صابر ظفر کی غزل خطاطی

بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کوئی بھی ایسا مغل بادشاہ نہیں تھا جو خطاطی سے دلی لگاؤ نہ رکھتا ہو

جس طرح اچھی گفتگو کسی شخص کو دوسروں سے نمایاں و ممتاز بناتی ہے بالکل اسی طرح اچھی تحریر بھی ذہنی نفاست کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

اسکول میں سرکنڈے سے لکڑی کی تختی پر خوبصورت الفاظ تحریرکرنے، اسے دھونے اور دوبارہ لکھنے کے عمل سے جو لوگ واقف ہیں وہی جان سکتے ہیں کہ خوشخطی انسان کے دل اور ذہن پرکیا جادوکرسکتی ہے۔ایران اور عرب سے برصغیر میں داخل ہونے والی خطاطی کی تاریخ یوں تو بہت پرانی ہے مگر مغلیہ دور میں اسے جو عروج ملا وہ اس لیے قابل ستائش ہے کہ مغل شہزادوں کے لیے دوسرے فنون کی تعلیم وتربیت کے ساتھ خطاطی سیکھنے کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا تھا اور بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کوئی بھی ایسا مغل بادشاہ نہیں تھا جو خطاطی سے دلی لگاؤ نہ رکھتا ہو۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد خطاطی کا فن بھی کچھ عرصے تو زوال پذیر رہا مگرگزرتے وقت کے ساتھ اس نے جو جدید طرز اپنائی اس کے نشانات آج ہمارے علمی اور ادبی اداروں کے ماتھے کا جھومر ہیں۔

نوے کی دہائی میں کمپیوٹرکی آمد کے بعد جہاں بہت کچھ تبدیل ہوا وہاں کتابت کا نام بھی تبدیل کرکے ''کمپوزنگ'' رکھ دیا گیا۔ بڑے بڑے خطاط جن کی خطاطی کے جوہر ہمیں اخبارات، رسائل اورکتابوں کے علاوہ اہم عمارتوں اور مزاروں پر دکھائی دیتے تھی معدوم ہو تے چلے گئے اور اسکول سے شروع ہونے والی تختی پر لکھنے کی روایت بھی دم توڑ گئی۔ خطاطی کے فن کو دوسرے فنون کے ساتھ ملا کر مختلف ادوار میں ایسے ایسے فن پارے تخلیق کیے گئے جنھیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

پاکستان میں صادقین نے اپنے شاعری کو مصوری اور خطاطی میں ڈھال کر ایک نئی روایت کو جنم دیا تو لوگ حیران رہ گئے۔ صادقین کے علاوہ پاکستان میں بہت سارے دوسرے فنکاروں نے بھی خطاطی اور مصوری کے سنگم سے کئی خوب صورت نمونے تراشے مگر محمد حنیف رامے نے اس شعبے کو جو عزت بخشی اس کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ کراچی کے وصی حیدر اور ملک کے دوسرے خطاطوں اور مصوروں کے علاوہ بھارت کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور ایم ایف حسین کی بعض پینٹنگز میں بھی ہمیں خطاطی کے بہترین نمونے دکھائی دیتے ہیں۔

ابتدائی ادوار میں بعض خطاطوں نے طغریٰ نویسی کے فن کو بھی کمال تک پہنچایا جن میں دوسروں کے علاوہ ناگپور کے خطاط اور شاعر سلام وفا کی کتاب ''پاکیزہ تحریر'' دوہزار آٹھ میں چھپ کر سامنے آئی۔اس کتاب میں سلام وفا نے جہاں بہترین طغریٰ نویسی کے نمونے پیش کیے وہاں عربی اور فارسی زبان کے طغروں کا اشعار میں ترجمہ بھی پیش کیا۔ ضلع اٹک میں مقیم نامورخطاط اور طغریٰ نویس محمد سلیم ''راجو'' کے شہ پارے دیکھ کر بھی ایک لمحے کے لیے باذوق افراد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان شاعر اور بہترین خطاط محمد مختارعلی کا شمار بھی ایسے ہی خطاطوں میں ہوتا ہے جو مصوری اور خطاطی کے ملاپ سے انتہائی عمدہ فن پارے تخلیق کر رہے ہیں۔ محمد مختار علی کا کام ''ڈجیٹل آرٹ'' کی شاہراہوں سے گزرتا ہوا جہاں نئی منازل تک پہنچ رہا ہے وہاں اپنی شاعری میںجب وہ اس فن پرشعرکہتے ہیں تو دل خوش ہوجاتا ہے۔ ان کی نظم ''خطاط'' میں اس کی مثال کچھ یوں ملتی ہے۔

