مودی سرکار کی غلط کاریاں

مودی سرکار پے درپے غلطیاں کیے جا رہی ہے اور بھارتی جنتا پر ستم پر ستم ڈھائے چلی جا رہی ہے


Shakeel Farooqi November 20, 2017
[email protected]

KARACHI: بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی نے 2014 کے عام انتخابات میں جیتنے کے بعد بھارت کی جنتا کو یہ لولی پاپ دیا تھا کہ دیش کی معیشت تیزی کے ساتھ ترقی کرے گی۔

لہٰذا لوگ اس بات کی توقع کر رہے تھے کہ اب ان کے اچھے دن آنے والے ہیں، لیکن جو کچھ ہوا وہ اس کے الٹ تھا۔ نومبر 2016 میں مودی سرکار نے اپنے دور حکومت کا سب سے اہم فیصلہ کیا اور ملک میں نوٹ بندی نافذ کردی۔ مودی سرکار کا دعویٰ تھا کہ اس فیصلے سے کھربوں روپے کا کالا دھن واپس آئے گا اور ملک کی ترقی میں اضافہ ہوگا، لیکن یہ فیصلہ ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔

جن غریبوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے آئیں گے، ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔ 86 فیصدکرنسی کے مارکیٹ سے نکل جانے کے باعث ملک میں نقدی کا بہاؤ اچانک رک گیا۔ ایک ایسا ملک جہاں بینکاری کا شعبہ ابھی تک غیر مستحکم ہے اور جہاں کے عوام اے ٹی ایم سے پیسے بھی نہیں نکال پاتے انھیں ڈیجیٹل لین دین کی جانب دھکیل دیا گیا۔ ممبئی،کولکتہ اور دہلی جیسے بڑے بڑے شہروں میں سیلزکی شرح فیصد بری طرح متاثر ہوگئی ہے۔ حکومت کے اس احمقانہ اقدام کے خلاف بعض بڑے وکلا نے صدائے احتجاج بھی بلند کی اورکہا کہ یہ فیصلہ 1934 کے آر بی آئی ایکٹ کے خلاف ہے لیکن ہٹ دھرم مودی سرکار کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی اور وکیلوں کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔

آر بی آئی ایکٹ کے سیکشن 24(2)میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ نوٹ بندی کا مشورہ آر بی آئی (RBI) کے مرکزی بورڈ کی جانب سے اس کے اعلیٰ حکام کو دیا جانا چاہیے لیکن چونکہ مودی نے نوٹ بندی (جسے خفیہ رکھ کر پلان کیا گیا تھا) 8 نومبر کو نافذ کردی تھی اس لیے مرکزی بورڈ کوکوئی کارروائی کرنے کا سرے سے کوئی موقعہ ہی نہیں ملا۔

بھارت کی سابق حکمراں سیاسی جماعت کانگریس کے ایک سینئر رہنما شری چدمبرم نے مودی سرکار کے نوٹ بندی کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ 15 لاکھ 44 کروڑ روپے مالیت کے منسوخ شدہ کرنسی نوٹوں میں سے صرف 16 ہزار کروڑ روپے واپس نہیں آئے جو محض ایک فیصد کے لگ بھگ ہے۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) کو بھی اس پر شرم آنی چاہیے جس نے نوٹ بندی کے فیصلے کی سفارش کی تھی۔

نوٹوں کی منسوخی سے متعلق آر بی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 99 فیصد پرانے نوٹ واپس آئے ہیں۔ بینک کے مطابق 15.28 لاکھ کروڑ کی نقدی واپس آئی ہے۔ مودی سرکار کا دعویٰ تھا کہ بھاری تعداد میں جعلی کرنسی نئی مارکیٹ میں گردش کر رہی ہے لیکن اب سامنے آیا ہے کہ صرف 41 کروڑ روپے مالیت کے جعلی نوٹ ہی چلن میں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوٹوں کی منسوخی سے بھارت کے غیر منظم سیکٹر اور رئیل سیکٹر کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ مودی سرکار کے اس غلط فیصلے کے نتیجے میں کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے اور بے چارے غریبوں کو تو روٹیوں کے بھی لالے پڑ گئے۔ نوٹوں کی منسوخی کے دوران عوام کے لیے نقد رقم کی حد مقرر کردی گئی اور انھیں دن رات قطاروں میں کھڑے رہنے کے لیے مجبور کیا گیا جن میں خواتین کے علاوہ بزرگ شہری بھی شامل تھے۔ ان میں سے سو افراد بینکوں کی لائنوں میں کھڑے کھڑے موت کا نشانہ بن گئے۔

نوٹ بندی کے بعد نئے کرنسی نوٹ جاری ہونے میں آٹھ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے جب کہ اے ٹی ایم کو نئے نوٹوں کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے میں 35 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اس کے علاوہ نوٹ بندی کے نتیجے میں اقتصادی کاروبار میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کا نقصان الگ ہوا۔ نوٹ بندی کی مہم کی تشہیر کے لیے بڑے بڑے اشتہارات بھی مودی سرکار نے ملک کے مختلف اخبارات میں بڑے زور و شور کے ساتھ شایع کرائے جس پر بے دریغ رقومات خرچ ہوئیں جوکہ بھارتی عوام کے خون پسینے کی کمائی کا بالکل ناجائز استعمال تھا کیونکہ یہ روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا۔

چنانچہ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سیتارام یچوری نے نوٹ بندی کو بہت بڑی ناکامی اور بھارتی جنتا کے ساتھ مودی سرکارکا دھوکا قرار دیا ہے اور اس جرم میں شامل تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سی پی ایم لیڈر نے نوٹ بندی پر طنز کرتے ہوئے وہائٹ پیپرز (قرطاسِ ابیض) کے بجائے بلیک پیپرز (قرطاسِ اَسود) جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی کالا دھن پکڑنے کے لیے نہیں بلکہ کالے دھن کو جائز قرار دینے کے لیے کی گئی تھی۔ انھوں نے نوٹ بندی پر مودی سرکار سے چودہ سوال بھی کیے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے مودی نے چار اہداف گنوائے تھے لیکن ان میں سے ایک ہدف بھی حاصل نہیں ہوا۔ نہ تو کالا دھن سامنے آیا نہ کرپشن ختم ہوئی، نہ دہشت گردی میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی نکسل ازم کا خاتمہ ہوا۔ البتہ 2 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہی ہوا۔

مودی سرکار پے درپے غلطیاں کیے جا رہی ہے اور بھارتی جنتا پر ستم پر ستم ڈھائے چلی جا رہی ہے۔ ابھی ملک کی معیشت نوٹ بندی کے غلط فیصلے سے سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ مودی سرکار نے جی ایس ٹی کا نفاذ کردیا۔ دنیا کے تقریباً 150 ممالک میں جی ایس ٹی کی 2 یا 3 شرحیں مقرر ہیں جب کہ مودی سرکار نے اس ٹیکس کی 6 شرحیں نافذ کی ہیں جوکہ بھارتی جنتا کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔ اس سے تاجروں کی الجھنوں میں خواہ مخواہ اضافہ ہوگیا ہے۔

مودی سرکار نے اپنے دو منفی منصوبوں سے بھارت کی معیشت کو بری طرح تباہ و برباد کر دیا ہے۔ ان اقدامات سے غیر ملکی تجارت بھی متاثر ہوئی ہے۔ اعداد و شمار سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔ ملکی برآمدات میں 10.3 فیصد جب کہ درآمدات میں 21 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اگست 2016 میں بھارتی برآمدات 21.6 بلین ڈالر جب کہ درآمدات 28.3 بلین ڈالر تھیں۔ تیل کی درآمدات میں 14.2 فیصد اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 7.8 بلین ڈالر ہوگئیں۔ باور ہوکہ تجارتی خسارے اور تیل کی درآمدات میں اضافہ ملک کی معیشت کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔ چونکہ بھارت میں تیل ریزرو پر پابندی عائد ہے اس لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہمیشہ اضافہ ہوگا۔ اسی طرح افراط زر کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

جولائی 2016 کے مقابلے میں صنعتی پیداوار کی شرح میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جب کہ جولائی 2017 میں اس کی ترقی کی شرح 1.2 فیصد ہے۔ کھاد، سیمنٹ اور خام تیل کی پیداوار میں منفی اضافہ ہوا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھاری تعداد میں درآمد کرنے کے سبب بھارتی معیشت سست روی کا شکار ہو رہی ہے۔

جوں جوں وقت گزر رہا ہے، مودی سرکار کی غلط کاریاں اور ان کے نتائج بھارتی جنتا کے سامنے آتے جا رہے ہیں اور سچ اور جھوٹ کا فرق عیاں در عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مودی سرکار کے دن گنے جاچکے ہیں۔ چنانچہ بی جے پی کی مقبولیت کا گراف روز بروز زوال پذیر ہے اور بھارتی عوام میں اس کی وقعت دن بہ دن گرتی چلی جا رہی ہے اور تو اور اب سنگھ پریوار کی جانب سے بھی مودی سرکار کی غلط اور تباہ کن پالیسیوں کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ سنگھ پریوار کے ایک اہم رکن ''بھارتیہ کسان اور بھارتیہ مزدور سنگھ'' نے بھی نوٹ بندی کے مقاصد اور اس کے فوائد کے بارے میں سوال اٹھانے شروع کردیے ہیں۔ یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مودی سرکار کے غلط فیصلوں سے کسانوں اور مزدوروں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور ان کی اقتصادی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئی ہیں ۔ ان میں سے 25 فیصد لوگ ایسے ہیں جو یا تو بالکل ہی بے روزگار ہوچکے ہیں یا بہت معمولی اجرت پر گزارا کرنے اور جسم و جاں کا رشتہ بہ مشکل قائم رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔

نوٹوں کی منسوخی کے بعد بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح میں بڑی زبردست گراوٹ نوٹ کی جا رہی ہے اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد سے تو اس صورتحال میں مزید گراوٹ کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت کے چیف شماریاتی افسر ٹی سی اے اننت کا کہنا ہے کہ مصنوعات سازی کی سرگرمیوں میں کمی آنے کی وجہ سے اقتصادی ترقی پر بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ادھر مقبوضہ کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر نے اپنی پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اہل جموں و کشمیر اس وقت ایک بدترین اور غیر یقینی دور سے گزر رہے ہیں اور ہر سطح پر عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر (مقبوضہ) کے عوام کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت غربت اور افلاس کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جب کہ حق کی آواز طاقت کے بل بوتے پر دبائی جا رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