بچوں کو ٹیوشن بھیجنا ضروری ہے
مائیں گھر پر بھی پڑھاسکتی ہیں۔
''بچے گھر میں کہاں پڑھتے ہیں، ٹیوشن میں صحیح پڑھائی کرتے ہیں۔''
''میرا بچہ تو بہت شریر ہے، بیٹھتا ہی نہیں،کیسے پڑھاؤں؟''
''آج کل کی پڑھائی بہت مشکل ہے، لہٰذا بچوں کو ٹیوشن بھیجنا ہی پڑتا ہے۔''
عموماً مائیں بچوں کو ٹیوشن بھیجنے سے متعلق اس طرح کی باتیں کرتی پائی جاتی ہیں۔ حالاںکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ ماؤں کے پاس پڑھنے والے بچے ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز میں پڑھنے والے بچوں کی بہ نسبت امتحانات میں شاندار کامیابی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ذہانت اور خوداعتمادی سے بھرپور شخصیت کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ لیکن عموماً مائیں بچوں کو گھر پر پڑھانے کے بجائے ٹیوشن بھیجنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسی تعلیم یافتہ مائیں اگر ذیل میں درج چند آسان نکات پر عمل کریں تو بچوں کو باآسانی گھر پر پڑھاسکیں گی۔
سب سے اہم بچوں کی پڑھائی کا وقت متعین کرنا ہے۔ عموماً گھر پر بچے یہ عذر تلاشتے ہیں کہ تھوڑی دیر سونے کے بعد پڑھوں گا یا پسندیدہ کارٹون دیکھنے یا گیم کھیلنے کے بعد پڑھائی کروں گا۔ اس طرح عموماً خاصا وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ بچوں کی پڑھائی کے اوقات کار مقرر کریں، اور روزانہ ان اوقات کی پابندی کی جائے۔ اس طرح منظم انداز میں بچے بھی پڑھ لیں گے اور آپ بھی پڑھاسکیں گی۔ پڑھاتے وقت بچوں سے گفتگو کے دوران انداز جارحانہ یا آواز بہت اونچی نہ ہو۔ آہستگی اور نرمی سے کی جانے والی گفتگو بھی بچے باآسانی سمجھ لیتے ہیں، بہ صورت دیگر وہ اسی انداز کے عادی ہونے کے ساتھ خود بھی اسی انداز میں گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ جوکہ نامناسب رویہ ہے اور ایسی گفتگو سے شخصیت کا منفی تاثر پڑتا ہے۔
ایک سے زیادہ بچوں کو پڑھانا ہو تو جب تک ایک بچے کا کام اور اس کی کاپیاں دیکھیں اتنی دیر میں دوسرے بچوں کو سبق پڑھنے، ہوم ورک کرنے، یاد کرنے یا رنگ بھرنے کے کام میں مصروف رکھیں تاکہ بچے شور نہ مچائیں یا تنگ نہ کریں۔ اس کے علاوہ بہن بھائی ایک دوسرے کا سبق سن سکتے ہیں۔
سائنس، جغرافیہ، معاشرتی علوم، انگریزی، اردو، حساب غرض کوئی بھی مضمون بچے کو سبق یاد کرانے کے لیے بہتر ہے کہ سبق کو دل چسپ انداز میں سمجھایا جائے تاکہ وہ ذہن نشین کرلے۔ ہمیشہ ایک ڈرائنگ بک ساتھ رکھیں، اس میں مختلف اشکال، نقشے، ڈیزائن وغیرہ بناکر بچوں کو سمجھائیں۔
بچوں کا املا، یا ہوم ورک وغیرہ چیک کرنے کا کام بعد میں کریں۔ ابتدا میں ان کو پڑھانے، سمجھانے اور یاد کرانے کا کام کیجیے۔
کوشش کیجیے بچوں کے مضامین سے متعلق رہنما کتب یا ان اسباق سے متعلق مضامین پہلے سے پڑھ لیں۔ اس کے لیے انٹرنیٹ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اگر ماں لاعلم ہوگی یا مضمون یا متعلقہ سبق کے متعلق ماں کی معلومات ناکافی ہوں گی تو اس کے لیے بچے کو پڑھانا مشکل ہوگا۔
مختلف مضامین کے لیے وقت کی تقسیم سب سے اہم ہے۔ کس مضمون کو کتنی دیر پڑھانا ہے اور اس میں ہوم ورک کے علاوہ اور کیا تیاری کروانی ہے۔
