نجم الحسن رضوی
زندگی کا بیشتر حصہ کیمرے کا سامنا کرتے گزرا لیکن اکثر اوقات ان کی موجودگی کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے
زندگی کا بیشتر حصہ کیمرے اور مائیکروفون کا سامنا کرتے گزرا ہے اور اب تو کچھ یوں ہے کہ اکثر اوقات ان کی موجودگی کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔
لیکن چودہ نومبر کی شام اپنی ہی اسٹڈی میں بیٹھے ہوئے میں نے بیٹے علی ذی شان کو دو تین بار کیمرہ بند کرنے کو کہا کیونکہ میری سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ بات کہاں سے اور کیسے شروع کروں کہ مجھے عزیز دوست نجم الحسن رضوی کے لیے ایک ایسا فرمائشی پیغام ریکارڈ کروانا تھا جسے دیکھ اور سن کر اس کی ڈوبتی ہوئی سانسیں بحال ہو جائیں اور اس کی آنکھوں میں وہ چمک اور ہونٹوں پر وہ مسکراہٹ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی لوٹ آئے جو اس کی پہچان تھیں اور موت کا فرشتہ جو ڈاکٹروں کے بقول اب بالکل اس کے سرہانے کھڑا ہے' اسے اس کیفیت میں دیکھ سکے جسے اقبال نے ''چو مرگ آید تبسم برلب اوست'' کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
پس منظر اس سارے واقعے کا یہ تھا کہ اس سے دو دن قبل مجھے واٹس ایپ پر نجم کی بیٹی سطوت رضوی کا پیغام ملا کہ ابو کی حالت بہت بگڑ گئی ہے اور ڈاکٹروں نے ایک طرح سے جواب دے دیا ہے اور سارے فیملی ممبرز نے مل کر یہ پروگرام بنایا ہے کہ نجم کے چند قریبی دوستوں سے درخواست کر کے ویڈیو پر ان کے ایسے مختصر پیغام حاصل کیے جائیں جن میں وہ نجم سے اپنی یادوں اور ملاقاتوں کا تذکرہ اس طرح سے کریں کہ جیسے وہ اس کے سامنے بیٹھ کر اس سے باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اپنے پیاروں کی ان محبت بھری باتوں کو دیکھنے اور سننے سے اس کا آخری وقت جو جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے بہت ہی تکلیف دہ ہے قدرے آسانی سے کٹ جائے گا کہ کینسر کے موذی مرض نے عملی طور پر اب اس کی قوت مدافعت بالکل ختم کر دی ہے، خود مجھے بھی گزشتہ دو برس میں ہونے والی ہر ملاقات میں یہ تکلیف دہ احساس پریشان کرتا رہا تھا کہ شاید میں اسے آخری بار زندہ دیکھ رہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی باتیں اور خیالات اب بھی زندگی اور اعتماد سے بھرپور تھے۔
میں نے سطوت بیٹی سے وعدہ تو کر لیا اور اس کے داماد سے سمجھ بھی لیا کہ اس مونو لاگ کو کس طرح ڈائیلاگ کی شکل دینی ہے۔ عام حالات میں کیمرے کے لینز کو مخاطب کی آنکھ تصور کر کے بات کرنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں لیکن یہ احساس کہ مجھے یہ ڈرامہ ایک ایسے عزیز اور پیارے دوست سے کرنا ہے جو نہ صرف اس وقت ''ہر چند کہیں کہ ہے' نہیں ہے'' کی سی حالت میں ہے بلکہ افسانے اور میڈیا کا ماہر ہونے کے حوالے سے یہ بھی جانتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے۔ میری توقع سے زیادہ پریشان کن نکلا میں اس سے اکثر مختار صدیقی مرحوم کی ریڈیو اسٹوڈیوز کی ریکارڈنگ کے حوالے سے لکھی گئی نظم کے اسلوب اور انداز کی تعریف کیا کرتا تھا جس کا پہلا مصرعہ کچھ یوں ہے کہ
''سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے' بولو''
لیکن اس وقت علی ذی شان کی ''شروع کیجیے'' کی آواز سننے کے باوجود مجھے سے بولا نہیں جا رہا تھا کہ ذہن میں ایک ساتھ بہت سی سرخ بتیاں تیزی سے جل بجھ رہی تھیں۔ موت کسی بھی عمر میں اور کسی بھی وجہ سے ہو برحق اور لازمی تو ہے مگر کینسر کی وہ اسٹیج جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ موجود اور ممکن ہی نہ ہو' اس کی سنگینی اور متعلقہ بے بسی کے تاثر کو اور زیادہ ناقابل برداشت بنا دیتا ہے۔
ایسے میں کینسر اسپتال والے دوست ڈاکٹر شہریار کے بقول ہم صرف اس میں مبتلا شخص کی تکلیف کی شدت کو کم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے، سو یہ کام ہم سب کو ضرور کرنا چاہیے اور نجم مرحوم کے بیوی بچوں نے بھی یہ فرمائش غالباً اسی حوالے سے کی تھی۔ میں نے کوشش کر کے 40برس قبل ہونے والی اس سے پہلی ملاقات کو یاد کیا اور اس کے تب کے زندگی سے بھرپور چہرے اور دلنواز آنکھوں کو سامنے رکھ کر اس سے باتیں شروع کر دیں جو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے چند ہی منٹوں میں اس کے داماد تک پہنچ بھی گئیں اور گمان غالب ہے کہ مرحوم نے بھی ریکارڈنگ دیکھ اور سن لی ہو گی کہ اطلاعات کے مطابق وہ اس سے تقریباً 48گھنٹے بعد تک سانس لیتا رہا تھا۔
نجم الحسن رضوی کا ادبی کیرئیر ستر کی دہائی کے درمیانی حصے میں شروع ہوا اور یوں اس کا دورانیہ گزشتہ چار دہائیوں پر پھیلاہوا ہے۔ اس نے کچھ عرصہ محکمہ اطلاعات پاکستان میں بھی ملازمت کی مگر اس کا زیادہ وقت صحافت کے شعبے میں دبئی کے مشہور انگریزی اخبار ''خلیج ٹائمز'' کے ساتھ گزرا جہاں اس نے مختلف اعلیٰ ادارتی پوزیشنوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ادب اور تہذیب کے حوالے سے بہت عمدہ فیچر بھی لکھے اور کئی اہم شخصیات کے انٹرویو بھی کیے' کئی برس تک دبئی کے مقامی اور مختلف پاکستانی چینلز کے ساتھ بھی فری لانس کے طور پر منسلک رہا اور مختلف پروگراموں کے ذریعے اپنی خداداد اور متنوع صلاحیتوں کا شاندار اظہار کیا، وہ نسبتاً کم گو اور خاموش طبع تھا لیکن اس کی قوت مشاہدہ اور حس مزاح بھی کسی سے کم نہیں تھی۔
اگرچہ صحافیانہ ذمے داریوں کی وجہ سے اس نے انگریزی میں زیادہ اور مسلسل لکھا لیکن اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین اظہار اردو زبان اور فکشن کے میدان میں ہی ہوا۔ جدید اردو افسانے میں اس کا نام محمد منشا یاد' اسد محمد خان اور مظہر الاسلام کے ساتھ پہلی صف کے لکھنے والوں میں آتا ہے جب کہ ناول اور طنز و مزاح کی اصناف میں بھی اس کی کارکردگی مثالی کہی جا سکتی ہے۔
