعلیم یافتہ ہیں حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث وہ بھی نوکری سے محروم ہیں2 ہزار خواجہ سرا کراچی میں موجود ہیں مردم شماری میں10 ہزار 400 کو شمار کیا گیا ہے جبکہ مردم شماری کی ٹٰیم کوچاہیے تھا کہ مردم شماری کے وقت ایک نمائندہ خواجہ سراؤں سے بھی شامل کیا جاتا سندھ میں 25 ہزار خواجہ سرا رجسٹرڈ ہیں پورے پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد 2 لاکھ 75 ہزار ہے۔



دوسری جانب پنجاب سے آنے والی خواجہ سرا نشہ راؤ نے بتایا کہ وہ کراچی یونیورسٹی میں ایل ایل بی کی طالب علم ہے اور ایل ایل ایم کرنے کی خواہشمند ہے کراچی یونیورسٹی میں طالب علموں کا ان کے ساتھ رویہ بہت اچھا ہے کراچی کے طلبہ ہر قسم کا تعاون کرتے ہیں پنجاب کے مقابلے میں کراچی کے طالبعلم دوست پسند ہیں، کراچی میں طلبہ پیچھے سے جملے نہیں کستے اگر سندھ حکومت کا تعاون ملا اور اسکالر شپ ملی تو ضرور ملک کا نام روش کروں گی اپنے ساتھ 2 خواجہ سراؤں زویا اور ریمل کو ٹیوشن پڑھاتی ہوں حال ہی میں خوشی نامی خواجہ سرا کا مقدمہ بھی کورٹ میں زیر سماعت ہے جسے درخشاں تھانے کی حدود ڈیفنس میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

نشہ راؤ نے بتایا کہ پولیس اور ٹریفک پولیس کے سامنے خوشی خان کو ملزمان نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا لیکن اس کے باوجود مرکزی ملزم ضمانت پر رہا ہو گیا نشہ راؤ کراچی یونیورسٹی میں ایل ایل بی کی ریگولر طالب علم ہے جو پی آئی ڈی سی کی رہائشی ہے جبکہ حال ہی میں چندا، پائل کے قتل کا کیس رپورٹ ہوا اور گذری اور درخشاں تھانے کی حدود میں کرن اور خوشی خان پر تشدد کا واقعہ رپورٹ ہوا صفورا میں سپنا کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا تھا۔



تشدد کا نشانہ بننے والی خواجہ سرا خوشی خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ کرسچن کالونی سے کھڈا مارکیٹ ڈیفنس گئی تھی ایک گاڑی نے ہارن دیا ملزمان نے زبردستی کار میں بٹھادیا اور تشدد کا نشانہ بنایا تشدد کرنے والے ملزمان چندا کے قتل میں بھی ملوث ہوسکتے ہیں تاکہ چندا کے قتل میں ہم اپنی آواز نہ اٹھاسکیں، چندا کو گاڑی سوار نوجوانوں نے انڈے مارے تھے اور پھر فائرنگ کرکے فرار ہو گئے تھے جب کہ ڈیفنس میں خواجہ سراؤں پر تشدد کرنے والے گروپ کے باعث اب خواجہ سرا وہاں کا رخ نہیں کررہے خواتین خواجہ سراؤں کے ساتھ بہت تعاون کرتی ہیں اور روازنہ ایک ہزار روپے کمالیتے ہیں رات 12بجے کے بعد گھروں پر آتے ہیں فیروز آباد انویسٹی گیشن پولیس نے مئی 30 کو شہری راشد کے قتل میں ملوث خواجہ سرا شہزاد اسلم کو گرفتارکیا تھا۔

ادھر سندھ حکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی فنڈ مختص نہیں کیا ہے لیکن خواجہ سراؤں کی آڑ میں نوسربازوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو سیکس ورکر کے طور پر کام رہی ہے جس سے معاشرے میں خطرناک برائیاں پھیل رہی ہیں جو خواجہ سراؤں کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔

محکمہ سماجی بہبود کی وزیر شمیم ممتاز نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ ایسے نوسرباز خواجہ سراؤں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے اور ان کے جنس کے تعین کیلیے میڈیکل ہونا بہت ضروری ہے نوسربازوں کی وجہ سے خواجہ سراؤں کا تاثر غلط پھیل رہا ہے ان میں ایک بڑا گروہ سیکس ورکر کے طور پر کام رہا ہے جس سے خواجہ سراؤں کی بدنامی، ان پر تشدد اور شہریوں میں منفی رجحان پھیل رہا ہے۔

شمیم ممتاز نے کہا کہ خواجہ سراؤں کیلیے کوئی بل سندھ اسمبلی میں تاحال پیش نہیں کیا جاسکا ہے سندھ میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات بڑھنا تشویشناک بات ہے اس کے پس منظر میں وجوہات کچھ اور ہیں لیکن تشدد کے واقعات روکنے کیلیے سندھ پولیس کی جانب سے ان کی نمائندگی کرنے اور مسائل فوری حل کے لیے فوکل پرسن ہونا چاہیے اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ اور پولیس حکام سے بات کی جائے گی کراچی کے 6 اضلاع میں فوکل پرسن تعینات کیے جائیں تاکہ ان کے مسائل اور شکایت کا ازالہ ہوسکے۔

خواجہ سراؤں کی بہبود کے لیے فنڈز مختص کرنے کے سوال پر شمیم ممتاز نے کہا کہ محکمے کے پاس فنڈز نہیں ہیں لیکن کئی منصوبوں اور تربیت کے پروگرام کا اہتمام کرایا جاتا ہے اگر کوئی خواجہ سرا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنا چاہتا ہے تو وہ اس کی تربیت حاصل کرے جس میں محکمہ سماجی بہبود معاونت کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