یہ چھوٹے الیکشن
مقامی حکومتیں وجود میں آچکیں لیکن ابھی تک اس طرح فعال نہیں ہیں جس طرح ہم نے انہیں سابقہ ادوار میں دیکھا ہے
مقامی حکومتوں کے انتہائی نچلی سطح کے انتخابات کو بھی ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان انتخابات کے نتیجہ میں حسب توقع ابھی تک منتخب نمایندوں کو اختیارات کا معاملہ باقی ہے، اگر کسی حد تک صوبائی حکومت نے ان نمایندوں کو اختیارات دیئے بھی ہیں تو ان سے یہ نمایندے مطمئن نہیں اور آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں۔
بلدیا تی الیکشن کے وقت تو قومی سطح کی پارٹیاں اور حکمران پارٹی اپنے حکمرانوں سمیت ان انتخابات میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہی اور سر تا پا ان میں غرق بھی ہو گئی حالانکہ بات صرف اتنی سی تھی کہ مقامی سطح پر گلی محلے اور گاؤں گاؤں عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ان کے درمیان موجود لوگوں سے ہی مدد لی جائے اور یہ لوگ حکومت کے نامز د نہ ہوں بلکہ ان کو الیکشن کے ذریعے منتخب کیا جائے تا کہ ان کی نمایندگی پر کوئی اعتراض نہ کر سکے ۔ الیکشن تو بہت نچلی سطح پر منعقد ہوئے مگر ان میں دلچسپی بہت ہی اونچی سطح تک سامنے آگئی ۔
بہر کیف الیکشن کو ایک مدت گزر گئی ہر کسی نے اس الیکشن میں کی گئی محنت کا صلہ پا لیا، اپنی اوقات سے بڑھ کر ووٹروں کی خاطر مدارت بھی کی اور منت سماجت بھی کی گئی، اپنی پہلے سے کی گئی خدمت کے حوالے بھی دیے اس سب کے بعد جس کی قسمت میں جو کچھ تھا اس کو عوام کی درگا ہ سے مل گیا۔ ایک عمو می بات ہے کہ الیکشن کے وعدے جھوٹے وعدے سمجھے جاتے ہیں مگر عوام جو کہ گونا گوں مسائل کے شکار ہوتے ہیں وہ ان جھوٹے وعدوں پر بھی اعتبار کر لیتے ہیں کہ شاید ان میں سے کوئی وعدہ سچا بھی نکل آئے۔ عوام خود تو بے بس ہوتے ہیں ان کے بس میں اپنے نمایندوں کا انتخاب ہی ہوتا ہے اور پھر ان کے وعدوں کے سچا ہونے کا انتظار ۔ زمانہ بہت بدل گیا ہے عام لوگوں میں بولنے کی جرات پیدا ہو گئی ہے وہ اب اپنے نمایندوں کو الیکشن میں کیے گئے وعدے یاد دلانے سے ہچکچاتے نہیں بلکہ اپنے حق کے لیے زور دار طریقے سے اس بات کی بھی یاد دہانی کراتے ہیں کہ الیکشن تو اور بھی آنے ہیں مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ پہلے وعدے پورے ہوں گے تو بات آگے چلے گی۔
کون جیتا کون ہارا یہ بات اب پرانی ہو چکی ہے مقامی حکومتیں وجود میں آچکی ہیں لیکن ابھی تک اس طرح فعال نہیں ہوسکیں جس طرح ہم ان مقامی حکومتوں کو سابقہ ادوار میں دیکھتے آرہے تھے کہ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر ضلعی حکومتوں میں شمولیت اختیار کی تھی کیونکہ نچلی سطح کی ان حکومتوں میں اختیارات بہت زیادہ ہیں اور اگر عوامی نمایندے چاہیں تو عوام کی صحیح اور اصل خدمت بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔
میں جو کہ بیک وقت ایک دیہاتی اور شہری ہوں اس نظام کا بہت قائل ہوں کہ اس نظام کی نوک پلک سنوار کر جب سابق ڈکٹیٹر مشرف نے اس کو نافذ کیا تھا تو اس کی افادیت جلد ہی سامنے آگئی تھی اور دیہات میں خاص طور پر کافی حد تک ترقیاتی کام ہوئے تھے لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں کو اس نظام سے چڑ تھی اس لیے پہلے تو انھوں نے ہر ممکن کوشش کر کے کئی سال تک نئے نمایندوں کا انتخاب ہی التوا میں رکھا اور جب عدالت نے مجبور کر دیا تو انتخابات تو کرا دیے اور ان میں حکومتی پارٹی نے واضح کامیابی بھی حاصل کر لی لیکن مقامی حکومتیں ایک عرصہ تک تکمیل کے انتظار میں ہی رہیں اور بالآخر جب یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا تو اب ان کو اختیارات اور فنڈز کا معاملہ درپیش ہے جس کی وجہ سے ان کا بنیادی مقصد ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے اور یہ بلدیاتی نمایندے جو کہ سابقہ تجربے کی بنیاد پر عوام سے وعدے کر کے آئے تھے اب منہ چھپاتے پھرتے ہیں کہ ان کی صوبائی حکومتیں ان کو مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کر رہیں جس کی وجہ سے ضلعی حکومتیں غیر فعال ہو چکی ہیں۔
یہ بلدیاتی نمایندے کوئی ایم این اے یا ایم پی اے نہیں ہیں جو کہ عوام سے چھپ کر اسلام آباد یا لاہور بیٹھ جائیں بلکہ یہ تو عوام کے درمیان ہی رہتے ہیں اور ووٹر ان سے زبر دستی کام کراتے ہیں اور وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے کہ کسی کو ٹال ہی سکیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے نمایندوں کے اختیارات کتنے ہیں اور کون سا کام وہ کرا سکتے ہیں۔عوام میں اب یہ شعور موجود ہے وہ اپنے نمایندوں سے کوئی نامناسب مطالبہ نہیں کرتے اور جائز مطالبے سے باز نہیں آتے۔ جس دن ہم اس نظام کی جان ذات برادری سے چھڑا لیں گے اور اس کو اس کی اصل روح کے مطابق چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے اس دن ہماری دنیا ہی بدل جائے گی، مرض کی تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج آسان اور ممکن ہو جاتا ہے، یہ تشخیص ہو چکی ہے صرف اس کا علاج باقی ہے جو کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ہی ہے۔ اب یہ ان کی صوابدید پر ہے کہ وہ اپنے ان منتخب بلدیاتی نمایندوں کو عوامی نمایندگی کا کتنا حق دیتے ہیں ۔
ماضی میں انگریز سرکار تین افسروں سے پورے ضلع کو کنٹرول کرتی تھی جو کہ ضلع کے کل مالک ہوتے تھے ڈی سی، ایس پی اور ایک سیشن جج عوام کے مسائل کو حل کرنے کا ذمے دار ہوتا تھا اور ان تینوں افسروں نے مل کر حکومت کی اور ایسا انصاف دیا جو کہ یاد گار بن گیا مگر ہماری یہ بد قسمتی رہی کہ ہم نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے شروع دن سے ان تین اہم ترین افسروں کو کرپٹ کیا جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں پر عدل و مساوات کا بول بالا ہوتا لیکن ہمارے بااثر حکمرانوں نے اپنی خواہشات کو حکمرانی میں ڈھال دیا جو کہ سرا سر مفادات کی حکمرانی تھی اور ہے لیکن اس میں عوام کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ میرے خیال میں بلدیاتی الیکشنوں والا تکلف ہی کیا گیا ہے جب جمہوریت بڑی شاخوں پر دکھائی نہیں دیتی تو جڑوں میں کیا دکھائی دے گی لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی اونچے لوگ الیکشن ضرور کراتے ہیں تا کہ وہ اپنی سلطنت وسیع کر سکیں۔
بلدیا تی الیکشن کے وقت تو قومی سطح کی پارٹیاں اور حکمران پارٹی اپنے حکمرانوں سمیت ان انتخابات میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہی اور سر تا پا ان میں غرق بھی ہو گئی حالانکہ بات صرف اتنی سی تھی کہ مقامی سطح پر گلی محلے اور گاؤں گاؤں عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ان کے درمیان موجود لوگوں سے ہی مدد لی جائے اور یہ لوگ حکومت کے نامز د نہ ہوں بلکہ ان کو الیکشن کے ذریعے منتخب کیا جائے تا کہ ان کی نمایندگی پر کوئی اعتراض نہ کر سکے ۔ الیکشن تو بہت نچلی سطح پر منعقد ہوئے مگر ان میں دلچسپی بہت ہی اونچی سطح تک سامنے آگئی ۔
بہر کیف الیکشن کو ایک مدت گزر گئی ہر کسی نے اس الیکشن میں کی گئی محنت کا صلہ پا لیا، اپنی اوقات سے بڑھ کر ووٹروں کی خاطر مدارت بھی کی اور منت سماجت بھی کی گئی، اپنی پہلے سے کی گئی خدمت کے حوالے بھی دیے اس سب کے بعد جس کی قسمت میں جو کچھ تھا اس کو عوام کی درگا ہ سے مل گیا۔ ایک عمو می بات ہے کہ الیکشن کے وعدے جھوٹے وعدے سمجھے جاتے ہیں مگر عوام جو کہ گونا گوں مسائل کے شکار ہوتے ہیں وہ ان جھوٹے وعدوں پر بھی اعتبار کر لیتے ہیں کہ شاید ان میں سے کوئی وعدہ سچا بھی نکل آئے۔ عوام خود تو بے بس ہوتے ہیں ان کے بس میں اپنے نمایندوں کا انتخاب ہی ہوتا ہے اور پھر ان کے وعدوں کے سچا ہونے کا انتظار ۔ زمانہ بہت بدل گیا ہے عام لوگوں میں بولنے کی جرات پیدا ہو گئی ہے وہ اب اپنے نمایندوں کو الیکشن میں کیے گئے وعدے یاد دلانے سے ہچکچاتے نہیں بلکہ اپنے حق کے لیے زور دار طریقے سے اس بات کی بھی یاد دہانی کراتے ہیں کہ الیکشن تو اور بھی آنے ہیں مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ پہلے وعدے پورے ہوں گے تو بات آگے چلے گی۔
کون جیتا کون ہارا یہ بات اب پرانی ہو چکی ہے مقامی حکومتیں وجود میں آچکی ہیں لیکن ابھی تک اس طرح فعال نہیں ہوسکیں جس طرح ہم ان مقامی حکومتوں کو سابقہ ادوار میں دیکھتے آرہے تھے کہ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر ضلعی حکومتوں میں شمولیت اختیار کی تھی کیونکہ نچلی سطح کی ان حکومتوں میں اختیارات بہت زیادہ ہیں اور اگر عوامی نمایندے چاہیں تو عوام کی صحیح اور اصل خدمت بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔
میں جو کہ بیک وقت ایک دیہاتی اور شہری ہوں اس نظام کا بہت قائل ہوں کہ اس نظام کی نوک پلک سنوار کر جب سابق ڈکٹیٹر مشرف نے اس کو نافذ کیا تھا تو اس کی افادیت جلد ہی سامنے آگئی تھی اور دیہات میں خاص طور پر کافی حد تک ترقیاتی کام ہوئے تھے لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں کو اس نظام سے چڑ تھی اس لیے پہلے تو انھوں نے ہر ممکن کوشش کر کے کئی سال تک نئے نمایندوں کا انتخاب ہی التوا میں رکھا اور جب عدالت نے مجبور کر دیا تو انتخابات تو کرا دیے اور ان میں حکومتی پارٹی نے واضح کامیابی بھی حاصل کر لی لیکن مقامی حکومتیں ایک عرصہ تک تکمیل کے انتظار میں ہی رہیں اور بالآخر جب یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا تو اب ان کو اختیارات اور فنڈز کا معاملہ درپیش ہے جس کی وجہ سے ان کا بنیادی مقصد ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے اور یہ بلدیاتی نمایندے جو کہ سابقہ تجربے کی بنیاد پر عوام سے وعدے کر کے آئے تھے اب منہ چھپاتے پھرتے ہیں کہ ان کی صوبائی حکومتیں ان کو مطلوبہ فنڈز فراہم نہیں کر رہیں جس کی وجہ سے ضلعی حکومتیں غیر فعال ہو چکی ہیں۔
یہ بلدیاتی نمایندے کوئی ایم این اے یا ایم پی اے نہیں ہیں جو کہ عوام سے چھپ کر اسلام آباد یا لاہور بیٹھ جائیں بلکہ یہ تو عوام کے درمیان ہی رہتے ہیں اور ووٹر ان سے زبر دستی کام کراتے ہیں اور وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے کہ کسی کو ٹال ہی سکیں۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے نمایندوں کے اختیارات کتنے ہیں اور کون سا کام وہ کرا سکتے ہیں۔عوام میں اب یہ شعور موجود ہے وہ اپنے نمایندوں سے کوئی نامناسب مطالبہ نہیں کرتے اور جائز مطالبے سے باز نہیں آتے۔ جس دن ہم اس نظام کی جان ذات برادری سے چھڑا لیں گے اور اس کو اس کی اصل روح کے مطابق چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے اس دن ہماری دنیا ہی بدل جائے گی، مرض کی تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج آسان اور ممکن ہو جاتا ہے، یہ تشخیص ہو چکی ہے صرف اس کا علاج باقی ہے جو کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ہی ہے۔ اب یہ ان کی صوابدید پر ہے کہ وہ اپنے ان منتخب بلدیاتی نمایندوں کو عوامی نمایندگی کا کتنا حق دیتے ہیں ۔
ماضی میں انگریز سرکار تین افسروں سے پورے ضلع کو کنٹرول کرتی تھی جو کہ ضلع کے کل مالک ہوتے تھے ڈی سی، ایس پی اور ایک سیشن جج عوام کے مسائل کو حل کرنے کا ذمے دار ہوتا تھا اور ان تینوں افسروں نے مل کر حکومت کی اور ایسا انصاف دیا جو کہ یاد گار بن گیا مگر ہماری یہ بد قسمتی رہی کہ ہم نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے شروع دن سے ان تین اہم ترین افسروں کو کرپٹ کیا جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں پر عدل و مساوات کا بول بالا ہوتا لیکن ہمارے بااثر حکمرانوں نے اپنی خواہشات کو حکمرانی میں ڈھال دیا جو کہ سرا سر مفادات کی حکمرانی تھی اور ہے لیکن اس میں عوام کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔ میرے خیال میں بلدیاتی الیکشنوں والا تکلف ہی کیا گیا ہے جب جمہوریت بڑی شاخوں پر دکھائی نہیں دیتی تو جڑوں میں کیا دکھائی دے گی لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی اونچے لوگ الیکشن ضرور کراتے ہیں تا کہ وہ اپنی سلطنت وسیع کر سکیں۔