ہم دونوں بیک وقت ایک دوسرے کے دوست' قاری اور مداح بھی تھے جس کا اظہار ہماری کئی تحریروں میں بھی ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے اس کی ایک کہانی ''ہاتھ بیچنے والے'' کے عنوان کو ایک طرح سے ردیف بنا کر نہ صرف ایک طویل غزل لکھی تھی بلکہ اس کے آخری حصے میں قطعہ بند کے طور پر کچھ ایسے اشعار بھی شامل کیے تھے جن کا براہ راست تعلق اس کہانی کے کرداروں' واقعات' ماحول اور تجزیے سے تھا اور اسی سے ملتے جلتے میرے کچھ ڈراموں اور نظموں کے حوالے اس کی تحریروں میں بھی در آئے جو اس بات کے شاہد ہیں کہ زندگی کے کئی معاملات کے ضمن میں ہماری فکر' نظریات اور تجزیے ایک اندرونی ربط رکھتے تھے اور یوں اس کا جانا ادبی دنیا کے ساتھ ساتھ میرے لیے ایک ذاتی صدمے اور نقصان کی حیثیت بھی رکھتا ہے کہ ایسے گُنی اور محبت کرنے والے دوست اور ہم عصر بہت کم ہوتے ہیں جو آپ کے سرمایہ حیات کا مستقل حصہ بن جائیں اور جن پر آپ آنکھیں بند کر کے بھروسہ اور دل کھول کر فخر کر سکیں۔
نجم الحسن رضوی گزشتہ کئی برسوں سے کینسر کے موذی مرض اور اس کے آپریشنز کی متعلقہ تکالیف اور پیچیدگیوں سے نبرد آزما تھا، جسمانی اعتبار سے وہ بھرپور صحت کے دنوں میں بھی دھان پان سا تھا لیکن اس بیماری نے اس کے چہرے اور پورے وجود پر ایک عجیب طرح کی کمزوری اور بے رونقی کا سایا سا ڈال دیا تھا کہ اس کو دیکھ کر ہر بار یہ احساس پہلے سے زیادہ شدید ہو جاتا تھا کہ موت نے اس کی رگوں میں اپنی جگہ مزید پکی کر لی ہے اور یہ تماشا کسی بھی وقت ختم ہو سکتا ہے۔ اس کو میرا ایک شعر بہت پسند تھا کہ ذات کی کم مائیگی اور کائنات کی لامحدود طاقت اور وسعت کا احساس اس کے لیے بھی ایسا ہی دم بخود کر دینے والا تھا سو رب کریم کے حضور اس کے لیے مغفرت کی دعا کے ساتھ سلام وداع کے طور پر اس کو دہرا دیتا ہوں' لو سنو بھائی نجم الحسن رضوی!
اس حرف ''کن'' کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے
لیکن چودہ نومبر کی شام اپنی ہی اسٹڈی میں بیٹھے ہوئے میں نے بیٹے علی ذی شان کو دو تین بار کیمرہ بند کرنے کو کہا کیونکہ میری سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ بات کہاں سے اور کیسے شروع کروں کہ مجھے عزیز دوست نجم الحسن رضوی کے لیے ایک ایسا فرمائشی پیغام ریکارڈ کروانا تھا جسے دیکھ اور سن کر اس کی ڈوبتی ہوئی سانسیں بحال ہو جائیں اور اس کی آنکھوں میں وہ چمک اور ہونٹوں پر وہ مسکراہٹ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی لوٹ آئے جو اس کی پہچان تھیں اور موت کا فرشتہ جو ڈاکٹروں کے بقول اب بالکل اس کے سرہانے کھڑا ہے' اسے اس کیفیت میں دیکھ سکے جسے اقبال نے ''چو مرگ آید تبسم برلب اوست'' کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
پس منظر اس سارے واقعے کا یہ تھا کہ اس سے دو دن قبل مجھے واٹس ایپ پر نجم کی بیٹی سطوت رضوی کا پیغام ملا کہ ابو کی حالت بہت بگڑ گئی ہے اور ڈاکٹروں نے ایک طرح سے جواب دے دیا ہے اور سارے فیملی ممبرز نے مل کر یہ پروگرام بنایا ہے کہ نجم کے چند قریبی دوستوں سے درخواست کر کے ویڈیو پر ان کے ایسے مختصر پیغام حاصل کیے جائیں جن میں وہ نجم سے اپنی یادوں اور ملاقاتوں کا تذکرہ اس طرح سے کریں کہ جیسے وہ اس کے سامنے بیٹھ کر اس سے باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اپنے پیاروں کی ان محبت بھری باتوں کو دیکھنے اور سننے سے اس کا آخری وقت جو جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے بہت ہی تکلیف دہ ہے قدرے آسانی سے کٹ جائے گا کہ کینسر کے موذی مرض نے عملی طور پر اب اس کی قوت مدافعت بالکل ختم کر دی ہے، خود مجھے بھی گزشتہ دو برس میں ہونے والی ہر ملاقات میں یہ تکلیف دہ احساس پریشان کرتا رہا تھا کہ شاید میں اسے آخری بار زندہ دیکھ رہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی باتیں اور خیالات اب بھی زندگی اور اعتماد سے بھرپور تھے۔
میں نے سطوت بیٹی سے وعدہ تو کر لیا اور اس کے داماد سے سمجھ بھی لیا کہ اس مونو لاگ کو کس طرح ڈائیلاگ کی شکل دینی ہے۔ عام حالات میں کیمرے کے لینز کو مخاطب کی آنکھ تصور کر کے بات کرنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں لیکن یہ احساس کہ مجھے یہ ڈرامہ ایک ایسے عزیز اور پیارے دوست سے کرنا ہے جو نہ صرف اس وقت ''ہر چند کہیں کہ ہے' نہیں ہے'' کی سی حالت میں ہے بلکہ افسانے اور میڈیا کا ماہر ہونے کے حوالے سے یہ بھی جانتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے۔ میری توقع سے زیادہ پریشان کن نکلا میں اس سے اکثر مختار صدیقی مرحوم کی ریڈیو اسٹوڈیوز کی ریکارڈنگ کے حوالے سے لکھی گئی نظم کے اسلوب اور انداز کی تعریف کیا کرتا تھا جس کا پہلا مصرعہ کچھ یوں ہے کہ
''سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے' بولو''
لیکن اس وقت علی ذی شان کی ''شروع کیجیے'' کی آواز سننے کے باوجود مجھے سے بولا نہیں جا رہا تھا کہ ذہن میں ایک ساتھ بہت سی سرخ بتیاں تیزی سے جل بجھ رہی تھیں۔ موت کسی بھی عمر میں اور کسی بھی وجہ سے ہو برحق اور لازمی تو ہے مگر کینسر کی وہ اسٹیج جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ موجود اور ممکن ہی نہ ہو' اس کی سنگینی اور متعلقہ بے بسی کے تاثر کو اور زیادہ ناقابل برداشت بنا دیتا ہے۔
ایسے میں کینسر اسپتال والے دوست ڈاکٹر شہریار کے بقول ہم صرف اس میں مبتلا شخص کی تکلیف کی شدت کو کم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے، سو یہ کام ہم سب کو ضرور کرنا چاہیے اور نجم مرحوم کے بیوی بچوں نے بھی یہ فرمائش غالباً اسی حوالے سے کی تھی۔ میں نے کوشش کر کے 40برس قبل ہونے والی اس سے پہلی ملاقات کو یاد کیا اور اس کے تب کے زندگی سے بھرپور چہرے اور دلنواز آنکھوں کو سامنے رکھ کر اس سے باتیں شروع کر دیں جو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے چند ہی منٹوں میں اس کے داماد تک پہنچ بھی گئیں اور گمان غالب ہے کہ مرحوم نے بھی ریکارڈنگ دیکھ اور سن لی ہو گی کہ اطلاعات کے مطابق وہ اس سے تقریباً 48گھنٹے بعد تک سانس لیتا رہا تھا۔
نجم الحسن رضوی کا ادبی کیرئیر ستر کی دہائی کے درمیانی حصے میں شروع ہوا اور یوں اس کا دورانیہ گزشتہ چار دہائیوں پر پھیلاہوا ہے۔ اس نے کچھ عرصہ محکمہ اطلاعات پاکستان میں بھی ملازمت کی مگر اس کا زیادہ وقت صحافت کے شعبے میں دبئی کے مشہور انگریزی اخبار ''خلیج ٹائمز'' کے ساتھ گزرا جہاں اس نے مختلف اعلیٰ ادارتی پوزیشنوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ادب اور تہذیب کے حوالے سے بہت عمدہ فیچر بھی لکھے اور کئی اہم شخصیات کے انٹرویو بھی کیے' کئی برس تک دبئی کے مقامی اور مختلف پاکستانی چینلز کے ساتھ بھی فری لانس کے طور پر منسلک رہا اور مختلف پروگراموں کے ذریعے اپنی خداداد اور متنوع صلاحیتوں کا شاندار اظہار کیا، وہ نسبتاً کم گو اور خاموش طبع تھا لیکن اس کی قوت مشاہدہ اور حس مزاح بھی کسی سے کم نہیں تھی۔
اگرچہ صحافیانہ ذمے داریوں کی وجہ سے اس نے انگریزی میں زیادہ اور مسلسل لکھا لیکن اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین اظہار اردو زبان اور فکشن کے میدان میں ہی ہوا۔ جدید اردو افسانے میں اس کا نام محمد منشا یاد' اسد محمد خان اور مظہر الاسلام کے ساتھ پہلی صف کے لکھنے والوں میں آتا ہے جب کہ ناول اور طنز و مزاح کی اصناف میں بھی اس کی کارکردگی مثالی کہی جا سکتی ہے۔
ہم دونوں بیک وقت ایک دوسرے کے دوست' قاری اور مداح بھی تھے جس کا اظہار ہماری کئی تحریروں میں بھی ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے اس کی ایک کہانی ''ہاتھ بیچنے والے'' کے عنوان کو ایک طرح سے ردیف بنا کر نہ صرف ایک طویل غزل لکھی تھی بلکہ اس کے آخری حصے میں قطعہ بند کے طور پر کچھ ایسے اشعار بھی شامل کیے تھے جن کا براہ راست تعلق اس کہانی کے کرداروں' واقعات' ماحول اور تجزیے سے تھا اور اسی سے ملتے جلتے میرے کچھ ڈراموں اور نظموں کے حوالے اس کی تحریروں میں بھی در آئے جو اس بات کے شاہد ہیں کہ زندگی کے کئی معاملات کے ضمن میں ہماری فکر' نظریات اور تجزیے ایک اندرونی ربط رکھتے تھے اور یوں اس کا جانا ادبی دنیا کے ساتھ ساتھ میرے لیے ایک ذاتی صدمے اور نقصان کی حیثیت بھی رکھتا ہے کہ ایسے گُنی اور محبت کرنے والے دوست اور ہم عصر بہت کم ہوتے ہیں جو آپ کے سرمایہ حیات کا مستقل حصہ بن جائیں اور جن پر آپ آنکھیں بند کر کے بھروسہ اور دل کھول کر فخر کر سکیں۔
نجم الحسن رضوی گزشتہ کئی برسوں سے کینسر کے موذی مرض اور اس کے آپریشنز کی متعلقہ تکالیف اور پیچیدگیوں سے نبرد آزما تھا، جسمانی اعتبار سے وہ بھرپور صحت کے دنوں میں بھی دھان پان سا تھا لیکن اس بیماری نے اس کے چہرے اور پورے وجود پر ایک عجیب طرح کی کمزوری اور بے رونقی کا سایا سا ڈال دیا تھا کہ اس کو دیکھ کر ہر بار یہ احساس پہلے سے زیادہ شدید ہو جاتا تھا کہ موت نے اس کی رگوں میں اپنی جگہ مزید پکی کر لی ہے اور یہ تماشا کسی بھی وقت ختم ہو سکتا ہے۔ اس کو میرا ایک شعر بہت پسند تھا کہ ذات کی کم مائیگی اور کائنات کی لامحدود طاقت اور وسعت کا احساس اس کے لیے بھی ایسا ہی دم بخود کر دینے والا تھا سو رب کریم کے حضور اس کے لیے مغفرت کی دعا کے ساتھ سلام وداع کے طور پر اس کو دہرا دیتا ہوں' لو سنو بھائی نجم الحسن رضوی!
اس حرف ''کن'' کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے