غریبوں کو سزا امیروں کو جزا

اس تفریق کو اگر ہم سمجھ لیں تو پھر اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات کی توقع نہ رکھیں۔


Zuber Rehman November 22, 2017
[email protected]

سرمایہ دارانہ نظام میں لوگوں کو بیروزگار رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے کہ سرمایہ داروں کو سستا مزدور ملتا رہے۔ اگر سستی مزدوری ملے گی تو منافع کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ چونکہ بیروزگار رکھنا سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر ضرورت ہے، اس لیے جب بیروزگاری بڑھ جاتی ہے تو لوگ بیگانگی ذات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چوری، ڈاکا، سٹریٹ کرائمز، عصمت فروشی، گداگری، منشیات نوشی، خودکشی، دہشتگرد اور خودکش بمبار بن جاتے ہیں۔ یہ تمام برائیاں سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہیں۔

جب بیروزگار لوگ یہ سارے غلط کام کرتے ہیں تو انھیں گرفتار کرکے سزا دی جاتی ہے اور جیل بھیج دیا جاتا ہے اور جب جیل سے رہائی ملتی ہے تو ان پر برائی کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ درست راہ پر چلنا بھی چاہیں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سماج انھیں نہیں چلنے دیتا۔ جب کہ کروڑوں، اربوں روپے خوردبرد کرنے والے اعلیٰ افسران، وزرا، جرنیل، جج صاحبان، یعنی سماج کے وہ ہر اعلیٰ درجات اور صاحب جائیداد طبقات کے لوگ اگر اربوں روپے ہڑپ کرجائیں تو انھیں جیل نہیں بھیجا جاتا، بلکہ ملازمت سے برطرف، عہدے سے خارج، ڈی گریڈ یا عدالت میں دو منٹ کھڑے رہنے کی حد تک سزا دی جاتی ہے۔ یہ سرمایہ داری کا اصول ہے اور یہ اصول صرف پاکستان میں نہیں، دنیا بھر میں رائج ہے، خواہ وہ جاپان ہو، چین ہو، امریکا ہو یا یورپ۔

حالیہ پیراڈائز لیکس نے برطانیہ کی ملکہ، شہزادہ چارلس، کینیڈا کے تین وزرائے اعظم، امریکا کے موجودہ وزیر خارجہ، اداکار امیتابھ بچن، میڈونا اور پھر سعودی عرب کے اعلیٰ شاہی خاندان کے عہدیداروں سمیت 600 افراد کے راز فاش کیے ہیں، متعدد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پاناما لیکس میں برطانیہ اور آئس لینڈ کے وزرائے اعظم اور ایسے سیکڑوں لوگ شامل ہیں جن میں سے کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ جو چالاک ہیں وہ عوام سے معافی مانگ لیتے ہیں۔

آئیے حالیہ پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں کو دیکھتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے مقدمات کا ریکارڈ احتساب عدالت سے غائب ہوگیا۔ یہ کیسے، کیوں اور کس نے کیا، اس کا پتہ نہیں چلے گا۔ سپریم کورٹ نے پلی بارگیننگ کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی سے روکا ہے۔ 25 لاکھ روپے سے کم رقم کی کرپشن والے افسران کے حق میں سپریم کورٹ کا حکم امتناع موجود ہے۔ کرپشن کی رقم رضاکارانہ واپس کرنے والے 483 افسران کی فہرست پیش کردی گئی۔ چیف سیکریٹری نے بتایا کہ سیکریٹریز کو کرپٹ افسران کو عہدوں سے ہٹا کر سرٹیفکیٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ ان کرپٹ افسران کا تعلق محکمہ خزانہ، پولیس، تعلیم، صحت، خوراک، سماجی بہبود، جنگلات و جنگلی حیات سے ہے۔

اس کے علاوہ محکمہ زراعت، سپلائی اینڈ پرائز، پبلک ہیلتھ، انجینئرنگ، ایس ایل جی اے اور محکمہ بلدیات کے کرپٹ افسر بھی نکالے جائیں گے۔ ایک اور خبر سندھ ہائی کورٹ کی ہے، جس نے دفاعی اداروں کا ایندھن، اوپن مارکیٹ میں فروخت کرکے 2 ارب 37 کروڑ روپے کی کرپشن کے مقدمے کے ملزم ذیشان کریمی کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔ آئیے اب دوسری طرف دیکھتے ہیں۔ سانگھڑ کے محکمہ آب پاشی ایل بی اور ڈی کے 2600 ملازمین کو 20 سال کے بعد بھی مستقل نہیں کیا گیا۔ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے سانگھڑ پریس کلب کے سامنے انھوں نے مظاہرہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ20 سال سے عارضی طور پر کام کرنے والے 2600 سے زائد ملازمین کو تاحال مستقل نہیں کیا۔

