ذرا سوچیں

دہشت گردی کے عروج کا ایک سبب جنگوں،خانہ جنگیوں،قحط یا آفات ارضی وسماوی کے سبب لوگوں کے بڑے بڑے جتھوں کی نقل مکانی ہے۔

zahedahina@gmail.com

طوفانِ نوح ایک تندور سے اُبلا تھا۔ دہشت گردی ہمارے حسین ترین علاقوں سے سیلاب بلا کی طرح اُمڈی اور لوگوں کا چین اور سکون غارت کر گئی۔ سوات اور ہمارے شمالی علاقے جس طرح انتہا پسندوں کا نوالہ بنے۔ پُر امن اور پر سکون بستیاں جو زمین پر جنت خیال کی جاتی تھیں، وہ جہنم زار بن گئیں۔ اپنے اپنے گھروں سے لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ عزت دار گھرانے اپنی چھت اور اپنے روزگار سے محروم ہوئے۔ ان میں سے آج تک ہزاروں در بدر پھرتے ہیں۔

ہزارہا اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے، بے شمار معذور ہوئے، سیکڑوں اسکول، ناپسندیدہ دکانیں اور ایک خوشحال طرز زندگی اس جنگ کی بھینٹ چڑھی اور پھر یہ آگ رفتہ رفتہ ہمارے شہروں تک آئی۔ عسکری ادارے بھی اس آگ سے محفوظ نہ رہ سکے۔ مزاروں، درباروں اور مختلف مسالک کی مسجدوں اور امام بارگاہوں کی تو بات ہی جانے دیں۔

یہ عفریت دنیا کے لیے کچھ نیا نہیں۔ ہندوستان میں ایک نہیں متعدد علاقوں میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ سری لنکا کے لوگوں نے 22 برس تک جس دہشت میں زندگی گزاری ہے، وہ ان سے پوچھیے۔ جدید دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری فوج تامل ٹائیگرز نے بنائی تھی۔ وہ بمبار طیارے، نیوی اور آبدوز سب کچھ رکھتے تھے۔ ان کی دہشت گردی کی دور تک دھاک جمی ہوئی تھی۔

اس تناظر میں مجھ سمیت دوسرے بہت سے قلم کار دہشت گردی کے بارے میں آج سے نہیں دس پندرہ برس سے لکھ رہے تھے۔ لگ بھگ دس برس پہلے میں نے لکھا تھا کہ سماجی علوم کے بیشتر ماہرین دہشت گردی کو ہمارے عہد کی سب سے خطرناک اور بڑی برائی قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی نے جس تیزی سے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اس کے سبب یہ ایٹمی جنگ سے بھی بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ بظاہر اس کے اثرات بہت محدود ہیں لیکن حقیقتاً یہ لامحدود اثرات رکھتی ہے اور یہ سماج کے ڈھانچے کو تہس نہس کر دیتی ہے۔

دہشت گردی کے عروج کا ایک سبب جنگوں، خانہ جنگیوں، قحط یا آفاتِ ارضی و سماوی کے سبب لوگوں کے بڑے بڑے جتھوں کی نقل مکانی اس کےعلاوہ روزگار کی بڑی پیمانے پر تلاش کے سبب ہونے والی نقل مکانی بھی ہے۔ یہ ترک وطن یا نقل مکانی مختلف مذاہب، تہذیبوں اور معاشروں کے لوگوں کو اپنی روایات اور اپنے اخلاقی نظام سے قطعاً متضاد معاشروں میں رسنے بسنے پر مجبور کرتی ہے جو ان کے اندر شدید ناراضگی اور نفرت کو جنم دیتی ہے جس کا آخری نتیجہ دہشت گردی اور تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

دنیا کے بڑے بڑے سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ پسماندہ معاشروں میں نقل مکانی نے لسانی، مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر تصادم کو جنم دیا ہے جب کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ سماجوں میں اس صورتحال نے نسلی امتیاز کو شدت سے ابھارا ہے جس کے نتیجے میں اسکن ہیڈ، نازی نوجوان اور سفید فام غنڈوں کے متعدد چھوٹے بڑے جتھے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ یہ سب کے سب اپنے علاقوں میں اکثریت سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں اور ان کی زندگی کا واحد مقصد اپنے علاقے میں آباد اقلیت کو مسلسل خوف میں مبتلا رکھنا، ان سے نفرت کرنا اور دہشت پھیلانے والی چھوٹی بڑی تشدد آمیز وارداتیں کرنا ہے۔


غرض تشدد اور دہشت گردی کی تیزی سے پھیلتی ہوئی عالمی لہر کی وجوہ خواہ کچھ بھی ہوں، ان سے سب سے بڑا خطرہ دنیا کی تمام جمہوریتوں اور جمہوریت پسندوں کو ہے۔ غریب ممالک ہوں یا امیر ہر جگہ کے دہشت گردوں کے خیال میں حقوق انسانی کی باتیں کمزور، کی حمایت کرنے کا رویہ اور تمام انسانوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے عزائم نہ صرف یہ کہ محض دیوانے کا خواب ہیں بلکہ یہ ریاست کی طرف سے ان کے حقوق پر ڈاکے کے مترادف ہیں۔ وہ اس ڈاکے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور طاقت کے ذریعے ان رجحانات اور رویوں کو کچل دینا چاہتے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ اپنا حق چھیننے کے لیے اصل ہتھیار طاقت ہے اور طاقت کے حصول کے لیے اسلحے اور روپے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسلحہ انھیں اپنے حریفوں اور مد مقابل پر برتری دلاتا ہے اور اس کے بَل پر وہ بینکوں کو لوٹ سکتے ہیں، بچوں کو یرغمال بنا سکتے ہیں، امیروں کو اغوا کر کے تاوان کی بھاری رقوم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد اور ایسے گروپوں کے لیے دہشت گردی ایمان کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔

تشدد پر ایمان رکھنے والوں کے لیے وہ سماج بطور خاص نہایت سازگار ہوتے ہیں جہاں دولت کی تقسیم میں بہت زیادہ ناہمواری ہو اور اس کے ساتھ ہی جہاں کے امیر اپنی دولت کی بے جا نمود و نمائش کو زندگی کا جزو لازم بنا چکے ہوں۔ جہاں ناخواندگی اور جہالت ہو، صحت عامہ کی ناگفتہ بہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے جہاں کی حکومت کوئی اقدام نہ کرتی ہو، جہاں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہوں اور اگر ہوں بھی تو ملازمتیں اہلیت نہیں سفارش کی بنیاد پر ملتی ہوں یا پھر بھاری رقوم کے عوض فروخت ہوتی ہوں۔ جہاں انصاف کا حصول غریب کے لیے ناممکن ہو اور جہاں کے امیر کم حیثیت افراد کی توہین کر کے خوش ہوتے ہوں اور جہاں کے سیاسی اور غیر سیاسی عناصر بدعنوانی، رشوت ستانی، ضمیر کی خرید و فروخت اور اقربا پروری کو اپنا طرۂ امتیاز سمجھتے ہوں۔

ان تمام عوامل کو سامنے رکھا جائے تو پھر اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات مسلسل عروج پر کیوں ہیں۔ پاکستان کے حالات آج سے نہیں گزشتہ پندرہ، بیس برس سے دہشت گردی کے جراثیم کی پرورش کے لیے بہت سازگار رہے ہیں۔ اب سے بیس پچیس برس پہلے دہشت گردی کے واقعات سنسنی خیز ناولوں یا مار دھاڑ سے بھرپور امریکی فلموں میں ملتے تھے۔ لیکن اب یہ ہمارے لیے روزمرہ کا معمول ہے۔ پہلے کراچی جیسے شہر میں چاقو زنی کی واردات بھی بڑی دہشتناک سمجھی جاتی تھی اور اب اگر دس منٹ میں بستی کی بستی خاک و خون میں ملا دی جائے تو اس پر بھی کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ اب نہ گھر سے باہر جانے والے محفوظ ہیں اور نہ گھر میں رہنے والے۔

تشدد اور دہشت گردی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور ان کے اندر عدم تحفظ کے احساس کو اس قدر راسخ کر دیا ہے کہ وہ لوگ یا خاندان جو کسی بڑے واقعے یا سانحے سے محفوظ ہیں وہ اسے اپنی خوش بختی خیال کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا خیال ہے کہ اس سماج میں دہشت گردی کا نشانہ بننا ہر شخص کا مقدر ہے چنانچہ مسئلہ دیر یا سویر کا ہے اور وہ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس قسم کی مایوس کن باتیں کرنے والوں کو ان کی اس نفسیاتی کیفیت پر زیادہ دوش بھی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ جہاں شاعروں، سینیٹروں، صحافیوں، ججوں، مذہبی رہنمائوں اور سیاستدانوں کی جان محفوظ نہیں، جہاں بڑے سے بڑے سردار کی بیٹی اور کھیت مزدور کی بیوی کی عزت محفوظ نہیں، وہاں لوگوں کی اجتماعی نفسیات یہ نہیں تو پھر اور کیا رنگ اختیار کرے گی۔

پچھلے دنوں تسلسل کے ساتھ کراچی اور کوئٹہ میں جو کچھ ہوا وہ لرزہ خیز ہے۔ ایک ایسے وقت جب انتخابات میں چند ہفتے رہ گئے ہیں۔ دہشت گردی کے اس عروج کی اصل ضرب جمہوریت اور جمہوری اداروں پر پڑتی ہے اور بات آہستہ آہستہ یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ لوگوں کا اعتبار کسی ایک حکومت، سیاسی جماعت یا کسی ایک صوبے کے سربراہ اور کسی ایک وزیراعظم پر سے نہیں اٹھتا بلکہ جمہوریت اور جمہوری اداروں پر ہی سے ان کا یقین ختم ہونے لگتا ہے اور یہ وہ خطرہ ہے جو اس وقت دنیا کے متعدد دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی لاحق ہے۔

یہ اعتراف کر لینے میں کیا ہرج ہے کہ پاکستان بڑی تیزی سے انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کوہی سر جوڑ کر سوچنا ہوگا کیونکہ یہ دونوں ہی ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔ اب اگر اس عمل کو ہی خطرہ درپیش ہو تو صورتحال حزب مخالف اور حکمران جماعت دونوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ دانش مندوں کا تو یہی کہنا ہے کہ جب بڑا خطرہ درپیش ہو تو چھوٹے جھگڑوں کو بھلا دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ذرا سوچیں، کیا ہم یہ کر رہے ہیں؟
Load Next Story