پاکستان اور فائدہ مند تجارت

پاکستان کی جغرافیائی خوش قسمتی ہے کہ ہزاروں سال سے اس سرزمین کے راستے اور درے استعمال ہوتے رہے ہیں

عام طور پر ترقی یافتہ ممالک اور خاص کر چین کی ترقی کا راز تجارت اور خارجہ پالیسی کو الگ الگ رکھنے میں ہے 'وہ اپنے بدترین دشمن کے ساتھ بھی تجارتی تعلق رکھتا ہے اور آج'جاپان سے لے کر یورپ اور امریکا تک دنیا بھر کی منڈیاں چینی اشیاء سے بھری ہوئی ہیں'اسی لیے تو ڈونلڈ ٹرمپ شکایت کرتا ہے کہ چین امریکا کی منڈیوں سے اربوں ڈالر کماتا ہے لیکن ہمارے دشمن شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاربنانے سے منع نہیں کرتا 'اسی طرح ہندوستان بھی چین کے ساتھ دشمنی کے باوجود تجارت کرکے اربوں ڈالر کما رہا ہے۔

اب ذرا پاکستان کی معاشی پالیسیوں کا جائزہ بھی لیتے ہیں'حالانکہ اس ملک کو خدا نے ترقی کرنے کے بہت سے مواقع عطا کیے ہیں' پاکستان کی جغرافیائی خوش قسمتی ہے کہ ہزاروں سال سے'اس سرزمین کے راستے اوردرے' جنوبی ایشیاء اور چین سے یورپ و سینٹرل ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارتی راستوں کی حیثیت سے استعمال ہوتے رہے ہیں'پشاور کا قصہ خوانی بازاراور قدیم شاہراہ ریشم اس دور کی یادگار ہیں' آج پھر ایک موقعہ ہے کہ ہم اس راستے کو استعمال کرکے اپنی معاشی اور سیاسی و سماجی حالات بہتر کر سکتے ہیں'اس روٹ کے کھلنے سے خاص کر ڈیورنڈ لائن کے آرپار پختونوں کو بے شمارفوائد حاصل ہوں گے ۔

اس شاہراہ کو استعمال میں لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری خارجہ پالیسی ہے 'اگر ایک طرف ہم چین کو گوادر کے راستے دنیا تک رسائی دے رہے ہیں'اور اس طرح شمال سے جنوب کے راستے سے فائدہ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں تو اسی طرح مغرب سے مشرق تک کے راستے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے'لیکن دوسری طرف انڈیا اور افغانستان کو راہداری کی سہولت نہ دے کر اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ مغرب سے مشرق جانے والی شاہراہ کو نہ کھولنے سے پاکستان کی مستقبل میں اہمیت صفر ہوجائے گی' اس کی سب سے بڑی مثال نیا بھارتی منصوبہ ہے 'اس منصوبے کے تحت بھارت 'ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو وسطی ایشیاء میں داخلے کا ذریعہ بنانے کے انتظامات کر رہا ہے۔

عالمی بینک کے مطابق اس خطے کے ملکوں کے اندر' جہاں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے' جنوبی ایشیاء کی کل تجارت کا حجم صرف 5فی صد ہے 'اس کے مقابلے میں ASEAN(جنوبی ایشیاء کے ممالک کی تنظیم )کے ممبر ممالک کے درمیان کل تجارت کا حجم 25فی صد ہے 'یہ کوئی عجیب امر نہیں ہے۔پاکستان 'افغانستان کو اپنی برآمدات پاکستان کے راستے لے جانے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن ہندوستان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ تجارت کے لیے پاکستان کی سر زمین استعما ل کرے 'کابل کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی ہندوستان کو برآمدات میں 227فی صد اضافہ ہوا ہے لیکن ہندوستان سے افغانستان آنے والی درآمدات میں صرف 47فی صد اضافہ ہوا ہے ۔


ہندوستان سے افغانستان کو د رآمدات پر رکاوٹوں کا مطلب ہے کہ افغانستان سے براستہ واگہ سامان لانے والے ٹرکوں کو سرحد سے واپس خالی آناہوگا'ہندوستان کو پاکستان کے راستے اپنا سامان افغانستان لے جانے پر پابندی ہے 'ہندوستان کے تاجروں کو افغانستان تک سامان پہنچانے پر زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں' اسی طرح اس پابندی کی وجہ سے افغانستان کو ہندوستان کا ارزاں مال مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔ان پابندیوں کی وجہ سے افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات بڑھتے ہیں۔پاکستان کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے جواب میں'افغانستان اور ہندوستان نے ہوائی راستہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے 'اس کے علاوہ ہندوستان نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے گندم کی پہلی کھیپ افغانستان بھیج دی 'یہ متبادل راستے مستقبل میں ایران 'افغانستان اورہندوستان میں تعلقات بہتر کرنے میںمعاون ثابت ہوں گے۔

اگر پاکستان انڈیا کو واہگہ کے راستے افغانستان اور سینٹرل ایشیا تک راستہ نہیں دے گا تو خطرہ ہے کہ پاکستان بھی CPECکے راستے سینٹرل ایشیاء تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گا'افغانستان کے صدر اشرف غنی نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ اگر پاکستان ہمارے ملک کو ہندوستان تک خشکی کے راستے رسائی نہیں دے گا تو افغانستان بھی پاکستان کو CPEC کے راستے سے سینٹرل ایشیاء تک رسائی نہیں دے گا اور نہ ہی افغانستان CPECکا حصہ بنے گا' جب تک دونوں ملکوں میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوجاتا'پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے اربوں ڈالر کے رقم سے محروم رہے گا' جو CPEC کی قرضوں کی واپسی کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اگر پاکستان افغانستان کے مطالبے کو پوراکرنے میں ناکام ہوا' خاص طور پر اس وقت جب اربوں روپے کا سامان سینٹرل ایشیاء اور افغانستان کو چاہ بہار کے راستے جانا شروع ہو گا'اس بات کا امکان ہے کہ چین اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے اقدام کرے گا۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ چین پاکستان کا بہترین دوست ہے اور وہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کرے گا 'وہ اپنے بدترین دشمن کے ساتھ بھی تجارتی تعلق رکھتا ہے اور آج جاپان سے لے کر یورپ اور امریکا تک دنیا بھر کی منڈیاں چینی اشیاء سے بھری ہوئی ہیں'آج بھی ہندوستان چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے 'دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 70ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔اس موسم گرما میں دونوں ملکوں کے سرحدی علاقے ڈوکلام میں فوجی تنازعہ شروع ہوا اور دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے آگئیں 'یہ سارے تجارتی راستے پاکستان سے ہوکر گزرتے ہیںجس سے ٹرانزٹ کے مد میں پاکستان کو بڑی آمدنی ہوگی 'ورنہ دوسرا متبادل ایران ہے۔

ہمارے راستوں کو استعمال کرکے 'بھارت کے فائدے ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہوں گے اگر اسے یہ فائدے حاصل کرنے کی سہولت مل جائے 'تو وہ کسی بھی طرح کی کشیدگی پیدا ہونے سے قبل اسے ختم کرنے کی طرف توجہ دے گا اور ایسی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کرے گا'جس میں وہ بڑے فوائد سے محروم ہوجائے 'شمال مغرب میں تجارتی رسائی کے دیگر ذرایع پیدا کرنے سے ہم بھارت کو زیادہ عرصے تک نہیں روک سکیں گے ایک دوسرے کو سہولتیں پہنچانے کی ہماری طاقت 'ہمیشہ باقی نہیں رہ سکتی' ویسے بھارت ہمارے لیے شجر ممنوعہ بھی نہیں ہے' تاپی (TAPI)کی گیس پائپ لائن بھی توتاجکستان سے افغانستان اور پاکستان سے گزر کر وہاں جائے گی'کشمیر سمیت دیگر تنازعات جنگ اور جہاد سے تو حل نہیں ہوسکے'اب امن اور تجارت کی حکمت عملی شاید کارآمد ثابت ہو۔
Load Next Story