الیکشن مہم اور عوامی سیاسی جماعتیں

عوام میں سیاسی بصیرت عام کیے بغیر نہ انتخابات شفاف کہلائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی قوم کو حقیقی قیادت میسر آسکتی ہے


اعزاز کیانی November 24, 2017
صرف باقاعدگی سے انتخابات کا انعقاد ہی بہتر جمہوریت کا ضامن نہیں۔ (فوٹو: فائل)

PESHAWAR:
الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے (اقبالؒ)

الیکشن کا انعقاد جمہوری نظام میں ایک اہم جزو ہے۔ جمہوری نظام میں انتخابات ہی منتقلی اقتدار کا واحد طریقہ ہے۔ پاکستان میں الیکشن کے قریب آتے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے موجودہ اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہ الیکشن سے پہلے کی رسمی کارروائی ہوتی ہے جو قرب انتخابات کا پتا دیتی ہے۔ لیکن اگر یہ رسمی کارروائی نہ بھی کی جائے تو ملک کا مجموعی ماحول اور سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیاں اس قدر عروج پر پہنچ جاتی ہیں کہ کسی عام آدمی کےلیے بھی الیکشن سے بے خبر رہنا قطعی ممکن نہیں رہتا۔

چنانچہ یہاں انتخابی مہم سے متعلق تین بنیادی سوال پیدا ہوتے ہیں: اول یہ کہ موجودہ انتخابی مہم قابل اعتراض کیوں ہے؟ دوسرا سوال جو پہلے سوال کے ساتھ جڑا ہوا ہے، یہ ہے کہ الیکشن مہم سے دراصل مراد کیا ہے؟ اور سوم یہ کہ الیکشن مہم انتخابات پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے؟ ذیل میں انہی تینوں سوالات کو زیر بحث لایا جائے گا۔

پاکستان میں الیکشن کے قریب آتے ہی بڑے پیمانے پر عوامی رابطہ مہم شروع کی جاتی ہے جسے اصطلاحاً ''الیکشن مہم'' کہا جاتا ہے۔ شہر شہر اور نگر نگر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے جلسے جلوسوں اور عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے، ملک کے طول و عرض کے دورے کیے جاتے ہیں، عوامی نمائندگی، عوامی حقوق، عوامی خدمت اور عوامی مسائل کے حل کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، مخالف سیاسی جماعتوں پر دل کھول کر تنقید کی جاتی ہے بلکہ الزام تراشی کی جاتی ہے، خود کو ملک کا واحد نجات دہندہ قرار دیا جاتا ہے، ملک کی ترقی و خوشحالی کو فقط اپنی کامیابی سے منسوب کیا جاتا ہے اور خود کو عوام کا خادم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ تعمیراتی اور ترقیاتی کام بھی زور و شور سے شروع ہو جاتے ہیں۔ عوام سے رابطے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا؛ شادی بیاہوں، جنازوں اور عوام کی دیگر تقریبات میں کثرت سے شرکت کی جاتی ہے اور یہ انتخابی مہم اس وقت تو اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے جب ''ڈور ٹو ڈور کیمپین'' کے نام پر گلی گلی چھان کر اور گھر گھر جاکر دروازے کھٹکھٹا کر لوگوں سے ووٹ مانگے جاتے ہیں۔

الیکشن مہم کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ساڑھے چار سال تک تو عوام سے غافل رہا جائے اور قربِ الیکشن پر عوامی رابطہ مہم شروع کردی جائے؛ اور نہ عوامی رابطہ مہم کا یہ مطلب ہے کہ عوام کے ساتھ رابطے اور تعلق کو الیکشن کے ساتھ مخصوص کرکے چند ایام میں قید کر دیا جائے۔ بلکہ یہ طرزِعمل ایک حقیقی عوامی سیاسی جماعت کے طرزِعمل سے بھی قطعاً مطابقت نہیں رکھتا۔ جمہوری نظام میں الیکشن مہم سے دراصل اگلے انتخابات میں ریاستی معاملات کو چلانے سے متعلق لائحہ عمل یا منشور کی اشاعت مراد ہے۔ یعنی اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کو عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے، اب یہ عوام کا اختیار ہے کہ اگر وہ اس منشور سے متفق ہے تو ووٹ دے گی، بصورت دیگر کسی دوسری جماعت کا انتخاب کرے گی۔

