بلا تفریق ٹارگٹڈ آپریشن ناگزیر

بدقسمتی سے کراچی میں بدامنی کے مسئلے کو مصلحتوں کی دبیز چادروں میں ایسا لپیٹا گیا کہ اس پر بات کرنا جرم سمجھا جانے لگا

بدقسمتی سے کراچی میں بدامنی کے مسئلے کو مصلحتوں کی دبیز چادروں میں ایسا لپیٹا گیا کہ اس پر بات کرنا جرم سمجھا جانے لگا۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے آبزرو کیا ہے کہ کراچی میں فرقہ وارانہ فساد نہیں قبضے اور مفاد کی جنگ ہے، شیعہ اور سنی بھائی بھائی ہیں، ہمارا المیہ ہے کہ اچھے افسران کو ہٹا دیا جاتا ہے، ہم وزیر اعلیٰ کا احترام کرتے ہیں مگر وہ کچھ جانتے ہی نہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر گھر گھر تلاشی ہو جاتی تو آج کراچی کے حالات بہتر ہوتے۔ عدالت عظمیٰ نے کنٹریکٹ پر تعینات 14 اعلیٰ پولیس افسران کو فوری برطرف کرنے کا حکم دیدیا ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ٹھوس پیشگی اطلاعات کے باوجود سندھ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے عباس ٹائون میں ہونیوالے حادثے کو نہیں روک سکے جو بے حسی، بے عملی اور شہریوں کی زندگی سے عدم دلچسپی کی المناک مثال ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے جمعہ کو سانحہ عباس ٹائون اور کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی، فاضل بینچ نے تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اہل اور قابل ڈی آئی جیز پر مشتمل تفتیشی ٹیم تشکیل دینے اور چیف سیکریٹری و سیکریٹری داخلہ کو بھی شامل تفتیش کرنے کی ہدایت کی۔ بلا شبہ کراچی بد امنی کیس کے تناظر میں شہر کی سنگین صورتحال اور سانحہ عباس ٹائون پر اہل وطن پر رنج و غم کا پہاڑ ٹوٹ پرانا کوئی انہونی بات نہیں۔

یہ شہر کی بربادی کا نوحہ ہے اور اس پر آشوب سماجی منظر نامے میں امید کی کوئی کرن ہے تو وہ عدلیہ ہی ہے ورنہ انتظامی معنوں میں مجرموں کے سامنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہ سرنڈر نہیں تو اور کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کراچی کو اپنے جغرافیائی، تزویراتی اور اقتصادی محل وقوع کے طور پر ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور کاروباری مرکز کی حیثیت حاصل ہے، اسے معاشی حب قرار دیا ہے،اگرچہ اس کا وہ سماجی مرتبہ قائم نہیں رہ سکا جو اسے عروس البلاد کے درجے تک لے گیا تھا تاہم شہر قائد کی ترقی اور اس کے عوام کی خوشحالی ارباب اختیار کی توجہ کا مرکز بن کر رہنے کی مستحق کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔

اسے اقتصادی، سیاسی، اور سماجی التفات کے قابل سمجھنا جمہوری عمل اور ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے، یہ معاشی انجن چلے گا تو پاکستان اور اس کے عوام جمہوریت کے دوش بدوش یہ گاتے ہوئے چلیں گے ''حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو۔'' اور اگر ہر طرف سیاسی و جمہوری قوتوں میں چپقلش، کشیدگی، تنائو، اسٹیک ہولڈرز میں بد گمانی جب کہ دہشت گردوں اور کالعدم انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے خود کش حملوں، بم دھماکوں، اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا جائے گا تو ریاست چپ تو نہیں بیٹھ سکتی، حکومت کو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑیگا۔

اب جب کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کراچی میں فرقہ وارانہ فساد نہیں قبضے کی جنگ ہے تو یہ حکومت اس کی اتحادی جماعتوں، عسکری قیادت اور پوری سول سوسائٹی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ فکشن نہیں حقیقت ہے۔ اس آبزرویشن کی بنیاد یقیناً عدلیہ کو حاصل ان ٹھوس شواہد کی مرہون منت ہو گی جو انٹیلی جنس اداروں کی تحقیقاتی اور تجزیاتی رپورٹوں، میڈیا میں پیش کیے جانے والے حقائق اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ تفتیشی دستاویزات سے تحویل میں لی گئی ہونگی۔ کراچی میں قتل و غارت کا مسئلہ امن و امان سے متعلق ہے اور یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کرے۔


