خبردار عوام دیکھ رہے ہیں
اب دنیا انٹرنیٹ کی بدولت اسمارٹ فون کی صورت میں ہر فرد کی جیب میں پڑی ہے۔
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ دنیا کس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ سیکڑوں سال بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا بیسویں صدی کے اختتام تک گلوبل ولیج میں ڈھل چکی تھی۔ آج ربع صدی سے پہلے ہی انٹرنیٹ کی بدولت گلوبل ولیج کا پاکٹ ایڈیشن اسمارٹ فون ہر فرد کی جیب میں پڑا ہے۔ 70 سال پہلے آج کی تازہ خبر تین دن بعد چھپتی تھی۔ ماضی قریب میں 9/11 کی دہشتگردی کی واردات میں سپر پاور امریکا میں ٹریڈ ٹاور کو منزل بہ منزل منہدم ہوتا ہوا CNN پر لائیو (Live) ساری دنیا نے دیکھا۔ اس کے باوجود آج بھی پاکستان دنیا کا واحد ملک بچ گیا ہے جہاں فرسودہ جاگیرداری نظام، قبائلی روایات اورمعاشرتی توہمات رائج ہیں جو تعلیم ، تبدیلی اور ترقی کے ازلی دشمن ہوتے ہیں۔
پچاس کی دہائی تھی ایوب خان کی جرنیلی جمہوریت کا دور تھا، صنعتی پہیہ چل رہا تھا، روزگار کی فکر نہیں تھی۔ بے شک عوام صبح بھوکے اٹھتے تھے لیکن ناشتہ کرکے ہی کام پر جاتے تھے۔ چائے پاپے کا ہی سہی۔ بھوکے سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ جگہ جگہ اللہ کی رحمت کے محمدیؐ ہوٹل کھلے ہوئے تھے جہاں تندور کی روٹی کے ساتھ دال فری ملتی تھی۔ قیمتوں میں استحکام تھا، ایک روپے کا چار سیر آٹا، دو سیر چاول، ایک سیر چینی ملتی تھی۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
برسوں بعد چینی کی قیمت میں ایک سیر پر چار آنے کا اضافہ ہوا، ملک میں بھونچال آگیا۔ کمر توڑ مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئے۔ فضا ایوب خان مردہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی۔ کیونکہ شب برأت کا حلوہ پھیکا پڑگیا تھا۔ اسی دوران ایک دن ایوب خان کے پوتے اسکول سے واپس آئے۔ وین سے اتر کر گھر میں ایوب خان مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے۔ ان کو کیا معلوم کے باہر جس ایوب خان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے وہ ان کے دادا ہیں۔ ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔ ایوب خان اور اس کے دور میں ہونے والے بعض اقدامات اختلافات سر آنکھوں پر مگر گڈ گورننس، معاشی خوشحالی اور کنٹرولڈ کرپشن کے تعلق سے اس کا دور مثالی تھا۔ اور عوام بھی بیدار اور متحرک تھے کیونکہ پیٹ بھرے تھے مردہ باد کا نعرہ لگاتے تو ایوانوں میں ہل چل مچ جاتی تھی۔ آج خالی پیٹ مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو سسکیاں نکلتی ہیں۔
70 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے جاری جمہوریت پر ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔ جو جمہوری تسلسل کی وجہ سے کامیاب جمہوریت کہلاتی ہے۔ ایک کامیاب دور پی پی پی کا گزر چکا ہے دوسرا دور مسلم لیگ (ن) کا اختتام کے قریب ہے۔ عوام کتنے خوشحال، جمہوریت کتنی مضبوط، قانون کی کتنی حکمرانی قائم ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے پہلے کامیاب جمہوری دور کے چند عقل گم، ہوش ٹن اور حواس ساقط کردینے والے واقعات ملاحظہ کیجیے۔
1۔ سندھ کے ایک وزیرکے گھر سے دو ارب روپے برآمد ہوئے۔ غور کیجیے جس وزیر کے گھر میں دو ارب روپے پڑے رہتے ہوں اس کی قومی بینکوں میں کتنی رقم ہوگی؟ سوئس بینکوں کا کیا حال ہوگا؟ جب ایک وزیر کا یہ حال ہے وزیر اعلیٰ کا کیا احوال ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔
2۔ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں بلدیاتی نظام کے بے تحاشا ترقیاتی فنڈز کو سڑکوں، پلوں، اسپتالوں، اسکولوں کی تعمیر جیسے غیر ترقیاتی کاموں میں ضایع ہونے سے بچانے کے لیے جمہوری دور میں بلدیاتی انتخابات کرائے ہی نہیں جاتے، لیکن فنڈز برابر وصول کرلیے جاتے ہیں۔ 700 ارب روپے کا بجٹ بنا 30 ارب روپے کراچی وحیدرآباد کے ترقیاتی کاموں کے لیے کراچی کے ناظم مصطفیٰ کمال کو دیے گئے۔ باقی 630 ارب روپے اندرون سندھ خرچ ہوئے۔ نہ ایک فٹ سڑک بنی نہ کسی برساتی نالے پر پلیا۔ 630 ارب روپے کا آج تک پتہ نہیں چلا۔
3۔ کامیاب جمہوری دور کے صوبائی اسمبلی کے آخری اجلاس میں تمام ارکان اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ کارکردگی سے خوش ہوکر 60 فیصد تک اپنی تنخواہوں میں دو سال پچھلی تاریخ سے اضافہ کرلیا اور دوسرے دن وصول بھی کرلیا۔
فوجی آپریشن ''ضرب عضب'' اور ''ردالفساد'' سے پہلے کراچی میں امن و امان کی یہ صورتحال تھی کہ پولیس کی بکتر بند گاڑی گشت کرتی تھی اور بھتہ خور، ٹارگٹ کلر وغیرہ کھلے بندوں موٹرسائیکل پر مٹرگشت کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔
کامیاب جمہوریت کے دوسرے مسلم لیگی دور حکومت پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں دیے گئے ریمارکس پر کہ شریف فیملی نے سلسلین مافیا کا روپ دھار لیا تھا گویا ایک طرف دریا کو کوزے میں بند کردیا تو دوسری طرف مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ لیکن یہ کہے بغیر رہا بھی نہیں جاسکتا کہ منظم جرائم کے نیٹ ورک کو چلانے والی امریکا کی مافیا فیملیز نے امریکا کو صرف بے تحاشا دولت کے بل بوتے پر یرغمال بنالیا تھا جس کو چاہتے لفافہ ازم کے ذریعے خرید لیتے جو انکار کرتا ٹارگٹ کلر کے ذریعے اس کا نشریاتی رابطہ ہی منقطع کردیتے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی حکمران مافیا دولت کی طاقت سے ارباب اختیار کو خرید لیتی ہے انکار کی صورت میں ریاستی طاقت سے ان کو کچل دیتی ہے اور جب بھی اپنی کارکردگی سے خوش ہوتی ہے تو اپنی تنخواہوں اور مراعات میں 70-60 فیصد اضافے کا بل پرانی تاریخ سے متفقہ طور پاس کروا کے بقایا جات بھی وصول کرلیتی ہے۔
اب دنیا انٹرنیٹ کی بدولت اسمارٹ فون کی صورت میں ہر فرد کی جیب میں پڑی ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت اب جلسوں جلوسوں کی پہلی جیسی اہمیت نہیں رہی۔ اس وقت عوام ذہنی طور پر سڑکوں پر آچکے ہیں، جس کے اشارے اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک لندن کی سڑکوں پر، امارات کی ایئرلائن میں، ''گو نواز گو'' کے نعروں سے ملتے ہیں۔ جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ ہوچکا۔ اب میاں صاحب کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ضایع ہونے سے بچائیں۔ حالات کا قانون کے مطابق مقابلہ کریں۔ اداروں سے ٹکراؤ سے پرہیز کریں ورنہ آپ اکیلے رہ جائیں گے۔
پچاس کی دہائی تھی ایوب خان کی جرنیلی جمہوریت کا دور تھا، صنعتی پہیہ چل رہا تھا، روزگار کی فکر نہیں تھی۔ بے شک عوام صبح بھوکے اٹھتے تھے لیکن ناشتہ کرکے ہی کام پر جاتے تھے۔ چائے پاپے کا ہی سہی۔ بھوکے سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ جگہ جگہ اللہ کی رحمت کے محمدیؐ ہوٹل کھلے ہوئے تھے جہاں تندور کی روٹی کے ساتھ دال فری ملتی تھی۔ قیمتوں میں استحکام تھا، ایک روپے کا چار سیر آٹا، دو سیر چاول، ایک سیر چینی ملتی تھی۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
برسوں بعد چینی کی قیمت میں ایک سیر پر چار آنے کا اضافہ ہوا، ملک میں بھونچال آگیا۔ کمر توڑ مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئے۔ فضا ایوب خان مردہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی۔ کیونکہ شب برأت کا حلوہ پھیکا پڑگیا تھا۔ اسی دوران ایک دن ایوب خان کے پوتے اسکول سے واپس آئے۔ وین سے اتر کر گھر میں ایوب خان مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے۔ ان کو کیا معلوم کے باہر جس ایوب خان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے وہ ان کے دادا ہیں۔ ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔ ایوب خان اور اس کے دور میں ہونے والے بعض اقدامات اختلافات سر آنکھوں پر مگر گڈ گورننس، معاشی خوشحالی اور کنٹرولڈ کرپشن کے تعلق سے اس کا دور مثالی تھا۔ اور عوام بھی بیدار اور متحرک تھے کیونکہ پیٹ بھرے تھے مردہ باد کا نعرہ لگاتے تو ایوانوں میں ہل چل مچ جاتی تھی۔ آج خالی پیٹ مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو سسکیاں نکلتی ہیں۔