ہماری خوش نویسی درحقیقت رمز ہے

اک خوب کی اک عشق کی اک جستجوکی

صابر ظفرکا شمار پاکستان کے ان غزل گو شاعروں اورگیت کاروں میں ہوتا ہے جن کی غزلوں اور گیتوں سے ہمارے ملک کے باذوق افراد بھی واقف ہیںاوران گیتوں کی گونج برصغیر بھر میں بھی سنائی دیتی ہے جس ایک معمولی سی مثال ان کا لکھا ہوا گیت ''چین اک پل نہیں اورکوئی حل نہیں'' ہے جس نے اس دور میں شہرت کے آسمان کو چھوکر سامعین کو حیرت میں ڈال دیا۔ اب تک صابر ظفر کی غزلوں اور گیتوں کے انتالیس مجموعے ہمارے سامنے آ چکے ہیں جن میں کچھ ایسے ہیں جنھیں ہم موضوعاتی شاعری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مجموعہ '' غزل خطاطی'' کے نام سے ہمارے سامنے آیا تھا جسے فن خطاطی، اس کے رموز اور تاریخ کا ایک باب کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔اس مجموعے کی تخلیق جہاں صابر ظفر کا کمال فن ہے وہاں انھیں اس تخلیق کی طرف مائل کرنے والے معروف خطاط اور ''دارالتحریر اکیڈمی'' کے بانی محمد اقبال سعید کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جن کا ذکر کرتے ہوئے صابر ظفر کہتے ہیں۔

وہ ہیں اقبال سعید، اکملِ دارالتحریر


جن کی تحریک کا ثمرہ ہے غزل خطاطی

غزل خطاطی میں جہاں ماضی کے بہترین خطا طوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، وہاں ان خطوط کا نام بھی مختلف اشعار میں شامل کیا گیا ہے جو خطاطی میں جا بجا استعمال ہوتے ہیں۔ خط غبار، خط ماہی،خط رقاع، خط گلزار، خط مقابل،خط شفیعہ،خط بابری، خط بہار،خط ثلث، خط نسخ،خط محقق، خط ریحان،خط پروینی، خط منجی، خط طومار،خط مرموز، خط جلی،خط خفی، خط تعلیق، خط عرب، خط کوفی، خط مائل،خط شکستہ،خط نستعلیق، خط مشق اور خط استخوان کواشعار کا حصہ بنانا شایدکسی عام شاعر کے لیے اتنا آسان نہ ہوتا مگر فن شاعری پر دسترس رکھنے اور اوزان و بحور کے ساتھ کھیلنے والے صابر ظفر کے لیے یہ سب کچھ بائیں ہاتھ کے کھیل جیسا لگتا ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ غزلیات کے ایک مختصر سے مجموعے '' ابتدا '' سے شروعات کرنے والا اور چار دہائی قبل ''دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے'' جیسی غزل سے شہرت کی معراج تک پہنچنے والا صابر ظفر عام زندگی میں ایک ایسا درویش منش شخص ہے جسے غرور، تکبر اور انا جیسی بیماریاں چھوکر بھی نہیں گزریں وہ اپنے دوستوں اور جاننے والوں کے لیے نہ صرف سرتا پا محبت ہے بلکہ جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، ان کے لیے بھی اس کے منہ سے کبھی کوئی گلہ نہیں سنا گیا۔ ابتدا سے لے کر اب تک صابر ظفر نے غزل کے میدان میں ہی شہ سواری کی ہے لہٰذا جب وہ موضوعاتی شاعری کی میدان میں چھلانگ لگاتا ہے تو غزل کے اصل موضوع کو بھی اپنے ساتھ لے جانا نہیں بھولتا ''غزل خطاطی'' میں بھی وہ فن خطاطی کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے جب اپنے محبوب کی طرف مڑکر دیکھتا ہے تو اس کی غزل گوئی عروج پر ہوتی ہے۔

میں نے اک عمرکتابت سیکھی

تب کہیں لفظ محبت لکھا

اور

کچھ لفظ رفتگاں کی طرح دور ہوگئے

کچھ لفظ میرے پاس ہیں احباب کی طرح

صابر ظفر کی غزلوں کے نہ صرف تین چار انتخاب زیور طبع سے آراستہ ہوئے بلکہ ان کے ابتدائی دس مجموعوں کی کلیات ''مذہب عشق''کے نام سے چھپ کر بازار میں آ چکی ہے اس کے باوجود صابر ظفرکا فنی سفر روز اول کی طرح جاری ہے۔
Load Next Story