ان میں سانگھڑ، نواب شاہ، بدین اور میرپورخاص کے عارضی ملازمین شامل ہیں۔ ایک طرف انھیں مستقل نہیں کیا جارہا ہے اور دوسری طرف انھیں تنخواہیں بھی نہیں دی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے مزدوروں کے گھروں میںفاقہ کشی ہورہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود انھیں مستقل نہیں کیا جارہا ہے، اور سیکریٹری آب پاشی سندھ سمری پر دستخط نہیں کررہا ہے۔ ادھر اسلام آباد قائداعظم یونیورسٹی کے مظلوم طلبا کے مطالبات ماننے کے بجائے وی سی نے دو طلبا رہنما ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری نوروز خان بلوچ اور صدام حسین بلوچ، جو متا ثرین میں سے تھے، انھیں یونیورسٹی سے خارج کیا گیا۔ جس کے ردعمل میں طلبا کو تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنی پڑی، آخرکار ان دونوں طالب علم رہنماؤں کو بحال کرنا پڑا۔

اس تفریق کو اگر ہم سمجھ لیں تو پھر اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات کی توقع نہ رکھیں۔ جتنا وقت گزرتا جارہا ہے دولت مند زیادہ بڑے دولت مند ہوتے جارہے ہیں اور غریب، غریب تر ہورہا ہے۔ اسی لیے عظیم انارکسٹ رہنما ایما گولڈمان نے کہا کہ ''انتخابات سے اگر عوام کے مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگا چکے ہوتے''۔ عرب ناکام بہار انقلاب کا نتیجہ دیکھ لیں۔ مصر کے حسنی مبارک اور تیونس کے زین العابدین آزاد پھر رہے ہیں، لیکن قدافی اور صدام حسین کو شہید کردیا گیا۔ لیبیا اور عراق، عرب ممالک میں بادشاہت کا خاتمہ کرکے عوام کو زبردست سہولتیں فراہم کیں، کوئی بے روز تھا اور نہ کوئی ناخواندہ، معیار زندگی قابل مثال تھی، لیکن آج عراق اور لیبیا صدیوں پیچھے چلے گئے ہیں۔

جب فرانس میں 1789ء میں انقلاب آیا تو وہ بے رحمانہ انقلاب تھا، جس کی وجہ سے بادشاہ لوئس کو پناہ نہ ملی، بیلجیم بھاگتے ہوئے پکڑا گیا اور اس کا سر قلم کرکے عوام نیزے پر شہر بھر میں اچھالتے رہے، اور آج تک آمریت یا بادشاہت واپس نہیں آئی۔ سعودی بادشاہت کو لے لیں، وہاں کوئی جمہوری آزادی کی اجازت نہیں۔ حالیہ بغاوت کو چھپایا گیا اور اپنے ہی خاندان کے اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کرلیا گیا، مگر ان سب کو فائیو اسٹار ہوٹل کو جیل کی حیثیت دے کر رکھا گیا ہے۔ اگر کوئی مزدور چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔

شاہی خاندان کی لڑکی سے اگر کوئی کیمرہ مین عشق کرتا ہے تو اس کا سر قلم ہوجاتا ہے لیکن لڑکی کا کچھ نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ شاہی خاندان کی ہے۔ انڈونیشیا میں زنا کے الزام میں ایک غریب لڑکی کو سرعام کوڑے مارے گئے جب کہ جنرل سوہارتو اور اس کی بیٹی پر اسکینڈل کی بھرمار تھی، ان کا کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں لڑکیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، آج تک کسی کو عمر قید کی سزا نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی ملا نے اس کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔ اسی کو کہتے ہیں طبقاتی نظام۔ ''تم کرو تو پن، ہم کریں تو پاپ''۔ ان مسائل کا واحد حل کمیونسٹ انقلاب ہے، جہاں طبقات، ملکیت، خاندان اور سرحدوں کا خاتمہ ہوکر نسل انسانی کا محبت بھرا، خوشحال معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں