منوں کے صوفی بیر
منوں نابینا بھی تھا اور اسے قدم قدم پر بیوی کے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔
50ء کے عشرے میں، جب ہم گورنمنٹ پرائمری اسکول ٹنڈو غلام علی میں پڑھتے تھے، مین گیٹ کے سامنے ایک بڑا سا کھیل کا میدان ہوا کرتا تھا، جہاں لڑکے گلی ڈنڈا کھیلتے تھے،اس کے دوسرے سرے پر امام بارگاہ اور قبرستان تھے جہاں شہرکی حدود ختم ہوجاتی تھیں۔ وہیں بھڈے (خشک قدرتی نالے) کے اس پار بلندی پر سوائی پیرکا مزار تھا اور نیچے حد نگاہ تک کھییت لہلہا رہے ہوتے تھے۔
قبرستان میں جنازہ گاہ کی چاردیواری سے متصل حاجی کریم بخش اورہمارے خاندان کے مرحومین کی قبریں تھیں۔ میری چھوٹی امی، ایک کزن اور بھانجی بھی وہیں آسودہ خاک ہیں۔ وہاں سے چند قدم دور بیری کا ایک درخت ہوا کرتا تھا جس کے بڑی سائزکے لمبوترے بیر میٹھے اور انتہائی لذیذ ہوتے تھے جنھیں وہاں صوفی بیرکہتے تھے۔ بیری کا یہ درخت امام بارگاہ میں نارکے پاس لگے کبیٹ نام کے پھل کے ایک درخت کی طرح قبرستان ہی نہیں شہر بھر میں اپنی نوعیت کا واحد درخت تھا اور منوں نام کے شخص کی ملکیت تھا۔ اسکول کے عقب میں قاضی قادر بخش میمن کا بنگلہ اوراس سے متصل ان کا گھر تھا جس کے دروازے کے عین سامنے کنواں تھا اور اس کے بالکل ساتھ ببول کے سوکھے کانٹوں کی باڑھ کے اندر منوں کی جھونپڑی تھی جس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔
دونوں میاں بیوی عمر رسیدہ تو تھے ہی، منوں نابینا بھی تھا اور اسے قدم قدم پر بیوی کے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔ بیچاری روز صبح سویرے پہلے شوہرکو قبرستان میں بیری کے اس درخت تک چھوڑنے جاتی، واپس آکرگھرکا کام کاج کرتی اور پھر خالی ٹوکری لے کر دوبارہ قبرستان پہنچتی جہاں منوں درخت کو ٹیک لگائے بیٹھا اس کا انتظارکر رہا ہوتا، ایک لمبی سی لاٹھی اس کے ہاتھ میں ہوتی جسے وہ ذرا سی آہٹ پاکر یا کسی چیز کے گرنے کی آواز سن کر اپنے ارد گرد گھماتا اور زور زور سے کہتا ''اب کیسے بچوگے، میں تمہارا ہی تو انتظار کر رہا تھا۔''
یہ اس کا اپنے درخت اور اس کے بیروں کی حفاظت و نگرانی کرنے کا طریقہ تھا۔ اس کی بیوی بھی آتی تو لاٹھی کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے دور ہی سے صدا لگاتی کہ لاٹھی رکھ دو، میں آگئی ہوں۔ پھر ہوا سے چھن کر گرے ہوئے پکے بیر چن کر ٹوکری میں بھرتی، تب تک منوں بھی اس کی لائی ہوئی روٹی لسی کے ساتھ کھا کر فارغ ہو چکا ہوتا، کچھ دیر دونوں بیٹھ کر اِدھر اْدھر کی باتیں کرتے اور پھر دھوپ تیز ہونے سے پہلے اپنی کٹیا میں واپس آجاتے۔ ٹوکری میں بمشکل سیر سوا سیر بیر ہوتے جو ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھے۔
اسکول کے جو بچے روز مونگ کی مصالحہ دار چٹپٹی دال کے ساتھ پاروکے لائے ہوئے پاپڑکھاکراکتا چکے ہوتے، وہ رسیس میں بیر لینے منوں کے ہاں چلے جاتے، اس کی بیوی ایک آنے کے چار بیر دیتی تھی جو ایک سیب کے برابر ہوتے، یوں دیکھتے ہی دیکھتے ان کے سارے بیر بک جاتے اور جو ایک ڈیڑھ روپیہ آمدنی ہوتی اس سے ان کی دال روٹی چلتی تھی۔ قبرستان جانا، بیر چن کر لانا اور وہ بیچ کر گزارا کرنا، یہ گویا ان کا روز کا معمول تھا۔ بھائی جان (سعید جان قریشی مرحوم، اللہ ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے) اور میں بہت تھوڑا عرصہ اس اسکول میں ساتھ پڑھے تھے کہ جب میرا داخلہ ہوا، وہ پرائمری تعلیم کا اپنا آخری چوتھا درجہ مکمل کررہے تھے۔
ہم دونوں کے پاس آج کل جیسے اسکول بیگس کے بجائے کپڑے کے گھر میں سلے ہوئے تھیلی نما بستے ہوتے تھے۔ سبزیاں اگانے اور بیچنے والے مالہیوں کا ایک لڑکا کھیموں بھی بھائی جان کے ساتھ پڑھتا تھا۔ ان کا گھر اسکول کی مشرقی سمت امام بارگاہ سے شہر کی طرف جانے والے راستے میں ایک ٹیلے پر تھا اور اس کا دادا جس کا نام ڈائلو تھا، شہر کا جانا پہچانا آدمی تھا، اس کی ٹیڑھی ٹانگیں ہی اس کی پہچان تھیں۔ کھیموں بڑا ہوکر پہلے کمپاؤنڈر بنا پھر اس نے اپنا میڈیکل اسٹورکھول لیا، عملی زندگی میں بھی اس کی بھائی جان کے ساتھ گاڑھی چھنتی تھی، ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں کا رسیا تھا، مجھے بھی یہ لت اسی منوں نے ڈالی تھی، لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے جب بھائی جان ٹنڈو غلام علی چھوڑکر پشاور میں جا بسے تھے، ہم دونوں کو قریب لانے والے منشی اللہ دتہ صاحب تھے جو سؤ سالہ بزرگ ہونے کے باوجود ہم دونوں کے مشترکہ دوست تھے۔
جب کبھی بھائی جان کا صوفی بیر کھانے کو جی چاہتا وہ کھیمے کو اعتماد میں لے کر پروگرام بناتے اور شام کو اسکول کی چھٹی ہوتے ہی اس پر عملدرآمد کرتے۔ مجھے کچھ بتانے کی ضرورت اس لیے نہیں سمجھتے تھے کہ ایک تو میں چھوٹا اور ان کے ساتھ آنے جانے کا پابند تھا، دوسرے میں ان سے ڈرتا بھی بہت تھا کہ بڑی بے رحمی سے مارتے تھے۔
اسکول سے نکل کر ہم اپنی کتابیں وغیرہ ایک بستے میں ڈال کر دوسرا خالی کرتے اور پھر کھیمے کو ساتھ لے کر قبرستان کی طرف چل پڑتے۔ منوں کی بیری کے پاس پہنچ کرکھیموں شلوار اوپر چڑھاکر قمیص اس کے اندر اڑستا اور بندر کی طرح تیزی سے درخت پر چڑھ جاتا، بھائی جان اسے نیچے سے بتاتے کہ پکے ہوئے بیرکس ٹہنی پر ہیں اور وہ جاکر اسے ہلاتا تو بڑی تعداد میں بیر نیچے گرتے، بھائی جان اور میں چن چن کر پکے بیر خالی بستے میں بھرتے، بھر جاتا تو بھائی جان کھیمے کو نیچے آنے کا کہتے، وہ جس تیزی سے درخت پر چڑھتا اسی تیزی سے اترنا بھی جانتا تھا، نیچے آکر پہلے اپنے کپڑے درست کرتا اور پھر اپنے حصے کے بیر مانگتا جس پر اس کا بھائی جان سے اکثر پھڈا ہوتا تھا۔ وہ کہتا آدھے بیر مجھے دو اور آدھے تم رکھو کہ دونوں بھائی ہی تو ہو جب کہ بھائی جان کہتے بیروں کے تین برابر برابر حصے ہوں گے، جب کھیما اس تقسیم پر بھی مان جاتا تو بھائی جان کہتے پہلے قبلہ رخ کھڑے ہوکر کہو کہ ہم نے یہ جو منوں کے بیر چرائے ہیں اس کا سارا گناہ میں اپنے سر لیتا ہوں، پھر بیر ملیں گے۔
دلچسپ بات کہ غیر مسلم ہونے کے باوجود اسے قبلہ رخ ہوکر حلف لینے پر اعتراض ہوتا، وہ کہتا ہم تینوں نے ملکر چوری کی ہے لہذا گناہ کے بھی تین حصے ہوں گے اور وہ صرف اپنے حصے کا گناہ قبول کرے گا، بھائی جان کہتے تو پھر جاؤ، ایک بیر بھی نہیں ملے گا۔ کافی بحث وتکرار کے بعد بالآخر وہ مان جاتا اور سارا گناہ اپنے سر لے کر جھولی بھر بیروں پر راضی ہوجاتا اور جھگڑا ختم کرکے ہنسی خوشی گھرکی راہ لیتا۔ اْدھر بھائی جان بھی مطمئن ہوجاتے کہ کھیمے کے اعترافِ گناہ کے بعد اب ہم دونوں گنہگار نہیں رہے۔
لہذا گھر پہنچ کر سب بہن بھائی ملکر مزے سے چوری کیے ہوئے بیرکھاتے۔ بڑی آپا کے پوچھنے پر کہ بیر کہاں سے آئے، جب میں انھیں سب کچھ سچ سچ بتا دیتا، بھائی جان کو ڈانٹ پڑتی تو وہ مجھ ہی سے گواہی دلواتے کہ سارا گناہ کھیما اپنے سر لے چکا ہے لہذا فکر کرنے اور پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ پھر یوں ہوا کہ منوں کو کسی نے بتا دیا کہ ہم تینوں اس کے بیر چراتے ہیں، ایک روز جب ہم اسکول جانے سے پہلے ابا سے خرچی لینے دکان پر پہنچے تو منوں اور اس کی بیوی کو پہلے سے وہاں بیٹھا پایا، ابھی ہم حیران ہی ہو رہے تھے کہ ڈائلو مالہی بھی کھیمے کو کان سے پکڑے آ دھمکا، اپنے دادا کا اشارہ پاکر کھیمے نے سب کچھ سچ سچ اگل دیا۔ پھر ہم تینوں کی جو درگت بنی وہ ناقابل بیان ہے، گناہ کے حوالے سے بھائی جان کا فلسفہ سن کر ابا نے انھیں سزا کے اضافی نمبر بھی دیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد ہمیں منوں کے بیر کھانا کبھی نصیب نہیں ہوئے۔