سبق اچھا یاد کرنے یا ٹیسٹ میں اچھے نمبر لانے پر شاباشی ضرور دیں۔ حوصلہ افزائی بچوں میں اور اچھاکرنے کی لگن پیدا کرتی ہے۔ کسی مشہور شخصیت یا جگہ کے متعلق پڑھا رہے ہوں تو کوشش کیجیے تصاویر کے ذریعے اس کو دل چسپ انداز میں پڑھائیں۔ ممکن ہو تو ہفتہ وار چھٹی کے دن بچوں کو وہ جگہ دکھانے لے جائیں۔ مثلاً قائد اعظم کا مزار، ساحل سمندر وغیرہ۔ امتحانات کی تیاری کے لیے پہلے سے لائحہ عمل مرتب کرلیں، کتنے دن کون سا مضمون پڑھانا ہے، کس دن کون سا سبق یاد کرانا ہے، اس طرح بچے بہترین تیاری کریں گے۔
بچوں سے موضوع کے اعتبار سے مختلف باتیں پوچھیں۔ سبق سے ہٹ کر موضوع کے اعتبار سے پانچ مزید باتیں یا نکات بتانے کا کام دیں۔ اس طرح بچوں کی غوروفکر کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ ان میں مطالعے کا شوق بھی بیدار ہوتا ہے اور موضوع پر سیر حاصل معلومات بچوں کے مستقبل میں بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔ اگر کوئی بچہ بہت باتونی ہو تو اس کو دوسرے بچوں کا سبق سننے یا کام چیک کرنے کی ذمہ داری سونپ دیں۔ اس طرح عموماً بچے مصروف ہوکر زیادہ باتیں نہیں کرتے یا بچوں کے لیے تعلیمی اور معلوماتی پزل وغیرہ دے دیے جائیں۔ اس طرح بچے مصروف بھی رہیں گے اور تنگ بھی نہیں کریں گے۔
کھیل کے شوقین بچوں کا تمام تر دھیان کھیل کی طرف رہتا ہے۔ ان کو اس طرح پڑھائی کی طرف راغب کریں کہ اگر تم نے ہوم ورک کرلیا یا پہاڑے یاد کرکے سنا دیے تو تمھیں کھیلنے کے لیے جانے دوں گی یا پڑھائی کے دوران دس سے پندرہ منٹ کا کھیل کا وقفہ رکھ لیں تاکہ بچے تازہ دم ہوکر دوبارہ سے پڑھائی پر توجہ دیں۔
اس کے علاوہ جب آپ کھانا پکا رہی ہوں یا کسی دوسرے کام میں مصروف ہوں اور بچہ کھیل رہا ہو اس دوران بچے سے مختلف پہاڑے، رنگوں کے نام، سوال جواب وغیرہ زبانی پوچھے جاسکتے ہیں۔ اس طرح بعض بچے خوشی خوشی جواب دیتے ہیں۔ جب کہ ان کو پڑھنے بٹھائیں تو وہ بالکل جواب نہیں دیتے۔ غرض بچے جس طرح مطمئن محسوس کریں اسی طرح بچوں کو غیر محسوس انداز میں بھی پڑھایا جاسکتا ہے۔
''میرا بچہ تو بہت شریر ہے، بیٹھتا ہی نہیں،کیسے پڑھاؤں؟''
''آج کل کی پڑھائی بہت مشکل ہے، لہٰذا بچوں کو ٹیوشن بھیجنا ہی پڑتا ہے۔''
عموماً مائیں بچوں کو ٹیوشن بھیجنے سے متعلق اس طرح کی باتیں کرتی پائی جاتی ہیں۔ حالاںکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ ماؤں کے پاس پڑھنے والے بچے ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز میں پڑھنے والے بچوں کی بہ نسبت امتحانات میں شاندار کامیابی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ذہانت اور خوداعتمادی سے بھرپور شخصیت کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ لیکن عموماً مائیں بچوں کو گھر پر پڑھانے کے بجائے ٹیوشن بھیجنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسی تعلیم یافتہ مائیں اگر ذیل میں درج چند آسان نکات پر عمل کریں تو بچوں کو باآسانی گھر پر پڑھاسکیں گی۔
سب سے اہم بچوں کی پڑھائی کا وقت متعین کرنا ہے۔ عموماً گھر پر بچے یہ عذر تلاشتے ہیں کہ تھوڑی دیر سونے کے بعد پڑھوں گا یا پسندیدہ کارٹون دیکھنے یا گیم کھیلنے کے بعد پڑھائی کروں گا۔ اس طرح عموماً خاصا وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ بچوں کی پڑھائی کے اوقات کار مقرر کریں، اور روزانہ ان اوقات کی پابندی کی جائے۔ اس طرح منظم انداز میں بچے بھی پڑھ لیں گے اور آپ بھی پڑھاسکیں گی۔ پڑھاتے وقت بچوں سے گفتگو کے دوران انداز جارحانہ یا آواز بہت اونچی نہ ہو۔ آہستگی اور نرمی سے کی جانے والی گفتگو بھی بچے باآسانی سمجھ لیتے ہیں، بہ صورت دیگر وہ اسی انداز کے عادی ہونے کے ساتھ خود بھی اسی انداز میں گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ جوکہ نامناسب رویہ ہے اور ایسی گفتگو سے شخصیت کا منفی تاثر پڑتا ہے۔
