عورت کی سماجی حیثیت کا تعین
سچ تو یہ ہے کہ عورتوں کو قانونی طور پر جو حقوق اور تحفظ حاصل ہیں، وہ اس معلومات سے بے خبر ہیں
گھر ایک اکائی ہے۔ گھروں میں رہنے والوں کی سوچ اگر وحدت نہیں بن سکتی تو گھر منتشر ہوجاتے ہیں۔ گھر مرد اور عورت مل کر چلاتے ہیں۔ دونوں ہی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں کی جسمانی بناوٹ، نفسیات اور سماجی حیثیت الگ ہے۔ سوچ میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اسی حوالے سے دونوں کے کام اور ذمے داریاں بھی الگ ہیں۔
مرد کا کام روزی کمانا اور گھر کی مناسب دیکھ بھال ہے اور عورت گھر کے معاملات اور غذا فراہم کرنے کا وسیلہ۔ گھر مکمل ذمے داری ہے۔ گھر کے ساتھ دوسری ذمے داری لینا ناممکن ہے۔ اگر عورت ملازمت پیشہ ہے تو جب تک اسے شوہر و دیگر رشتوں کا تعاون حاصل نہیں ہوگا، وہ ملازمت کے ساتھ، گھر کی ذمے داری احسن طور پر اٹھا نہیں سکے گی۔ گھر کی اکائی میں ہر فرد کی الگ اہمیت ہے۔ اور اسی حوالے سے ان کی ذمے داریاں بھی الگ ہیں۔ اگر ذاتی ذمے داری کا تصور واضح نہیں ہے تو گھر بھی نہیں چل سکتے، وہ بکھر جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ رشتے ٹوٹ جائیں، مگر دل ٹوٹ جاتے ہیں، احساس منتشر ہوجاتا ہے۔ احساس پر بے توجہی کی ضرب پڑے تو پھر گھر، سرائے بن جاتے ہیں۔
جس معاشرے میں گھر، سرائے بن جائیں وہ معاشرے ذہنی و اخلاقی طور پر ابتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مرد اور عورت اگر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے اپنی ذمے داری سے بھی آگاہ رہیں یا اپنی ذاتی ذمے داری سے غفلت نہ برتیں تو زندگی کے معاملات بگڑ کے بن جاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ، مرد کا بنایا ہوا ہے۔ جس پر مردوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ یہ حاکمیت، کمزور کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ عورت چونکہ کمزور ہے لہٰذا استحصال کا شکار ہوجاتی ہے۔ عورت جسمانی طور پر کمزور ہے مگر ذہنی طور پر نہیں۔ ذہنی طور پر وہ مضبوط و فعال ہے تو مرد کا بنایا ہوا سماج اس سے خائف رہتا ہے۔ گھر کا انتشار ہو یا باہر کی دنیا کی افراتفری، مرد و عورت دونوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر عورت کے بوجھ کا حصہ زیادہ ہے۔ اس کی ذمے داریاں وسیع ہیں اور مسائل بے شمار! ہر موڑ پر اسے اپنی ذات کی نفی کا زہر پینا ہے۔ مرد کی خامیاں نظرانداز ہوجاتی ہیں مگر عورت کی خامیوں اور کوتاہیوں کو سماج نظرانداز نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے سماج میں نفرت و انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔
دہرے معیار کے حامل معاشروں میں عورت کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایسا سماج جو عورت کو شو پیس یا کموڈیٹی سمجھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو شمع محفل بنادیا جاتا ہے۔ 2014ء میں اسٹاک ہوم میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں U.N Population Fund کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا تھا ''عورت کو کموڈیٹی سمجھنے کے بجائے انسان کی حیثیت سے ساتھ لے کر چلنا چاہیے، تاکہ معاشرے خودساختہ مسائل سے دور رہیں۔ عورتوں کو مرد کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ ہر ملک کو ترجیحی بنیادوں پر عورتوں کے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔'' یہی وجہ ہے کہ اب دنیا اور بالخصوص تیسری دنیا کے ملکوں میں عورت کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عورت کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے جہاں ایسے پروگرام ترتیب دینے ہوں گے جو انھیں ذاتی تحفظ کے طریقے سکھا سکیں۔ یہ بحث مباحثے، مشاورتی پروگرام مردوں کے لیے بھی منعقد ہونے چاہئیں۔ کیونکہ مرد کی ذمے داری گھر کے حوالے سے دگنی ہے۔ مرد کی سمجھ، برداشت اور صحیح فیصلے کی صلاحیت خاندان کو ذہنی و روحانی قوت عطا کرتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق اگر والد بچوں سے دور ہیں تو ان کی تربیت میں خلا رہ جاتا ہے۔ بچے والد سے خودانحصاری، حقیقت پسندی و برداشت سیکھتے ہیں، خاص طور پر بیٹیوں کی زندگی میں اگر والد کا مثبت کردار ہے تو ان کی زندگیاں فعال اور کامیابی سے ہمکنار ہوجاتی ہیں۔ اگر والد بیٹیوں سے مخلص ہوں اور انھیں بھرپور توجہ و پیار دیں تو بیٹیاں بھی زندگی کے معاملات میں ثابت قدم رہتی ہیں۔ بالکل اسی طرح بیٹے والد کے لفظوں سے زیادہ ان کے عمل اور قائم کردہ مثالوں سے مثبت انداز فکر اپناتے ہیں۔ لفظ تبدیلی نہیں لاسکتے۔ پہلے رویوں کو مثالی بنانا ہوتا ہے۔ قول و عمل کا تضاد، معاشرتی زندگی کو منافقت کی دیمک لگا دیتا ہے۔
عورت کی زندگی کو فقط قوانین کا فعال اطلاق بہتر بناسکتا ہے۔ اس حوالے سے اسمبلی نے تاریخ ساز بل پاس کیے ہیں۔ جن میں پروٹیکشن آف وومن، کرمنل لاز امینڈمنٹ، دی پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن ایٹ دی ورک پلیس، پریزنٹیشن آف اینٹی وومن پریکٹسز (کرمنل لا امینڈمنٹ ایکٹ 2011ء) اور چائلڈ میرج لا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ فعال قانون سازی اور ان قوانین کا اطلاق عورت کی زندگی میں واضح تبدیلی لے کر آسکتا ہے۔ لیکن یہ فرسودہ نظام، جس میں مجرموں کی پردہ پوشی اور ملزموں کو رعایت دی جاتی ہے۔ یقینی طور پر کئی سوال ذہن میں اٹھتے ہیں کہ کیا قانون کی بالادستی اور عملی پیش رفت کے سلسلے میں کتنی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ ناانصافی کی جڑیں کافی پختہ ہوں تو نظام کو بدلنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں لوگوں کی مثبت ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کا اہم ذریعہ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک و سوشل میڈیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ عورتوں کو قانونی طور پر جو حقوق اور تحفظ حاصل ہیں، وہ اس معلومات سے بے خبر ہیں۔ انھیں یہ معلومات دینے کے لیے تعلیمی اداروں کا پلیٹ فارم اہمیت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جو بھی قانون سازی کی گئی ہے۔ اس معلومات کو ان تک پہنچانے کے لیے ٹیلی وژن ڈراموں اور بحث مباحثے کے پروگرامز پر مبنی معلومات بھی سماجی غفلت کو جگا سکتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ایک موثر ذریعہ ہے سماجی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے۔ جو زیادہ تر سیاسی موضوعات کے الجھاؤ کا شکار ہے۔ ان مباحثوں میں بحث برائے بحث کا تاثر ملتا ہے۔ جب کہ بحث مباحثوں کا تعمیری پہلو، حل کو دریافت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مثبت ڈائیلاگ، گفتگو یا بات چیت کے ذریعے سماجی زندگی کے معیار میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
آج دنیا بھر کے سیاسی و سماجی ایوانوں میں اس صدا کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ عورت کے حقوق کے تحفظ اور سماجی حیثیت کی بہتری و بحالی سے آنے والی نسلوں کا مستقبل ذہنی انتشار سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کیونکہ ذہنی تصادم، خوشحالی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جسے مصالحتی رویے ختم کرسکتے ہیں۔
مرد کا کام روزی کمانا اور گھر کی مناسب دیکھ بھال ہے اور عورت گھر کے معاملات اور غذا فراہم کرنے کا وسیلہ۔ گھر مکمل ذمے داری ہے۔ گھر کے ساتھ دوسری ذمے داری لینا ناممکن ہے۔ اگر عورت ملازمت پیشہ ہے تو جب تک اسے شوہر و دیگر رشتوں کا تعاون حاصل نہیں ہوگا، وہ ملازمت کے ساتھ، گھر کی ذمے داری احسن طور پر اٹھا نہیں سکے گی۔ گھر کی اکائی میں ہر فرد کی الگ اہمیت ہے۔ اور اسی حوالے سے ان کی ذمے داریاں بھی الگ ہیں۔ اگر ذاتی ذمے داری کا تصور واضح نہیں ہے تو گھر بھی نہیں چل سکتے، وہ بکھر جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ رشتے ٹوٹ جائیں، مگر دل ٹوٹ جاتے ہیں، احساس منتشر ہوجاتا ہے۔ احساس پر بے توجہی کی ضرب پڑے تو پھر گھر، سرائے بن جاتے ہیں۔
جس معاشرے میں گھر، سرائے بن جائیں وہ معاشرے ذہنی و اخلاقی طور پر ابتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مرد اور عورت اگر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے اپنی ذمے داری سے بھی آگاہ رہیں یا اپنی ذاتی ذمے داری سے غفلت نہ برتیں تو زندگی کے معاملات بگڑ کے بن جاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ، مرد کا بنایا ہوا ہے۔ جس پر مردوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ یہ حاکمیت، کمزور کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ عورت چونکہ کمزور ہے لہٰذا استحصال کا شکار ہوجاتی ہے۔ عورت جسمانی طور پر کمزور ہے مگر ذہنی طور پر نہیں۔ ذہنی طور پر وہ مضبوط و فعال ہے تو مرد کا بنایا ہوا سماج اس سے خائف رہتا ہے۔ گھر کا انتشار ہو یا باہر کی دنیا کی افراتفری، مرد و عورت دونوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر عورت کے بوجھ کا حصہ زیادہ ہے۔ اس کی ذمے داریاں وسیع ہیں اور مسائل بے شمار! ہر موڑ پر اسے اپنی ذات کی نفی کا زہر پینا ہے۔ مرد کی خامیاں نظرانداز ہوجاتی ہیں مگر عورت کی خامیوں اور کوتاہیوں کو سماج نظرانداز نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے سماج میں نفرت و انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔
دہرے معیار کے حامل معاشروں میں عورت کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایسا سماج جو عورت کو شو پیس یا کموڈیٹی سمجھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو شمع محفل بنادیا جاتا ہے۔ 2014ء میں اسٹاک ہوم میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں U.N Population Fund کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کہا تھا ''عورت کو کموڈیٹی سمجھنے کے بجائے انسان کی حیثیت سے ساتھ لے کر چلنا چاہیے، تاکہ معاشرے خودساختہ مسائل سے دور رہیں۔ عورتوں کو مرد کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ ہر ملک کو ترجیحی بنیادوں پر عورتوں کے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔'' یہی وجہ ہے کہ اب دنیا اور بالخصوص تیسری دنیا کے ملکوں میں عورت کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عورت کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے جہاں ایسے پروگرام ترتیب دینے ہوں گے جو انھیں ذاتی تحفظ کے طریقے سکھا سکیں۔ یہ بحث مباحثے، مشاورتی پروگرام مردوں کے لیے بھی منعقد ہونے چاہئیں۔ کیونکہ مرد کی ذمے داری گھر کے حوالے سے دگنی ہے۔ مرد کی سمجھ، برداشت اور صحیح فیصلے کی صلاحیت خاندان کو ذہنی و روحانی قوت عطا کرتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق اگر والد بچوں سے دور ہیں تو ان کی تربیت میں خلا رہ جاتا ہے۔ بچے والد سے خودانحصاری، حقیقت پسندی و برداشت سیکھتے ہیں، خاص طور پر بیٹیوں کی زندگی میں اگر والد کا مثبت کردار ہے تو ان کی زندگیاں فعال اور کامیابی سے ہمکنار ہوجاتی ہیں۔ اگر والد بیٹیوں سے مخلص ہوں اور انھیں بھرپور توجہ و پیار دیں تو بیٹیاں بھی زندگی کے معاملات میں ثابت قدم رہتی ہیں۔ بالکل اسی طرح بیٹے والد کے لفظوں سے زیادہ ان کے عمل اور قائم کردہ مثالوں سے مثبت انداز فکر اپناتے ہیں۔ لفظ تبدیلی نہیں لاسکتے۔ پہلے رویوں کو مثالی بنانا ہوتا ہے۔ قول و عمل کا تضاد، معاشرتی زندگی کو منافقت کی دیمک لگا دیتا ہے۔
عورت کی زندگی کو فقط قوانین کا فعال اطلاق بہتر بناسکتا ہے۔ اس حوالے سے اسمبلی نے تاریخ ساز بل پاس کیے ہیں۔ جن میں پروٹیکشن آف وومن، کرمنل لاز امینڈمنٹ، دی پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن ایٹ دی ورک پلیس، پریزنٹیشن آف اینٹی وومن پریکٹسز (کرمنل لا امینڈمنٹ ایکٹ 2011ء) اور چائلڈ میرج لا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ فعال قانون سازی اور ان قوانین کا اطلاق عورت کی زندگی میں واضح تبدیلی لے کر آسکتا ہے۔ لیکن یہ فرسودہ نظام، جس میں مجرموں کی پردہ پوشی اور ملزموں کو رعایت دی جاتی ہے۔ یقینی طور پر کئی سوال ذہن میں اٹھتے ہیں کہ کیا قانون کی بالادستی اور عملی پیش رفت کے سلسلے میں کتنی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ ناانصافی کی جڑیں کافی پختہ ہوں تو نظام کو بدلنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں لوگوں کی مثبت ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کا اہم ذریعہ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک و سوشل میڈیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ عورتوں کو قانونی طور پر جو حقوق اور تحفظ حاصل ہیں، وہ اس معلومات سے بے خبر ہیں۔ انھیں یہ معلومات دینے کے لیے تعلیمی اداروں کا پلیٹ فارم اہمیت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جو بھی قانون سازی کی گئی ہے۔ اس معلومات کو ان تک پہنچانے کے لیے ٹیلی وژن ڈراموں اور بحث مباحثے کے پروگرامز پر مبنی معلومات بھی سماجی غفلت کو جگا سکتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ایک موثر ذریعہ ہے سماجی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے۔ جو زیادہ تر سیاسی موضوعات کے الجھاؤ کا شکار ہے۔ ان مباحثوں میں بحث برائے بحث کا تاثر ملتا ہے۔ جب کہ بحث مباحثوں کا تعمیری پہلو، حل کو دریافت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مثبت ڈائیلاگ، گفتگو یا بات چیت کے ذریعے سماجی زندگی کے معیار میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
آج دنیا بھر کے سیاسی و سماجی ایوانوں میں اس صدا کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ عورت کے حقوق کے تحفظ اور سماجی حیثیت کی بہتری و بحالی سے آنے والی نسلوں کا مستقبل ذہنی انتشار سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کیونکہ ذہنی تصادم، خوشحالی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جسے مصالحتی رویے ختم کرسکتے ہیں۔