آل انڈیا مہیلا ایمپاورمنٹ پارٹی ہندوستانی عورتوں کے لیے امید کی کرن
حقوق نسواں کے لیے قائم کی گئی سیاسی جماعت کی بانی مسلمان خاتون ہیں
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کا دعوے دار ہے۔ جمہوری مملکت میں تمام شہریوں کو زبان و مذہب اور جنس سے قطع نظر مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں تاہم بھارت میں عملاً ایسا نہیں ہے۔ حقوق کے معاملے میں وہاں مردوزن میں بڑا تفاوت پایا جاتا ہے۔
تاریخی طور پر ہندوستانی معاشرے میں عورت کو ہمیشہ کمتر سمجھا جاتا رہا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے دعووں کے برعکس وہاں یہی رویہ اور عورتوں کے حوالے سے مردوں کی حاکمانہ سوچ اسی طرح برقرار ہے۔ ماضی کے مقابلے میں صورت حال اگرچہ بہتر ہوئی ہے اور خواتین متعدد شعبوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ مصروف کار ہیں، لیکن مجموعی طور پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
ہندوستانی معاشرے میں خواتین کی کیا اہمیت ہے اور عملاً انھیں کیا حقوق حاصل ہیں؟ اس کا اندازہ ان کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔گذشتہ ایک عشرے کے دوران عورتوں کے خلاف مختلف نوعیت کے جرائم کے بیس لاکھ سے زائد واقعات پیش آئے۔ یعنی ہر دو منٹ کے بعد ایک عورت کسی نہ کسی جُرم کا نشانہ بنی۔ یہ وہ واقعات ہیں جو پولیس میں رپورٹ کیے گئے۔
گاؤں، دیہات، قصبوں اور شہروں کے گھروں اور گلی کوچوں تک محدود رہ جانے والے واقعات کی تعداد کئی گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔ عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں دیہی اور شہری، خواندہ اور ناخواندہ علاقوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ انھیں ہر جگہ مردوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے، جسمانی تشدد، مجرمانہ حملے، اور اغوا کیے جانے کا خوف لاحق رہتا ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کے متعدد ادارے کام کررہے ہیںِ، خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں، میڈیا بھی اس اہم معاملے کو زیربحث لاتا رہتا ہے، اس کے باوجود حقوق نسواں اور تحفظ نسواں کے حوالے سے صورت حال بہتر نہیں ہوپارہی، اور ان کے خلاف ہونے والے جرائم کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان کے حقوق اور تحفظ کی بات ضرور کرتی ہیں مگر ان کے یہ بیانات عملی شکل اختیار نہیں کرتے۔ یوں بھارتی ناریوں کے مصائب فزوں تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس تناظر میں ایک ایسی سیاسی قوت کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو ہندوستانی عورتوں کے لیے آواز اٹھائے اور ان کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات بھی کرے۔
بانی صدر کا تعارف
ڈاکٹر نوہیرہ شیخ نے ایک جدی پشتی کاروباری خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ کم عمری ہی میں کاروباری سرگرمیوں میں اپنے والد شیخ ننھے صاحب کا ہاتھ بٹانے لگی تھیں۔ یوں نوجوانی ہی میں وہ کاروباری اسرارورموز اور تجارتی دنیا کی باریکیوں سے واقف ہوگئی تھیں۔ کاروباری ہونے کے ساتھ ساتھ نوہیرہ شیخ کا خاندان مذہب سے بھی بہت قریب تھا۔ چناں چہ تجارت سے دل چسپی کے ساتھ ساتھ مذہب سے لگاؤ بھی انھیں ورثے میں ملا۔ انیس سال کی عمر میں وہ عالمہ کا کورس مکمل کرچکی تھیں۔
1998ء میں ڈٓاکٹر نوہیرہ شیخ نے ہیرا گروپ کی بنیاد ڈالی۔ یہ گروپ آج بیس کمپنیوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دائرہ کار سونے کی خریدوفروخت، سرمایہ کاری، ٹیکسٹائل، زیورات، منرل واٹر، گرینائٹ، ٹورس اینڈ ٹریولس، رئیل اسٹیٹ، الیکٹرانکس اور حج و عمرہ سروسز جیسے شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ہیراگروپ کی کاروباری سرگرمیاں صرف بھارت تک محدود نہیں ہیں۔ بھارت کے علاوہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین، کینیڈا اور گھانا سمیت کئی ممالک میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ ہیرا گروپ کے تحت دو تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں جہاں مذہبی اور عصری تعلیم دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر نوہیرہ شیخ کے پیش نظر یہی مقصد تھا۔ وہ حال ہی میں قائم کی جانے والی آل انڈیا مہیلا ایمپاورمنٹ پارٹی ( ایم ای پی) کی بانی ہیں۔ ہندوستان کے سیاسی نقشے پر اُبھرنے والی یہ واحد جماعت ہے جس نے ' انصاف انسانیت کے لیے'کا نعرہ بلندکیا ہے۔ پارٹی کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر نوہیرہ شیخ کہتی ہیں،'' اس سیاسی جماعت کے قیام کا بنیادی مقصد بھارتی خواتین کو بلا لحاظ مسلک، مذہب، علاقہ اور ذات برادری بااختیار بنانا اور انہیں معاشرے میں ایک باعزت مقام دلانا ہے۔''
ڈاکٹر نوہیرہ کہتی ہیں مرکزی سیاسی جماعتیں خواتین کے حقوق کی بات ضرور کرتی ہیں مگرعملاً اس سلسلے میں کچھ کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہیں یا پھر کسی جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ کیا بھی ہے تو برائے نام۔ مجموعی طور پر بھارتی مہیلاؤں کے لیے گھر میں اور گھر کے باہر زندگی بسر کرنا دشوارتر ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے ہندوستانی خواتین مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے انھوں نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے اور ملک میں تبدیلی لانے کے عزم سے یہ قدم اٹھایا ہے۔
آل انڈیا مہیلا ایمپاورمنٹ پارٹی کا بنیادی مقصد خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا، ان کی فلاح و بہبود ہے مگر لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تعلیم کے لیے اقدامات کرنا، بچوں سے مشقت لینے اور ان پر تشدد کے انسداد کے لیے آواز اٹھانا بھی اس کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے۔
ڈاکٹر نوہیرہ کہتی ہیں کہ ان کی پارٹی کے دروازے تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے کھلے ہیں البتہ اس میں 80 فی صد خواتین ہوں گی۔ ایم ای پی کی بانی صدر کا دعویٰ ہے کہ اب تک ملک کی تمام ریاستوں سے سولہ لاکھ افراد پارٹی کے ممبر بن چکے ہیں جن میں 80 فیصد خواتین ہیں اور ان میں مسلم اور غیر مسلم سبھی شامل ہیں۔
ایم ای پی ہندوستان بھر میں سرگرم ہوگی۔ نوزائیدہ پارٹی کا پہلا امتحان عنقریب کرناٹک میں ہونے والے ریاستی انتخابات ہیں جس کے لیے ڈاکٹر نوہیرہ اور ان کی ٹیم نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔
ڈاکٹر نوہیرہ شیخ کے مطابق وہ سب سے پہلے قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں مختص کرنے سے متعلق بل منظور کرانے کی کوشش کرے گی جو سولہ برسوں سے پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے۔
تاریخی طور پر ہندوستانی معاشرے میں عورت کو ہمیشہ کمتر سمجھا جاتا رہا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے دعووں کے برعکس وہاں یہی رویہ اور عورتوں کے حوالے سے مردوں کی حاکمانہ سوچ اسی طرح برقرار ہے۔ ماضی کے مقابلے میں صورت حال اگرچہ بہتر ہوئی ہے اور خواتین متعدد شعبوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ مصروف کار ہیں، لیکن مجموعی طور پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
ہندوستانی معاشرے میں خواتین کی کیا اہمیت ہے اور عملاً انھیں کیا حقوق حاصل ہیں؟ اس کا اندازہ ان کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔گذشتہ ایک عشرے کے دوران عورتوں کے خلاف مختلف نوعیت کے جرائم کے بیس لاکھ سے زائد واقعات پیش آئے۔ یعنی ہر دو منٹ کے بعد ایک عورت کسی نہ کسی جُرم کا نشانہ بنی۔ یہ وہ واقعات ہیں جو پولیس میں رپورٹ کیے گئے۔
گاؤں، دیہات، قصبوں اور شہروں کے گھروں اور گلی کوچوں تک محدود رہ جانے والے واقعات کی تعداد کئی گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔ عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں دیہی اور شہری، خواندہ اور ناخواندہ علاقوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ انھیں ہر جگہ مردوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے، جسمانی تشدد، مجرمانہ حملے، اور اغوا کیے جانے کا خوف لاحق رہتا ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کے متعدد ادارے کام کررہے ہیںِ، خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیمیں موجود ہیں، میڈیا بھی اس اہم معاملے کو زیربحث لاتا رہتا ہے، اس کے باوجود حقوق نسواں اور تحفظ نسواں کے حوالے سے صورت حال بہتر نہیں ہوپارہی، اور ان کے خلاف ہونے والے جرائم کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان کے حقوق اور تحفظ کی بات ضرور کرتی ہیں مگر ان کے یہ بیانات عملی شکل اختیار نہیں کرتے۔ یوں بھارتی ناریوں کے مصائب فزوں تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس تناظر میں ایک ایسی سیاسی قوت کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو ہندوستانی عورتوں کے لیے آواز اٹھائے اور ان کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات بھی کرے۔
بانی صدر کا تعارف
ڈاکٹر نوہیرہ شیخ نے ایک جدی پشتی کاروباری خاندان میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ کم عمری ہی میں کاروباری سرگرمیوں میں اپنے والد شیخ ننھے صاحب کا ہاتھ بٹانے لگی تھیں۔ یوں نوجوانی ہی میں وہ کاروباری اسرارورموز اور تجارتی دنیا کی باریکیوں سے واقف ہوگئی تھیں۔ کاروباری ہونے کے ساتھ ساتھ نوہیرہ شیخ کا خاندان مذہب سے بھی بہت قریب تھا۔ چناں چہ تجارت سے دل چسپی کے ساتھ ساتھ مذہب سے لگاؤ بھی انھیں ورثے میں ملا۔ انیس سال کی عمر میں وہ عالمہ کا کورس مکمل کرچکی تھیں۔
1998ء میں ڈٓاکٹر نوہیرہ شیخ نے ہیرا گروپ کی بنیاد ڈالی۔ یہ گروپ آج بیس کمپنیوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دائرہ کار سونے کی خریدوفروخت، سرمایہ کاری، ٹیکسٹائل، زیورات، منرل واٹر، گرینائٹ، ٹورس اینڈ ٹریولس، رئیل اسٹیٹ، الیکٹرانکس اور حج و عمرہ سروسز جیسے شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ہیراگروپ کی کاروباری سرگرمیاں صرف بھارت تک محدود نہیں ہیں۔ بھارت کے علاوہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین، کینیڈا اور گھانا سمیت کئی ممالک میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ ہیرا گروپ کے تحت دو تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں جہاں مذہبی اور عصری تعلیم دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر نوہیرہ شیخ کے پیش نظر یہی مقصد تھا۔ وہ حال ہی میں قائم کی جانے والی آل انڈیا مہیلا ایمپاورمنٹ پارٹی ( ایم ای پی) کی بانی ہیں۔ ہندوستان کے سیاسی نقشے پر اُبھرنے والی یہ واحد جماعت ہے جس نے ' انصاف انسانیت کے لیے'کا نعرہ بلندکیا ہے۔ پارٹی کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر نوہیرہ شیخ کہتی ہیں،'' اس سیاسی جماعت کے قیام کا بنیادی مقصد بھارتی خواتین کو بلا لحاظ مسلک، مذہب، علاقہ اور ذات برادری بااختیار بنانا اور انہیں معاشرے میں ایک باعزت مقام دلانا ہے۔''
ڈاکٹر نوہیرہ کہتی ہیں مرکزی سیاسی جماعتیں خواتین کے حقوق کی بات ضرور کرتی ہیں مگرعملاً اس سلسلے میں کچھ کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہیں یا پھر کسی جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ کیا بھی ہے تو برائے نام۔ مجموعی طور پر بھارتی مہیلاؤں کے لیے گھر میں اور گھر کے باہر زندگی بسر کرنا دشوارتر ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے ہندوستانی خواتین مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے انھوں نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے اور ملک میں تبدیلی لانے کے عزم سے یہ قدم اٹھایا ہے۔
آل انڈیا مہیلا ایمپاورمنٹ پارٹی کا بنیادی مقصد خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا، ان کی فلاح و بہبود ہے مگر لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تعلیم کے لیے اقدامات کرنا، بچوں سے مشقت لینے اور ان پر تشدد کے انسداد کے لیے آواز اٹھانا بھی اس کے اغراض و مقاصد میں شامل ہے۔
ڈاکٹر نوہیرہ کہتی ہیں کہ ان کی پارٹی کے دروازے تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے کھلے ہیں البتہ اس میں 80 فی صد خواتین ہوں گی۔ ایم ای پی کی بانی صدر کا دعویٰ ہے کہ اب تک ملک کی تمام ریاستوں سے سولہ لاکھ افراد پارٹی کے ممبر بن چکے ہیں جن میں 80 فیصد خواتین ہیں اور ان میں مسلم اور غیر مسلم سبھی شامل ہیں۔
ایم ای پی ہندوستان بھر میں سرگرم ہوگی۔ نوزائیدہ پارٹی کا پہلا امتحان عنقریب کرناٹک میں ہونے والے ریاستی انتخابات ہیں جس کے لیے ڈاکٹر نوہیرہ اور ان کی ٹیم نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔
ڈاکٹر نوہیرہ شیخ کے مطابق وہ سب سے پہلے قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں مختص کرنے سے متعلق بل منظور کرانے کی کوشش کرے گی جو سولہ برسوں سے پارلیمنٹ میں زیر التوا ہے۔