فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری عوام کی مشکلات برقرار
سپریم کورٹ نے دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ اور متعلقہ ماتحت ایجنسیوں سے جواب طلب کرلیا
SYDNEY:
فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جب کہ حکومت بھی اب تک اس دھرنے کے خاتمے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری ہے لیکن حکومت اور دھرنا قیادت کے مابین ڈیڈلاک تاحال برقرار ہے۔ دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کی سڑکوں پر ٹریفک کا شدید دباؤ ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں لیکن تمام ہی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔
منگل کے روز دھرنے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہونے پر فیض آباد ،شمس آباد اور عنایت بازار کے تاجر سراپا احتجاج بن کر مری روڈ پر نکل آئے، گلے میں روٹیاں ڈالے تاجروں کا مطالبہ تھا کہ دھرنا فیض آباد فلائی اوور پر ہے جبکہ مری روڈ پر فیض آباد ،شمس آباد اور دیگر مقامات پر ہیوی کینٹینر رکھ کر راستے بند کردیے گئے ہیں میٹروبس سروس کو بلاوجہ معطل کردیاگیاہے جس سے ان کے کاروبار بری طرح متاثر ہوچکے ہیں اوران کا معاشی قتل کیا جارہا ہے۔ اگر چوبیس گھنٹوں میں کنٹینر ہٹا کر متبادل راستے نہ کھولے گئے تو تاجر دھرنا دے کر ڈبل روڈ بند کردیں گے کیونکہ ہمارا معاشی قتل تو ویسے ہی کردیا گیا ہے اب احتجاج کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان مذاکرات کا ایک دور ناکام
ممتاز عالم دین پیر حسین الدین شاہ نے فیض آباد فلائی اوورپر تحریک لبیک کے 14 روز سے جاری دھرنے کے خاتمے کے لیے مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی سنبھالنے کے لیے وفاقی حکومت کی درخواست مکمل اختیارات دینے کی شرط کے ساتھ منظور کرلی ہے۔ پیرحسین الدین شاہ کو مذاکراتی کمیٹی کی قیادت سنبھالنے کی سرکاری طور پرباضابط درخواست منگل کے روز ڈائریکٹر جنرل وزارت مذہبی امور نورسلام نے راولپنڈی میں ملاقات کے دوران دی اس ملاقات میں دھرنے کے شرکاءکے مطالبات کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق پیرحسین الدین شاہ کی جانب سے مذاکرتی کمیٹی کی سربراہی مکمل اختیارات کے ساتھ دینے اور اختیارات کے بغیر مذاکرات کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا موقف اپنانے پر ڈائریکٹر جنرل وزارت مذہبی امور ان کا پیغام لے کر واپس اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ دریں اثناء یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پیر حسین الدین شاہ آج ایک ماہ کے تبلیغی دورے پر ساوتھ افریقہ روانہ ہورہے ہیں۔
تمام صورت حال میں گولڑہ شریف کے پیر نظام الدین جامی نے تحریک لبیک پاکستان کے پیر افضل قادری کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راجہ ظفرالحق رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ موجودہ حالات میں وزیر قانون زاہد حامد کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے ریاست انہیں تحفظ دے جبکہ وہ اپنے عقیدے کی دوبارہ وضاحت کریں، انہوں نے مولانا خادم حسین رضوی سے غیر اخلاقی گفتگو کے حوالے سے بات کی ہے آئندہ دھرنا کے اسٹیج سے غیر اخلاقی گفتگو کرنے والے سے مائیک لے لیا جائے گا۔
پیر نظام الدین جامی کا کہنا تھاکہ اس ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو ناموس رسالت کے خلاف ہو ،قادیانیت اور مرزائیت کے پس پشت جو قوتیں ہیں وہ سرگرم عمل ہیں، یہ کوئی سیاسی دھرنا نہیں بلکہ یہ ایک مذہبی دھرنا ہے اور ان کے شرکاءختم نبوت کے جزبے سے سرشار ہیں ،اگر حکومت کسی آپریشن کا ارادہ رکھتی ہو تو میں ان کو نتبیہ کرتا ہوں، اگر ایسا ہوا تو پوری اہل سنت والجماعت میدان میں ہوگی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں فیض آباد دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ اور ان کے ماتحت ایجنسیوں سے جواب طلب کرلیاہے ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل، اسلام آباد اور پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرلز ،آئی جی اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وزارت داخلہ و دفاع کے سیکرٹریز بتائیں کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں ہو رہی ہے؟ اور اب تک لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کیا اقدامات کیے گئے۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ کون سا اسلام ہے جو کہتا ہے کہ راستے بند کر دیں۔ کون سا اسلام اس قسم کی زبان استعمال کرنے کا کہتا ہے جو وہاں ہو رہی ہے، کون سا مذہب یا شریعت راستے بند کر کے لوگوں کیلئے تکلیف دینے کی اجازت دیتا ہے، آرٹیکل 14 آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے لیکن دھرنے کے باعث آرٹیکل 14، 15 اور 19 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جب کہ حکومت بھی اب تک اس دھرنے کے خاتمے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری ہے لیکن حکومت اور دھرنا قیادت کے مابین ڈیڈلاک تاحال برقرار ہے۔ دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کی سڑکوں پر ٹریفک کا شدید دباؤ ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں لیکن تمام ہی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔
منگل کے روز دھرنے کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہونے پر فیض آباد ،شمس آباد اور عنایت بازار کے تاجر سراپا احتجاج بن کر مری روڈ پر نکل آئے، گلے میں روٹیاں ڈالے تاجروں کا مطالبہ تھا کہ دھرنا فیض آباد فلائی اوور پر ہے جبکہ مری روڈ پر فیض آباد ،شمس آباد اور دیگر مقامات پر ہیوی کینٹینر رکھ کر راستے بند کردیے گئے ہیں میٹروبس سروس کو بلاوجہ معطل کردیاگیاہے جس سے ان کے کاروبار بری طرح متاثر ہوچکے ہیں اوران کا معاشی قتل کیا جارہا ہے۔ اگر چوبیس گھنٹوں میں کنٹینر ہٹا کر متبادل راستے نہ کھولے گئے تو تاجر دھرنا دے کر ڈبل روڈ بند کردیں گے کیونکہ ہمارا معاشی قتل تو ویسے ہی کردیا گیا ہے اب احتجاج کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان مذاکرات کا ایک دور ناکام
ممتاز عالم دین پیر حسین الدین شاہ نے فیض آباد فلائی اوورپر تحریک لبیک کے 14 روز سے جاری دھرنے کے خاتمے کے لیے مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی سنبھالنے کے لیے وفاقی حکومت کی درخواست مکمل اختیارات دینے کی شرط کے ساتھ منظور کرلی ہے۔ پیرحسین الدین شاہ کو مذاکراتی کمیٹی کی قیادت سنبھالنے کی سرکاری طور پرباضابط درخواست منگل کے روز ڈائریکٹر جنرل وزارت مذہبی امور نورسلام نے راولپنڈی میں ملاقات کے دوران دی اس ملاقات میں دھرنے کے شرکاءکے مطالبات کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق پیرحسین الدین شاہ کی جانب سے مذاکرتی کمیٹی کی سربراہی مکمل اختیارات کے ساتھ دینے اور اختیارات کے بغیر مذاکرات کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا موقف اپنانے پر ڈائریکٹر جنرل وزارت مذہبی امور ان کا پیغام لے کر واپس اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ دریں اثناء یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پیر حسین الدین شاہ آج ایک ماہ کے تبلیغی دورے پر ساوتھ افریقہ روانہ ہورہے ہیں۔
تمام صورت حال میں گولڑہ شریف کے پیر نظام الدین جامی نے تحریک لبیک پاکستان کے پیر افضل قادری کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راجہ ظفرالحق رپورٹ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ موجودہ حالات میں وزیر قانون زاہد حامد کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے ریاست انہیں تحفظ دے جبکہ وہ اپنے عقیدے کی دوبارہ وضاحت کریں، انہوں نے مولانا خادم حسین رضوی سے غیر اخلاقی گفتگو کے حوالے سے بات کی ہے آئندہ دھرنا کے اسٹیج سے غیر اخلاقی گفتگو کرنے والے سے مائیک لے لیا جائے گا۔
پیر نظام الدین جامی کا کہنا تھاکہ اس ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو ناموس رسالت کے خلاف ہو ،قادیانیت اور مرزائیت کے پس پشت جو قوتیں ہیں وہ سرگرم عمل ہیں، یہ کوئی سیاسی دھرنا نہیں بلکہ یہ ایک مذہبی دھرنا ہے اور ان کے شرکاءختم نبوت کے جزبے سے سرشار ہیں ،اگر حکومت کسی آپریشن کا ارادہ رکھتی ہو تو میں ان کو نتبیہ کرتا ہوں، اگر ایسا ہوا تو پوری اہل سنت والجماعت میدان میں ہوگی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں فیض آباد دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ اور ان کے ماتحت ایجنسیوں سے جواب طلب کرلیاہے ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل، اسلام آباد اور پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرلز ،آئی جی اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وزارت داخلہ و دفاع کے سیکرٹریز بتائیں کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں ہو رہی ہے؟ اور اب تک لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کیا اقدامات کیے گئے۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ کون سا اسلام ہے جو کہتا ہے کہ راستے بند کر دیں۔ کون سا اسلام اس قسم کی زبان استعمال کرنے کا کہتا ہے جو وہاں ہو رہی ہے، کون سا مذہب یا شریعت راستے بند کر کے لوگوں کیلئے تکلیف دینے کی اجازت دیتا ہے، آرٹیکل 14 آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دیتا ہے لیکن دھرنے کے باعث آرٹیکل 14، 15 اور 19 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