پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

فروری 2005 میں پاکستان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے ایرانی قیادت سے مذاکرات کر کے اس منصوبے کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔

پاکستان اور انڈیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کے گھریلو استعمال، صنعت وحرفت، کارخانوں اور فیکٹریوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے گیس کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں تو کچھ گیس ہے بھی لیکن انڈیا میں شدید کمی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پہلے پہل 1994 میں ایران سے پاکستان اور انڈیا کو گیس سپلائی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس کا نام ''ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن،، رکھا گیا۔

2002 میں اس سلسلے میں ایران سے پاکستان اور پھر براستہ پاکستان انڈیا کو گیس سپلائی کرنے کی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے۔

فروری 2005 میں پاکستان کے وزیراعظم شوکت عزیز نے ایرانی قیادت سے مذاکرات کر کے اس منصوبے کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔

بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے علیحدہ علیحدہ اس منصوبے کی منظوری دیدی۔ اس سے پاکستان کو دوہرا فائدہ ملنا تھا، ایک سستی گیس اور دوسرے بین الاقوامی قانون کے تحت TRANSIT ROYALTY ملنا تھی۔ لیکن یہ بات انڈیا کو ناگوار گزری، ان دنوں بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کچھ خراب تھی، انڈیا نے اس کا بہانہ بناکر لیت ولعل کرنا شروع کردیا۔

اسی اثناء میں ایٹمی پروگرام کے مسئلے پر امریکا اور ایران کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، امریکا نے انڈیا کو سول ایٹمی ٹیکنالوجی دے کر توانائی کی ضروریات پوری کردیں تو انڈیا2009میں امریکی دباؤ پر اس معاہدے سے الگ ہوگیا۔ پاکستان نے بھی یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہی لیکن امریکا نے کورا جواب دے دیا اور پاکستان پر اس معاہدے سے الگ ہونے کے لیے دباؤ بھی ڈالنا شروع کردیا۔ لیکن پاکستان میں توانائی کا شدید بحران ہے وہ ہر حال میں گیس حاصل کرنا چاہتاہے اور اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہتاہے۔

اس منصوبے سے پاکستان کو 25سال تک21.5ملین مکعب میٹر گیس روزانہ ملے گی اور یہ785کلو میٹر لمبی پائپ لائن بچھانے پر7.5بلین ڈالر خرچ آئے گا جس میں ایران500ملین ڈالر قرض فراہم کرے گا جب کہ بقیہ رقم کا پاکستان کو انتظام کرنا ہوگا۔


پاکستان میں توانائی کے شدید بحران کے پیش نظر حکومت پاکستان کے صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ اکثر وبیشتر اس منصوبے کو مکمل کرنے کے بیانات دیتے رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر خارجہ اور پاکستان میں امریکی سفیر بھی بار بار یہ تنبیہ کرتے رہتے ہیں کہ ایٹمی پروگرام کے مسئلے پر ایران پر پابندیاں لگنے والی ہیں، ایران کے ساتھ اس پروجیکٹ میں شامل ہونے سے پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑے گااور وہ ترکمانستان سے گیس در آمد کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ترکمانستان اور پاکستان کے درمیان افغانستان کا علاقہ آتاہے جہاں جنگ ہونے کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال بے حد خراب ہے اور گیس پائپ لائن کا گزرنا ناممکن نظر آتاہے۔

2011 میں پاکستان کے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم نے ایک بیان دے کر صورتحال واضح کرنے کی کوشش کی کہ اس منصوبے پر بین الاقوامی مسائل اور مزاحمت کا سامناہے اور ہم عالمی حالات کو دیکھ کر پیش رفت کریںگے۔

پاکستان کے دو بڑے اداروں ایک بڑے بینک اور آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے بھی اس پروجیکٹ میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور یہ مؤقف پیش کیا کہ ہمیں اس معاملے میں تحفظات ہیں۔ کیونکہ جوہری پروگرام کے تنازعے میں اگر اقوام متحدہ نے ایران پر پابندیاں لگادیں تو ہمارے بین الاقوامی کاروبار اور ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے ساتھ ہی چین کے ایک کنسورشیم نے امریکی دباؤ کو دیکھ کر اس منصوبے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

پچھلے دنوں صدر پاکستان اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے ایران جانے والے تھے کہ امریکی دباؤ آن پڑا ۔

گزشتہ دنوں صدر پاکستان ایران گئے اور معاہدے پر دستخط کرکے آگئے۔ اور اب11مارچ کو اس کا افتتاح کررہے ہیں، اس کے ساتھ ہی امریکا نے وارننگ دی ہے کہ اس معاہدے سے پیچھے ہٹ جاؤ ورنہ ایران کے ساتھ پاکستان پر بھی بین الاقوامی پابندیاں لگ جائیں گی۔ اب یہ صورتحال ہے کہ صوبہ بلوچستان میں جہاں سے یہ پائپ لائن گزرنی ہے امریکا، انڈیا، اسرائیل اور افغانستان بلوچ اور افغان شرپسندوں اور انتہا پسندوں سے تخریب کاری کروارہے ہیں اور امن وامان کو خراب کررہے ہیں۔ گوادر پورٹ کی تعمیر کے دوران یہ تخریب کار بہت سے چینی اور پاکستانی انجینئروں، اسٹاف اور دوسرے افراد کو ہلاک کرچکے ہیں جس سے پورے صوبے میں ایک خوف ودہشت کی فضاء چھائی ہوئی ہے۔

اب اگر اس منصوبے پر کام شروع ہوتاہے تو امریکا اور دوسرے ممالک بلوچ انتہا پسندوں سے کام کرنے والے اسٹاف پر حملے کرانے میں بھی دیر نہیں کریںگے۔ ہماری یہ جمہوری حکومت گزشتہ پانچ سال میںبلوچستان میں امن وامان قائم نہیں کرسکی ہے، اب جب یہ تخریب کار شدت سے کارروائیاں کریںگے تو کیا ہوگا؟ نیز اقوام متحدہ نے پابندیاں لگادیں تو اس منصوبے پر کیسے کام آگے بڑھے گا۔

در اصل حکمران اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اتنی زیادہ مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکتا لیکن وہ الیکشن میں اسے استعمال کرکے عوام کے ووٹ حاصل کرنے کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
Load Next Story