ایک سے زیادہ بچوں کو پڑھانا ہو تو جب تک ایک بچے کا کام اور اس کی کاپیاں دیکھیں اتنی دیر میں دوسرے بچوں کو سبق پڑھنے، ہوم ورک کرنے، یاد کرنے یا رنگ بھرنے کے کام میں مصروف رکھیں تاکہ بچے شور نہ مچائیں یا تنگ نہ کریں۔ اس کے علاوہ بہن بھائی ایک دوسرے کا سبق سن سکتے ہیں۔
سائنس، جغرافیہ، معاشرتی علوم، انگریزی، اردو، حساب غرض کوئی بھی مضمون بچے کو سبق یاد کرانے کے لیے بہتر ہے کہ سبق کو دل چسپ انداز میں سمجھایا جائے تاکہ وہ ذہن نشین کرلے۔ ہمیشہ ایک ڈرائنگ بک ساتھ رکھیں، اس میں مختلف اشکال، نقشے، ڈیزائن وغیرہ بناکر بچوں کو سمجھائیں۔
بچوں کا املا، یا ہوم ورک وغیرہ چیک کرنے کا کام بعد میں کریں۔ ابتدا میں ان کو پڑھانے، سمجھانے اور یاد کرانے کا کام کیجیے۔
کوشش کیجیے بچوں کے مضامین سے متعلق رہنما کتب یا ان اسباق سے متعلق مضامین پہلے سے پڑھ لیں۔ اس کے لیے انٹرنیٹ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اگر ماں لاعلم ہوگی یا مضمون یا متعلقہ سبق کے متعلق ماں کی معلومات ناکافی ہوں گی تو اس کے لیے بچے کو پڑھانا مشکل ہوگا۔
مختلف مضامین کے لیے وقت کی تقسیم سب سے اہم ہے۔ کس مضمون کو کتنی دیر پڑھانا ہے اور اس میں ہوم ورک کے علاوہ اور کیا تیاری کروانی ہے۔
سبق اچھا یاد کرنے یا ٹیسٹ میں اچھے نمبر لانے پر شاباشی ضرور دیں۔ حوصلہ افزائی بچوں میں اور اچھاکرنے کی لگن پیدا کرتی ہے۔ کسی مشہور شخصیت یا جگہ کے متعلق پڑھا رہے ہوں تو کوشش کیجیے تصاویر کے ذریعے اس کو دل چسپ انداز میں پڑھائیں۔ ممکن ہو تو ہفتہ وار چھٹی کے دن بچوں کو وہ جگہ دکھانے لے جائیں۔ مثلاً قائد اعظم کا مزار، ساحل سمندر وغیرہ۔ امتحانات کی تیاری کے لیے پہلے سے لائحہ عمل مرتب کرلیں، کتنے دن کون سا مضمون پڑھانا ہے، کس دن کون سا سبق یاد کرانا ہے، اس طرح بچے بہترین تیاری کریں گے۔
بچوں سے موضوع کے اعتبار سے مختلف باتیں پوچھیں۔ سبق سے ہٹ کر موضوع کے اعتبار سے پانچ مزید باتیں یا نکات بتانے کا کام دیں۔ اس طرح بچوں کی غوروفکر کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ ان میں مطالعے کا شوق بھی بیدار ہوتا ہے اور موضوع پر سیر حاصل معلومات بچوں کے مستقبل میں بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔ اگر کوئی بچہ بہت باتونی ہو تو اس کو دوسرے بچوں کا سبق سننے یا کام چیک کرنے کی ذمہ داری سونپ دیں۔ اس طرح عموماً بچے مصروف ہوکر زیادہ باتیں نہیں کرتے یا بچوں کے لیے تعلیمی اور معلوماتی پزل وغیرہ دے دیے جائیں۔ اس طرح بچے مصروف بھی رہیں گے اور تنگ بھی نہیں کریں گے۔
کھیل کے شوقین بچوں کا تمام تر دھیان کھیل کی طرف رہتا ہے۔ ان کو اس طرح پڑھائی کی طرف راغب کریں کہ اگر تم نے ہوم ورک کرلیا یا پہاڑے یاد کرکے سنا دیے تو تمھیں کھیلنے کے لیے جانے دوں گی یا پڑھائی کے دوران دس سے پندرہ منٹ کا کھیل کا وقفہ رکھ لیں تاکہ بچے تازہ دم ہوکر دوبارہ سے پڑھائی پر توجہ دیں۔
اس کے علاوہ جب آپ کھانا پکا رہی ہوں یا کسی دوسرے کام میں مصروف ہوں اور بچہ کھیل رہا ہو اس دوران بچے سے مختلف پہاڑے، رنگوں کے نام، سوال جواب وغیرہ زبانی پوچھے جاسکتے ہیں۔ اس طرح بعض بچے خوشی خوشی جواب دیتے ہیں۔ جب کہ ان کو پڑھنے بٹھائیں تو وہ بالکل جواب نہیں دیتے۔ غرض بچے جس طرح مطمئن محسوس کریں اسی طرح بچوں کو غیر محسوس انداز میں بھی پڑھایا جاسکتا ہے۔