رزق حلال کی روحانی مسرت

اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسان کے اعلیٰ مقام کے پیش نظر اسے زندگی گزارنے کے طریقے بتائے ہیں


Shabbir Ahmed Arman November 20, 2017
[email protected]

انسان اس دنیا میں کئی ضرورتوں کے ساتھ آتا ہے ، یہ ضرورتیں کچھ بنیادی نوعیت کی ہوتی ہیں اورکچھ ثانوی حیثیت کی ، کچھ زندگی کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہیں اورکچھ بعد میں سامنے آتی ہیں۔

انسان شروع میں ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے خود تگ و دود نہیں کرتا بلکہ اس کے والدین اور سرپرست اس کا خیال کرتے ہیں اور حتمی المقدور انھیں پورا کرتے ہیں، لیکن بعد میں ایک مرحلہ وہ آتا ہے جب اسے اپنی ضروریات خود پوری کرنی پڑتی ہیں ۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں سب سے اہم کھانا پینا ہے اس کے بغیر اس کا زندہ رہنا مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انسان اپنی صلاحیتیں استعمال کرتا ہے اورکوشش کرتا ہے کہ اچھے سے اچھا کھانا اسے حاصل ہو تاکہ اس کا جسم صحت مند اور مضبوط رہے اوراس کائنات میں رہ کر وہ اپنی ذمے داریوں کو بہتر طریقے سے انجام دے سکے۔

اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسان کے اعلیٰ مقام کے پیش نظر جہاں اس کو زندگی گزارنے کے طریقے بتائے ہیں، وہاں اسے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ اس کے کھانے پینے کا طریقہ دوسری مخلوقات سے بالکل مختلف ہو اور اشیائے خورونوش کے حصول میں بھی اس کی امتیازی شان ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی بقاء کے لیے کھانے اور پینے کی صرف وہ چیزیں استعمال کریں جو حلال ہوں ، حرام نہ ہوں ، پاک ہوں ، ناپاک نہ ہوں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو حکم دیا ہے اس حکم کی تعمیل میں بندوں کا اپنا فائدہ ہے ، بندوں کے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی قدرت ، قوت اور حکومت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ سارے کا سارا فائدہ بندوں کو ملتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کے لیے جن چیزوں کی اجازت دی ہے بالفاظ دیگر جنھیں حلال قرار دیا ہے وہ انسان کے جسم اور روح کے لیے بہت مفید ہیں اور جن چیزوں کے کھانے پینے سے روک دیا ہے وہ انسان کے لیے نقصان دہ اور مضر ہیں ۔

حضور اکرم ﷺ کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا کھانا پینا اور پہننا حرام ہو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ، وہ بظاہرکتنا ہی بڑا عابد اور زاہد کیوں نہ ہو ، حقیقت میں نامراد اور گمراہ ہے ، اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص جو بظاہر دنیاوی کاموں میں مصروف نظر آتا ہے، وہ اپنی اس مصروفیت کے ساتھ ساتھ دینی فرائض بھی ادا کرتا ہے اور حلال کماتا اور کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا بہت بڑا درجہ اور مقام ہے ۔ جو شخص تجارت میں مصروف رہتا ہے اسے نفل عبادت کا موقع کم ملتا ہے ، اس کا زیادہ وقت کاروبار میں صرف ہوتا ہے لیکن حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ اگر سچا اور دیانتدار ہے تو اس کا ہر لمحہ عبادت ہے ۔

آپ ﷺ نے رزق حلال کی تلاش اور جستجو کو فرض قرار دیا ہے اس ضمن میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے یعنی کہ رزق حلال کی تلاش دیگر فرائض کی طرح فرض ہے ۔محنت کے نتیجے میں جو وسائل حاصل ہوتے ہیں ، ان میں بڑی برکت ہوتی ہے ، دوسروں کی کمائی پر نظر رکھنے والا شخص کبھی بھی سیر نہیں ہوتا ، محنت کرنا انسان کے ظاہر اور باطن دونوں کے لیے لازمی ہے ، جو لوگ محنت سے جی چراتے ہیں اور فضول بیٹھ کر وقت گزارتے ہیں وہ اپنی زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے ، محنت نہ کرنے کی وجہ سے جہاں ان کا جسم سست ہوجاتا ہے وہاں ان کے خیالات بھی پست اور سطحی ہوجاتے ہیں ان کا ذہن کمزور ہوجا تا ہے اور فکر کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔

ایسے لوگ نہ اپنی ذات کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور نہ معاشرے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں ، کائنات میں ان کا وجود ایک بوجھ ہوتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فضول بیٹھنے اور بے کار رہنے سے روکا ہے اور ترغیب دی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت دی ہے وہ جتنی بھی ہے اسے استعمال کرنا اس کی بنیادی ذمے داری ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کمانے کی جو ترغیب دی ہے اور جو طریقہ بتایا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے ہاں رزق حلال کی کتنی اہمیت ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ غریب اور مفلس کے ساتھ تعاون اور مدد کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے کسی ایسے جائزکام میں لگایا جائے جس سے اس کی معاشی ضرویات پوری ہوسکیں اور وہ دوسرں کا محتاج بن کر زندگی گزارنے کی بجائے خود کماکر زندگی گزارے ۔

دین اسلام جائز طریقے سے مال و دولت کمانے سے منع نہیں کرتا بلکہ صحیح کاموں میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ بعض لوگ دولت کمانے کے سلسلے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے بلکہ ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں ۔آپ ﷺ نے ناجائز طریقہ سے دولت کمانے سے منع کیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن ہر شخص سے اس کی دولت کے بارے میں سوال ہوگا ۔

خیال رہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق میں رزق حلال کو بہت زیادہ دخل ہے جس طرح صاف ستھری غذا سے جسمانی صحت برقرار رہتی ہے اسی طرح حلال اورپاکیزہ چیزوں کے کھانے سے اخلاقی صحت اور قوت بڑھتی ہے اور دل میں ایک خاص نور پیدا ہوتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص چالیس روز حلال کھائے جس میں ذرہ بھر بھی حرام کی آمیزش نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو منور کردیتا ہے اور اپنے اہل وعیال کے لیے حلال روزی تلاش کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے ۔ رزق حلال کا اس دنیا میں نقد صلہ یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حلال کھانے والوں کے دلوں کو منور کردیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی زبانوں سے حکمت کے چشمے جاری ہوجاتے ہیں ۔ حلال کی روزی میں بڑی طاقت اور قوت ہوتی ہے ۔ اس طاقت اور قوت کو اہل دل حضرات باقاعدہ محسوس کرتے ، جس طرح طاقتورغذاؤں اور دواؤں کے استعمال سے جسم کے اندر ایک خاص قسم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ اپنی اس قوت کو کسی طرح استعمال کرے ، اسی طرح حلال روزی کھانے سے روح کے اندر انبساط اور فرحت پیدا ہوتی ہے ، انسان کا رجحان نیک اور پاکیزہ اعمال اور افرادکی طرف ہوتا ہے ۔

قرآن مجید کی متعدد آیات میں حلال اورطیب غذا کا ذکر کرتے ہوئے سخت تاکید کی گئی ہے کہ شیطان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے اور کھانے پینے میں حرام اور ناپاک اشیا ء کے استعمال سے پرہیزکرنا چاہیے ۔ ایک مسلمان کو ایسی تمام اشیاء سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے جو ایسے فاسد عناصر پرمشتمل ہوں جو جسمانی امراض کا سبب بنتے ہیں اور انسانی صحت کے لیے زہر قاتل کا کام کرتے ہیں ۔ اسی طرح وہ چیزیں بھی حرام قرار دی گئی ہیں جو حیوانی خواہشات کو غیر فطری طور پر برانگیختہ کرکے ان کو اعتدال طبعی سے نکال کر روحانی امراض اور اخلاقی خرابیوں کا باعث ہوتی ہوں ، اسی طرح ان اشیاء سے بھی احتراز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو غرور ، خود نمائی ، بے جا تعیش اور نخوت کا سبب بن کر مساوات اور اخوت کے رشتوں کو منقطع کرتی ہوں اور خود غرضی ، ظلم اور بد اخلاقی کی جانب دعوت دیتی ہوں ۔

بدقسمتی سے آج کل ہمارے معاشرے میں رزق حلال کی اہمیت کو نظرانداز کیا جارہا ہے ۔ تقریبا ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ اس کے قبضے میں زیادہ سے زیادہ دولت آجائے خواہ کسی بھی طریقہ سے آئے ، جائز طریقہ سے یا ناجائز ذریعہ سے آئے ، اس وقت ہماری پوری سوسائٹی اس بیماری میں مبتلا ہے بہت کم افراد ایسے ہوں گے جو اپنی کمائی کے سلسلے میں محتاط ہوں گے ، وہ افراد جو رشوت اور سود کے ذریعہ دولت حاصل کرتے ہیں وہ دراصل اپنے ہی بھائیوں کا خون چوستے ہیں ، جہاں وہ اپنے ملک و قوم کے ساتھ بد خواہی کرتے ہیں وہاں اپنے مقام و منصب اور دین و ملت کے ساتھ بھی غداری کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ایسے افراد معاشرے کے لیے ناسورکی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رزق حلال نصیب عطا فرمائے اور حرام کمائی سے محفوظ رکھے۔ (آمین )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں