حکومت اضافی چینی چائنہ کو فروخت کردے شوگر ملز
اضافی چینی برآمد کرنے کی پالیسی فوری نہ بنائی تو کرشنگ شروع نہیں کرسکیں گے، جاوید کیانی
PESHAWAR:
آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (اے پی ایس ایم اے) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر اضافی چینی کے ذخائر برآمد کرنے کی پالیسی تیار کی جائے ورنہ صنعت رواں ماہ کے اختتام تک نیا کرشنگ سیزن شروع کرنے کے قابل نہیں ہوسکے گی۔
چیئرمین اے پی ایس ایم اے جاوید کیانی نے بدھ کو پریس کانفرنس میں کہا کہ قانون کے مطابق ملرز کو 30 نومبرتک کرشنگ سیزن شروع کرنا ہوتا ہے تاہم چینی کے اضافی ذخائر کی وجہ سے ملرز کو سرمائے کی قلت کا سامنا ہے اور وہ کسانوں کو ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ کاشت کار اپنے بقایا جات کیلیے احتجاج کر رہے ہیں مگر شوگر ملرز انہیں ادائیگیاں کیسے کریں جب وہ بچ جانے والے ذخائر کو بین الاقوامی منڈیوں میں بیچنے میں ناکام ہیں، شوگر انڈسٹری کو چینی کی ایکسپورٹ کو تجارتی بنیادوں پر قابل عمل بنانے کیلیے کم ازکم 20 روپے فی کلوگرام ری بیٹ کی ضرورت ہے۔ جاوید کیانی نے کہا کہ گنے کی نئی فصل بمپر ہونے کی توقع ہے، یہ 80 لاکھ ٹن کے قریب ہوگی جس کی مالیت 375 ارب روپے ہوگی۔
بین الاقوامی منڈیوں میں چینی کی موجودہ قیمتیں 320 سے 325 ڈالر ہیں جس کے مطابق گنے کی امدادی قیمت 180 روپے فی 40کلوگرام کے بجائے 120 روپے فی 40 کلوگرام ہونی چاہئیں، 55لاکھ ٹن سالانہ کھپت کے بعد پاکستان کے پاس آئندہ سال 30لاکھ ٹن چینی فاضل ہوگی، اتنے بڑے ذخائر اور کم بین الاقوامی قیمتوں کے ساتھ شوگر انڈسٹری کسانوں کو کس طرح ان کے بقایاجات ادا کرے گی، توقع ہے کہ اگر چیزیں جوں کی توں رہیں تو انڈسٹری 190 ارب روپے کی نادہندہ ہوگی جس سے کسانوں کے ساتھ شوگر ملرز میں بھی افراتفری پھیل جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ چین فی الوقت پرکشش مارکیٹ ہے جو مقامی کھپت کیلیے بین الاقوامی قیمتوں کے مقابلے میں دگنی قیمت دے رہی ہے، حکومت خود سے بچ جانے والے ذخائر چین کو فروخت کردے، اس سے مقامی صنعت بچ جائے گی اور حکومت کو بھی ری بیٹ نہیں دینا پڑے گا۔ اے پی ایس ایم اے چیف نے کہا کہ حکومت یا تو کوئی مضبوط پالیسی بنائے یا پھراس شعبے کو ڈی ریگولیٹ کردے کیونکہ حکومت کی دہری پالیسی صنعت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے، کاشت کار ملرز کو الزام دے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ملرز کے پاس ادائیگیوں کیلیے نقدی نہیں بلکہ وہ بینکوں کو قرضے واپس کرنے کیلیے مذاکرات کر رہے ہیں، اب تک 9 ملز ڈیفالٹ کر چکی ہیں اور 2 نے سرمائے کی قلت کے باعث اپنے پلانٹ بند کردیے ہیں، اگر پالیسی ساز نہیں جاگے تو آئندہ سال صنعت کیلیے آخری کرشنگ سیزن ثابت ہوگا۔
آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (اے پی ایس ایم اے) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر اضافی چینی کے ذخائر برآمد کرنے کی پالیسی تیار کی جائے ورنہ صنعت رواں ماہ کے اختتام تک نیا کرشنگ سیزن شروع کرنے کے قابل نہیں ہوسکے گی۔
چیئرمین اے پی ایس ایم اے جاوید کیانی نے بدھ کو پریس کانفرنس میں کہا کہ قانون کے مطابق ملرز کو 30 نومبرتک کرشنگ سیزن شروع کرنا ہوتا ہے تاہم چینی کے اضافی ذخائر کی وجہ سے ملرز کو سرمائے کی قلت کا سامنا ہے اور وہ کسانوں کو ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ کاشت کار اپنے بقایا جات کیلیے احتجاج کر رہے ہیں مگر شوگر ملرز انہیں ادائیگیاں کیسے کریں جب وہ بچ جانے والے ذخائر کو بین الاقوامی منڈیوں میں بیچنے میں ناکام ہیں، شوگر انڈسٹری کو چینی کی ایکسپورٹ کو تجارتی بنیادوں پر قابل عمل بنانے کیلیے کم ازکم 20 روپے فی کلوگرام ری بیٹ کی ضرورت ہے۔ جاوید کیانی نے کہا کہ گنے کی نئی فصل بمپر ہونے کی توقع ہے، یہ 80 لاکھ ٹن کے قریب ہوگی جس کی مالیت 375 ارب روپے ہوگی۔
بین الاقوامی منڈیوں میں چینی کی موجودہ قیمتیں 320 سے 325 ڈالر ہیں جس کے مطابق گنے کی امدادی قیمت 180 روپے فی 40کلوگرام کے بجائے 120 روپے فی 40 کلوگرام ہونی چاہئیں، 55لاکھ ٹن سالانہ کھپت کے بعد پاکستان کے پاس آئندہ سال 30لاکھ ٹن چینی فاضل ہوگی، اتنے بڑے ذخائر اور کم بین الاقوامی قیمتوں کے ساتھ شوگر انڈسٹری کسانوں کو کس طرح ان کے بقایاجات ادا کرے گی، توقع ہے کہ اگر چیزیں جوں کی توں رہیں تو انڈسٹری 190 ارب روپے کی نادہندہ ہوگی جس سے کسانوں کے ساتھ شوگر ملرز میں بھی افراتفری پھیل جائے گی۔
انھوں نے کہا کہ چین فی الوقت پرکشش مارکیٹ ہے جو مقامی کھپت کیلیے بین الاقوامی قیمتوں کے مقابلے میں دگنی قیمت دے رہی ہے، حکومت خود سے بچ جانے والے ذخائر چین کو فروخت کردے، اس سے مقامی صنعت بچ جائے گی اور حکومت کو بھی ری بیٹ نہیں دینا پڑے گا۔ اے پی ایس ایم اے چیف نے کہا کہ حکومت یا تو کوئی مضبوط پالیسی بنائے یا پھراس شعبے کو ڈی ریگولیٹ کردے کیونکہ حکومت کی دہری پالیسی صنعت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے، کاشت کار ملرز کو الزام دے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ملرز کے پاس ادائیگیوں کیلیے نقدی نہیں بلکہ وہ بینکوں کو قرضے واپس کرنے کیلیے مذاکرات کر رہے ہیں، اب تک 9 ملز ڈیفالٹ کر چکی ہیں اور 2 نے سرمائے کی قلت کے باعث اپنے پلانٹ بند کردیے ہیں، اگر پالیسی ساز نہیں جاگے تو آئندہ سال صنعت کیلیے آخری کرشنگ سیزن ثابت ہوگا۔