بدقسمتی سے کراچی میں بدامنی کے مسئلے کو مصلحتوں کی دبیز چادروں میں ایسا لپیٹا گیا کہ اس پر بات کرنا جرم سمجھا جانے لگا۔ جب بھی کراچی میں آپریشن کی تیاری کا ذکر چھڑتا ہے بعض حلقوں کی طرف سے اس کی شدت کے ساتھ مخالفت کی جاتی ہے، مجوزہ آپریشن بھی فوجی نہیں ہو گا، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اتنی سرزنش ہو چکی کہ وہ شہر کو بربادی سے بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے اور قانون شکن عناصر کا قلع قمع نہیں کریں گے تو ان کی افادیت کتنی باقی رہے گی۔ اور پھر کون کراچی کو بچائے گا۔ اسٹیک ہولڈرز تو آپس میں لڑتے ہی رہے۔

حالانکہ ضرورت اب بھی اس امر کی ہے کہ دہشت گردی، بد امنی کے خلاف حزب اقتدار اور حزب اختلاف ہر قسم کے تحفظات سے بالا تر ہو کر دہشت گردی اور قتل و غارت کا سلسلہ روکنے پر اتفاق رائے سے انتظامی فیصلے کریں۔ عدلیہ نے اخلاص و دل سوزی کے ساتھ ہمارے سماجی نظام میں مضمر خرابیوں کی نشاندہی کی ہے، اور ججز کے ریمارکس سے سیاسی اور سماجی اور معاشی تضادات واضح ہو رہے ہیں، آپریشن مجرموں اور بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف ہو گا، اس لیے کسی سیاسی و جمہوری جماعت کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ جھاڑو پھرنی چاہیے، ورنہ ہماری آئندہ نسلیں ٹارگٹ کِلرز کے رحم و کرم پر ہوں گی۔

کتنا بڑا المیہ ہے کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر ہیرو کا درجہ پا گئے، وہ سیاسی پشت پناہی کے باعث بے خوف ہو کر شہر کو خون میں نہلاتے رہے۔ تاہم اب ایکشن کا وقت آ گیا ہے۔ صدر آصف زرداری نے صورتحال کا نوٹس لے ہی لیا، ان کی زیر صدارت وزیر اعلیٰ ہائوس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر بلا تفریق ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کے لیے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو فری ہینڈ دیدیا گیا۔ اجلاس میں گورنر ، وزیر اعلیٰ سندھ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔

صدر نے کہا کہ وسائل کی فراہمی کے باوجود کراچی میں امن کی صورتحال بہتر نہ ہونا تشویشناک ہے۔ صدر نے پولیس کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر پولیس افسران کام نہیں کریں گے تو پھر وہ گھر جانے کی تیاری کر لیں۔ صدر نے تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر واضح کیا کہ اگر ایک ہفتے میں کراچی میں صورتحال بہتر نہ ہوئی تو سخت ایکشن لیا جائیگا۔ ٹارگٹڈ آپریشن کو گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ براہ راست مانیٹر کریں گے جب کہ اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ نومبر سے لے کر اب تک رینجرز نے جن دہشتگردوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا، انھیں کیوں اور کن کن کی سفارش پر چھوڑا گیا۔ صدر زرداری نے کہا کہ کسی کو انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالنے اور امن وامان خراب کرنیکی اجازت نہیں دی جائیگی۔

بلاشبہ جمہوری معاشرے میں سیاسی بالادستی کا جنگجویانہ رجحان سخت افسوسناک ہے۔ کراچی کو منی پاکستان کہنے میں اور کوئی حکمت کارفرما نہ تھی کہ اس کی ہمہ جہت ترقی میں پاکستان کے کونے کونے سے آنیوالے محنت کشوں نے حصہ لیا ان کی اجتماعی اور مشترکہ خدمات اور شبانہ روز محنت اور خون پسینے سے کراچی نے مائی کولاچی کی ایک ماہی گیر بستی سے دنیا کے عظیم شہروں میں اپنا مقام بنا لیا۔ ان ہم وطنوں کو کراچی میں محض فکر معاش کھینچ کر لائی ان کے کوئی سیاسی، لسانی، فرقہ وارانہ، جنگجویانہ، انتہا پسندانہ اور وحشیانہ عزائم نہ تھے لیکن وقت کا کیسا جبر اور حالات کی کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ کراچی کی مخدوش اور درد انگیز صورتحال آج اہل وطن کے لیے فلیش پوائنٹ بن چکی ہے، ایک لاوا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

ایک آتش فشاں ہے جس کے وجود سے آنے والی ممکنہ تباہی کا کچھ پتہ نہیں۔ یہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟ اس کا جواب اور درد کا درماں برسوں سے کسی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں تک کے پاس سے نہیں ملا۔ جرائم پیشہ عناصر سیاسی جماعتوں کی گرفت سے نکل کر متوازی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بلوچستان کی صورتحال کا موازنہ کیجیے تو دل دہل جاتا ہے، انسانی ہلاکتوں کے کتنے بہیمانہ واقعات اہل وطن کے ضمیر اور اعصاب کو جھنجھوڑ چکے ہیں۔ اب ملک بھر میں وحشتوں کے اس سلسلے کا ہر حال میں خاتمہ ناگزیر ہے۔
Load Next Story