70 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے جاری جمہوریت پر ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔ جو جمہوری تسلسل کی وجہ سے کامیاب جمہوریت کہلاتی ہے۔ ایک کامیاب دور پی پی پی کا گزر چکا ہے دوسرا دور مسلم لیگ (ن) کا اختتام کے قریب ہے۔ عوام کتنے خوشحال، جمہوریت کتنی مضبوط، قانون کی کتنی حکمرانی قائم ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے پہلے کامیاب جمہوری دور کے چند عقل گم، ہوش ٹن اور حواس ساقط کردینے والے واقعات ملاحظہ کیجیے۔
1۔ سندھ کے ایک وزیرکے گھر سے دو ارب روپے برآمد ہوئے۔ غور کیجیے جس وزیر کے گھر میں دو ارب روپے پڑے رہتے ہوں اس کی قومی بینکوں میں کتنی رقم ہوگی؟ سوئس بینکوں کا کیا حال ہوگا؟ جب ایک وزیر کا یہ حال ہے وزیر اعلیٰ کا کیا احوال ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔
2۔ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں بلدیاتی نظام کے بے تحاشا ترقیاتی فنڈز کو سڑکوں، پلوں، اسپتالوں، اسکولوں کی تعمیر جیسے غیر ترقیاتی کاموں میں ضایع ہونے سے بچانے کے لیے جمہوری دور میں بلدیاتی انتخابات کرائے ہی نہیں جاتے، لیکن فنڈز برابر وصول کرلیے جاتے ہیں۔ 700 ارب روپے کا بجٹ بنا 30 ارب روپے کراچی وحیدرآباد کے ترقیاتی کاموں کے لیے کراچی کے ناظم مصطفیٰ کمال کو دیے گئے۔ باقی 630 ارب روپے اندرون سندھ خرچ ہوئے۔ نہ ایک فٹ سڑک بنی نہ کسی برساتی نالے پر پلیا۔ 630 ارب روپے کا آج تک پتہ نہیں چلا۔
3۔ کامیاب جمہوری دور کے صوبائی اسمبلی کے آخری اجلاس میں تمام ارکان اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ کارکردگی سے خوش ہوکر 60 فیصد تک اپنی تنخواہوں میں دو سال پچھلی تاریخ سے اضافہ کرلیا اور دوسرے دن وصول بھی کرلیا۔
فوجی آپریشن ''ضرب عضب'' اور ''ردالفساد'' سے پہلے کراچی میں امن و امان کی یہ صورتحال تھی کہ پولیس کی بکتر بند گاڑی گشت کرتی تھی اور بھتہ خور، ٹارگٹ کلر وغیرہ کھلے بندوں موٹرسائیکل پر مٹرگشت کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔
کامیاب جمہوریت کے دوسرے مسلم لیگی دور حکومت پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں دیے گئے ریمارکس پر کہ شریف فیملی نے سلسلین مافیا کا روپ دھار لیا تھا گویا ایک طرف دریا کو کوزے میں بند کردیا تو دوسری طرف مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ لیکن یہ کہے بغیر رہا بھی نہیں جاسکتا کہ منظم جرائم کے نیٹ ورک کو چلانے والی امریکا کی مافیا فیملیز نے امریکا کو صرف بے تحاشا دولت کے بل بوتے پر یرغمال بنالیا تھا جس کو چاہتے لفافہ ازم کے ذریعے خرید لیتے جو انکار کرتا ٹارگٹ کلر کے ذریعے اس کا نشریاتی رابطہ ہی منقطع کردیتے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی حکمران مافیا دولت کی طاقت سے ارباب اختیار کو خرید لیتی ہے انکار کی صورت میں ریاستی طاقت سے ان کو کچل دیتی ہے اور جب بھی اپنی کارکردگی سے خوش ہوتی ہے تو اپنی تنخواہوں اور مراعات میں 70-60 فیصد اضافے کا بل پرانی تاریخ سے متفقہ طور پاس کروا کے بقایا جات بھی وصول کرلیتی ہے۔
اب دنیا انٹرنیٹ کی بدولت اسمارٹ فون کی صورت میں ہر فرد کی جیب میں پڑی ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت اب جلسوں جلوسوں کی پہلی جیسی اہمیت نہیں رہی۔ اس وقت عوام ذہنی طور پر سڑکوں پر آچکے ہیں، جس کے اشارے اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک لندن کی سڑکوں پر، امارات کی ایئرلائن میں، ''گو نواز گو'' کے نعروں سے ملتے ہیں۔ جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ ہوچکا۔ اب میاں صاحب کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ضایع ہونے سے بچائیں۔ حالات کا قانون کے مطابق مقابلہ کریں۔ اداروں سے ٹکراؤ سے پرہیز کریں ورنہ آپ اکیلے رہ جائیں گے۔