جمہوری اقدار کی پاسداری بقا کی ضامن
مسائل کے حل کے لیے جمہوری ادارے موجود ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز کو قانونی راہیں اختیار کرنی چاہئیں
KARACHI:
قومی اسمبلی میں نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر پابندی کا بل کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا، اس رائے شماری میں 98 ووٹ بل کے حق میں آئے اور 163 اراکین نے اس بل کی مخالفت کی۔
جمہوری دور اقتدار میں یہ عمل قابل تحسین ہوتا ہے کہ تمام قسم کے قانونی و عوامی مسائل پارلیمان میں پیش کیے جائیں اور عوامی نمایندوں کی اکثریتی آرا پر ان کا حل نکالا جائے۔
سڑکوں اور دھرنوں کی سیاست سے ہٹ کر حقیقی جمہوری اقدام پارلیمان میں قانون سازی کا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں قومی اسمبلی میں مذکورہ بل پر مباحثے سے قبل ہی اراکین کی رائے شماری قابل تحسین ہے جسے حریف پارٹیوں کو بھی قبول کرنا چاہیے۔ الیکشن ترمیمی بل ایوان میں زیر غور لانے کی تحریک پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے پیش کی، نوید قمر نے کہا کہ اس قانون کے تحت ایسا فرد جو اس ایوان کا رکن نہیں بن سکتا وہ کسی پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا ہے،ظاہر ہے یہ بل نواز شریف کے پارٹی سربراہ رہنے کے معاملہ سے متعلق تھا، اگر یہ بل آج یہاں سے مسترد ہوتا ہے تو ہم اسے جوائنٹ سیشن میں بھی لے جاسکتے ہیں، وہاں پر بھی حکومت کو اپنی عددی برتری ثابت کرنا ہوگی، جب کہ بل کی مخالفت میں وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کا فیصلہ سیاسی جماعت کا کارکن کرے گا۔
نفرت یا تعصب کے تحت ایسے قوانین نہ بنائیں جو جمہوریت کمزور کردیں، جمہوریت کی جنگ ہم نے ہی نہیں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بھی لڑی۔ قومی اسمبلی کے مذکورہ سیشن کی خاص بات اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد میں حاضری تھی جو کہ اس بات کا مظہر ہے کہ اراکین اسمبلی اپنی ذمے داریوں کا سنجیدگی سے ادراک کررہے ہیں، ایوان میں ارکان کی موجودگی ایوان کا وقار بلند کرتی ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ دیگر معاملات میں بھی اسمبلی میں اسی طرح کورم پورا ہوا کرے گا تاکہ دیگر عوامی معاملات کو بھی خوش اسلوبی سے نمٹایا جاسکے۔ ملک میں جمہوریت کے خلاف قوتیں بہت طاقتور ہیں لیکن ملک میں جمہوریت ہونی چاہیے۔ جمہوری دور حکومت کا حسن ہی اختلاف رائے اور حریف کی آرا تحمل سے سننے میں ہے، پارلیمان میں موجود ارکان پورے ملک کے عوام کی نمایندگی کرتے ہیں، پاکستان کی سیاست میں عوامی و قانونی مسائل کو پارلیمان سے ہٹ کر سڑکوں پر پیش کرنے کی روایت کا چلن عام ہے جس کا اب خاتمہ ہونا چاہیے، مسائل کے حل کے لیے جمہوری ادارے موجود ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز کو قانونی راہیں اختیار کرنی چاہئیں۔ ملک و جمہوریت کی بقا جمہوری اقدار کی پاسداری میں ہی مضمر ہے۔
قومی اسمبلی میں نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر پابندی کا بل کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا، اس رائے شماری میں 98 ووٹ بل کے حق میں آئے اور 163 اراکین نے اس بل کی مخالفت کی۔
جمہوری دور اقتدار میں یہ عمل قابل تحسین ہوتا ہے کہ تمام قسم کے قانونی و عوامی مسائل پارلیمان میں پیش کیے جائیں اور عوامی نمایندوں کی اکثریتی آرا پر ان کا حل نکالا جائے۔
سڑکوں اور دھرنوں کی سیاست سے ہٹ کر حقیقی جمہوری اقدام پارلیمان میں قانون سازی کا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں قومی اسمبلی میں مذکورہ بل پر مباحثے سے قبل ہی اراکین کی رائے شماری قابل تحسین ہے جسے حریف پارٹیوں کو بھی قبول کرنا چاہیے۔ الیکشن ترمیمی بل ایوان میں زیر غور لانے کی تحریک پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے پیش کی، نوید قمر نے کہا کہ اس قانون کے تحت ایسا فرد جو اس ایوان کا رکن نہیں بن سکتا وہ کسی پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا ہے،ظاہر ہے یہ بل نواز شریف کے پارٹی سربراہ رہنے کے معاملہ سے متعلق تھا، اگر یہ بل آج یہاں سے مسترد ہوتا ہے تو ہم اسے جوائنٹ سیشن میں بھی لے جاسکتے ہیں، وہاں پر بھی حکومت کو اپنی عددی برتری ثابت کرنا ہوگی، جب کہ بل کی مخالفت میں وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کا فیصلہ سیاسی جماعت کا کارکن کرے گا۔
نفرت یا تعصب کے تحت ایسے قوانین نہ بنائیں جو جمہوریت کمزور کردیں، جمہوریت کی جنگ ہم نے ہی نہیں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بھی لڑی۔ قومی اسمبلی کے مذکورہ سیشن کی خاص بات اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد میں حاضری تھی جو کہ اس بات کا مظہر ہے کہ اراکین اسمبلی اپنی ذمے داریوں کا سنجیدگی سے ادراک کررہے ہیں، ایوان میں ارکان کی موجودگی ایوان کا وقار بلند کرتی ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ دیگر معاملات میں بھی اسمبلی میں اسی طرح کورم پورا ہوا کرے گا تاکہ دیگر عوامی معاملات کو بھی خوش اسلوبی سے نمٹایا جاسکے۔ ملک میں جمہوریت کے خلاف قوتیں بہت طاقتور ہیں لیکن ملک میں جمہوریت ہونی چاہیے۔ جمہوری دور حکومت کا حسن ہی اختلاف رائے اور حریف کی آرا تحمل سے سننے میں ہے، پارلیمان میں موجود ارکان پورے ملک کے عوام کی نمایندگی کرتے ہیں، پاکستان کی سیاست میں عوامی و قانونی مسائل کو پارلیمان سے ہٹ کر سڑکوں پر پیش کرنے کی روایت کا چلن عام ہے جس کا اب خاتمہ ہونا چاہیے، مسائل کے حل کے لیے جمہوری ادارے موجود ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز کو قانونی راہیں اختیار کرنی چاہئیں۔ ملک و جمہوریت کی بقا جمہوری اقدار کی پاسداری میں ہی مضمر ہے۔