اگلے انتخابات کا نتیجہ
قوم اگلے انتخابات کے نتیجے کو اگر پڑھنا چاہے تو ابھی سے پڑھ سکتی ہے۔
ہمارے بہت سے بڑے بڑے سیاستدان فوجی آمریت ہی کی نرسری میں پرورش پاکر جواںہوئے ہیں۔ اِس کے لیے انھیں طعنہ زنی کا نشانہ بنانا غیر مناسب ہے۔ جس ملک میں ستر سال میں سے تیس پینتیس سال غیر جمہوری حکمرانوں کی مطلق العنانی کی نذر ہوچکے ہوں اورجہاں جمہوری حکمرانوں کو آزادی سے کام کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو وہاں سیاستدانوں کی نئی کھیپ ایسے ہی غیر جمہوری آمروں کے دور میں پیداہوا کرتی ہے۔
غیر جمہوری حکمرانوں کو ہمارے ہاں ویسے بھی دس دس سال کی بلا روک ٹوک حکومت ملا کرتی ہے اور وہ اپنے غیر قانونی اور غیر دستوری دور حکومت کو قانونی تحفظ دینے کے لیے جہاں عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں تو دوسری جانب ٹیکنوکریٹس اور غیر سیاسی ماہرین کی مدد سے اپنی حکومت کو دوام بخشتے ہیں۔
اِسی طرح وہ کچھ نئے سیاستدانوں کو بھی جنم دیتے ہیں اور انھیں پال پوس کے بڑا کرتے ہیں۔ جب ہم بھٹو اور میاں نواز شریف کو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ اِنہی آمرانہ دور حکومت کی پیداوار ہیں تو یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کو مکمل آزادی کے ساتھ حکمرانی کے لیے ایک طویل عرصہ ملا اور اِس طویل عرصے میں انھوں نے کچھ نئے ذہین لوگ بھی متعار ف کروائے۔ یہ اور بات ہے کہ اُن میں سے کچھ لوگ اپنی قابلیت اور اہلیت کی وجہ سے عوام میں زیادہ مقبول اور مشہور ہوگئے۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی قیادت خود بخود ابھر کر سامنے آجاتی ہے، ورنہ دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔
عوام نئی قیادت کی قابلیت اور صلاحیتوں کی بدولت اُسے دل وجان سے قبول کرلیتے ہیں۔ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف دونوں کے معاملوں میں ایسا ہی ہوتے دیکھا ہے۔ دیکھا جائے کہ پاکستان کی ستر سالہ سیاسی دور میں نصف حصہ چار آمروں نے گزار دیا جب کہ باقی کا نصف عرصہ چودہ پندرہ منتخب جمہوری وزرائے اعظم کے حصے میں آیا۔اِن منتخب وزرائے اعظم میں سے شاید ہی کسی ایک کو اپنے قانونی اورآئینی پانچ سال سکون اطمینان سے گزارنے سے ملے ہوں ورنہ سارے قبل از وقت ہی فارغ کردیے گئے۔ غیر جمہوری حکمراں تو دس دس سال بڑے اطمینان سے گزارلیتے ہیں لیکن جمہوری حکمرانوں کو اُن کا قانونی اور دستوری حق بھی نہیں دیا جاتا۔ نادیدہ قوتوں کے ساتھ ساتھ ہماری عدلیہ بھی اُن کی راہ میںمشکلیں اور رکاوٹیں پیداکرتی رہتی ہے اور تو اور اُن کے اپنے پیٹی بھائی دوسرے سیاستداں بھی انھیں سکھ اور چین سے حکمرانی کرنے نہیں دیتے۔
میاں نوا ز شریف اِس لحاظ سے شاید کچھ زیادہ ہی بد نصیب واقع ہوئے ہیں کہ انھیں تین بار حکمرانی کا موقع توضرور ملا مگر تینوں بار قبل از وقت اپنے منصب سے معزول کردیے گئے۔126دن کا دھرنا کوئی عام حالات کی سیاست کا بموجب یا شاخسانہ نہیں تھا۔یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے اورمکمل اسکرپٹ کے تحت ترتیب دیاگیا تھا۔الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا ایشو تو محض اک بہانہ تھا۔دھاندلی کا ایشو اگر واقعی درست ہوتا تو اِس میں علامہ طاہرالقادر ی کہاں سے آگئے۔اُن کی پارٹی پاکستان عوامی تحریک نے تو 2013ء کے الیکشن میں اول تو حصہ لیا ہی نہیں تھا اوراگر لیا بھی تھا تو محض خانہ پری کی خاطر ۔ اُن کی سیاسی پوزیشن کا انھیں خود پہلے ہی سے پتہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ سارے ملک سے ایک سیٹ بھی لینے کے قابل نہیں ہیں۔ بے شک اُن کے چاہنے والے اور انھیں ماننے والے اِس سارے ملک میں بہت سے ہونگے لیکن اِس ملک کاکوئی حلقہ ایسا نہیں ہے جسے وہ اپنا حلقہ انتخاب کہہ سکیں۔
یہ بات اب ثابت شدہ ہے کہ دھرنے کی ساری مشق اورمشقت ایک سازش کاحصہ تھی۔ جس طرح آج مسلم لیگ (ن) کے بہت سے ارکان اسمبلی کو توڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں اور اس مقصد کے لیے انھیں نامعلوم لوگوں کی جانب سے خفیہ فون کالز بھی آرہی ہیں، اُسی طرح اُس زمانے میں بہت سے سیاستدانوں کو پی ٹی آئی جوائن کرنے کا حکم بھی دیاجارہا تھا اور وہ دھڑادھڑ خان صاحب کی پارٹی میں شامل ہو رہے تھے۔عمران خان اگر بہت ہی قابل اور ہوشیار سیاستداں تھے تو اُن کی یہ قابلیت اور ہشیاری اُن پندرہ سالوں میں کیوں ابھر کر سامنے نہ آپائی جب وہ 1994ء سے سیاسی میدان میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔
وہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن عوام نے انھیں کوئی اہمیت نہ دی۔ یہ اچانک اُن میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگ گئے کہ وہ خود کواِس ملک کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی کا سربراہ سمجھنے لگ گئے۔ہمارے ملک میں یہ سب کچھ ایک عرصے سے ہوتا چلا آیا ہے۔ سیاست میں پس چلمن بیٹھے لوگوں کاکردار اب کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں رہا۔ اسٹیبلشمنٹ خواہ کتنا ہی انکار کرے لیکن جب وہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ اُسے کراچی میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے کسی ممکنا تصادم کی فکر لاحق ہے اوروہ انھیں اُس سے بچانے کی راہیں تلاش کرنا چاہتی ہے تو پھر اُسے سارے ملک کی فکرکیوں کر لاحق نہ ہوگی۔
آج اِس ملک میں جوکچھ ہورہا ہے اُس کے تانے بانے اور ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جارہی ہیں۔ 1990ء میں آئی جے آئی کی سرپرستی بھی اب مشہور زمانہ اصغر خان کیس میں عدالت کے روبرو طشت ازبام ہوچکی ہے۔وہ مقدمہ ابھی تک کیوں زیرالتواء ہے حالانکہ میاں صاحب کو ایک اور شکنجے میں کسنے کے لیے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی طرح یہ مقدمہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ لہذا ہماری سپریم کورٹ کو اُسے بھی منطقی انجام تک پہنچانے کا حکم صادر کردینا چاہیے، لیکن وہاںمیاں صاحب اوردوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ کسی ایسے فریق کی ساکھ بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے جس پر بات کرتے معزز منصف حضرات کے پر جلتے ہیں۔ نادیدہ قوتوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے علاوہ اور بھی بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں ۔
انھیں اب یہ فکر بھی یقینا لاحق ہوگی کہ اگلے انتخابات کے نتیجے میں کون سے پارٹی برسراقتدار آئے گی۔کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلم لیگ (ن)ایک بار پھر حکومت بنانے کے قابل ہوجائے اور اُن کے لیے کوئی مشکل کھڑی کردے۔ اِس کے لیے ابھی سے کچھ ایسی تدابیراختیار کرنا ہوگی کہ وہ اِس قابل ہی نہ رہے کہ 2018ء میں تنہا حکومت بنا سکے۔ دیکھا جائے تواِس اہم مشن پر ابھی سے کام شروع ہوچکا ہے اورارکان اسمبلی کو آنے والی فون کالزکا مقصد بھی کچھ ایسے ہی عزائم اورارادوںکو تقویت پہنچانا ہے، اگر یہ مرحلہ مکمل ہوگیا تو پھر مخلوط حکومت اور معلق پارلیمنٹ بنانے کی راہ میں ساری رکاوٹیں خود بخود دور ہوجائیں گی۔
مختلف گروہوں اور پارٹیوں پر مشتمل حکومت مصالحت اورمفاہمت کے زریں اصولوں پرعمل پیراہوا کرتی ہے اور ایسی حکومت کو قابو کرنا بہت آسان ہوا کرتا ہے۔ قوم اگلے انتخابات کے نتیجے کو اگر پڑھنا چاہے تو ابھی سے پڑھ سکتی ہے۔ اداروں کی موجودہ روش اور حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا اب کوئی مشکل اور دشوارنہیں رہا کہ اگلی حکومت کس کی ہوگی اور کیسی ہوگی، اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ،پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی تینوں میں سے کوئی ایک پارٹی اکیلے حکومت بنالے گی تو وہ شایدابھی تک خوابوں کی دنیا میں رہ رہا ہے۔ اُس نے یا تواپنے اداروں کی چالوں کو ابھی تک صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں ہے تو یا پھر وہ دانستہ یاقصداً اُس سے صرف نظرکیے ہوئے ہے۔