جہاں تک عوامی تعلق کا سوال ہے تو میرے نزدیک جماعت دراصل نام ہی عوام کے منظم اجتماع یا گروہ کا ہے۔ ایک حقیقی عوامی سیاسی جماعت کو عوام سے رابطے کےلیے کسی مقررہ اور متعین وقت یا ٹائم فریم کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمہ تن عوام سے رابطے میں رہتی ہے۔ کارکنوں کی تربیت، اپنے منشور کی تفہیم، عوامی اصلاح، مقامی نمائندوں کی طرف سے تعمیراتی و ترقیاتی کام اور دیگر عوامی و معاشرتی مسائل تو جماعتوں کی سال بھر کی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور حقیقی سیاسی جماعت ایک دن کےلیے بھی اپنی ان ذمے داریوں سے غافل نہیں ہوسکتی۔

اب رہا یہ سوال کہ الیکشن مہم الیکشن پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟ تو اس جواب کے دو مختلف پہلو ہیں۔ اول یہ کہ اگر الیکشن مہم کو اصل مفہوم میں مراد لیاجائے یعنی یہ کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور اور لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کرتی ہے تو یقیناً اس طرح عوام کی رائے میں تبدیلی ممکن ہے جو الیکشن پر پوری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ لیکن یہاں بھی اس بنیادی اعتراض کی گنجائش بہرحال موجود ہے کہ کیا منشور کی تشہیر و تفہیم کو مخصوص ایام کے ساتھ محدود کیا جاسکتا ہے؟

دوم یہ کہ اگر الیکشن مہم سے وہ مراد لی جائے جو ہماری سیاسی جماعتوں کی روایت ہے، جس کا ایک عمومی نقشہ تحریر کے پہلے حصے میں کھینچا گیا ہے، تو یہاں بھی عوامی سیاسی جماعت کی عوامی رابطہ مہم قابل اعتراض ہے اور یہ اعتراض حکومتی جماعتوں کے ضمن میں اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ ایک جماعت جو پورے پانچ سال اقتدار میں رہی ہو، عوامی مسائل کا حل جس کا بنیادی فرض رہا ہو، کیا اس جماعت کو بھی گھر گھر جاکر ووٹ مانگنے کی کوئی ضرورت باقی رہتی ہے؟ ایک ایسی جماعت بھی اگر الیکشن میں گھر گھر جاکر ووٹ مانگتی ہے اور عوام سے وہی پرانے عہد و پیمان دوہراتی ہے تو کیا یہی اس جماعت کی ناکامی اور شکست نہیں؟ پانچ سالہ اقتدار دیکھنے کے بعد بھی کیا عوام کو فیصلے کےلیے کسی دوسری بنیاد کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ کیا ایسی جماعت کی کارکردگی ہی اس جماعت کے متعلق فیصلہ کی واحد بنیاد نہیں؟

پاکستانی عوام سے الیکشن مہم کے دوران آزمائی ہوئی جماعتوں کی طرف سے عارضی طور پر عوامی رابطے قائم کیے جاتے ہیں اور جھوٹی ہمدردیوں کی بنیاد پر ووٹ طلب کیے جاتے ہیں۔ یا پھر الیکشن مہم میں رشتے، خاندان، قبیلے کی بنیاد پر ووٹ طلب کیے جائیں یا افراد کے ووٹ روپے، پیسے، طاقت اور خوف سے خریدے جائیں تو نہ صرف یہ تمام کارگزاری الیکشن مہم کی تعریف میں ہی نہیں آتی بلکہ اگر پاکستانی عوام ان بنیادوں پر ووٹ دیتی ہے تو یہ عوام کی سیاسی بصیرت، ووٹ کی صورت میں عوام کی امانت اور عوام کا طریق انتخاب مشکوک بنانے والا عمل بھی ہے؛ اور طرزِ سیاست پر سوالیہ نشان بھی۔

جب تک عوام میں سیاسی بصیرت کو عام نہیں کیا جاتا اور عوام میں فیصلہ سازی کی قوت بیدار نہیں کی جاتی، تب تک تمام تر قانونی اور انتظامی اقدامات کے باوجود بلکہ فوج کی نگرانی اور بایومیٹرک سسٹم کے ذریعے ہونے والے انتخابات بھی صاف اور شفاف نہیں کہلائے جاسکتے؛ اور اس قوم کو کبھی حقیقی قیادت میسر نہیں آسکتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں