نمبر پلیٹ بن گئی نیم پلیٹ
ایک گاڑی کی نمبر پلیٹ ہے ’سرکار نوں نمبراں واسطے آکھیا اے‘ یعنی ’اپلائیڈ فار رجسٹریشن‘
آپ کی گاڑی چاہے موٹر سائیکل ہو، کار ہو یا کوئی بھی اور سواری۔ اس کی نمبر پلیٹ ایک ایسا لازمی حصہ ہے جسےفراموش نہیں کیا جاسکتا؛ اور نہ ہی نمبر پلیٹ کے بغیر روڈ پر سفر کیا جاسکتا ہے۔ یعنی قانونی طور پر گاڑی پر نمبر پلیٹ کا لگا ہوا ہونا ضروری ہے۔
آئیے نمبر پلیٹ کا مختصر تعارف حاصل کرتے ہیں۔
نمبر پلیٹ سب سے پہلے 14 اگست 1893 کو فرانس نے اپنے پیرس پولیس آرڈینینس میں متعارف کروائی اور اس کے بعد جرمنی نے 1896 میں۔ نیدر لینڈ وہ پہلا ملک تھا جس نے ملکی سطح پر رجسٹرڈ نمبر پلیٹس کا اجراء کیا جنہیں ''ڈرائیونگ پرمٹ'' کہا گیا۔ شروع میں یہ نمبر پلیٹس ایک ترتیب سے شروع ہوا کرتی تھیں جیسے کہ 1، 2 وغیرہ، لیکن 1906 میں یہ طریقہ تبدیل کردیا گیا۔
امریکہ میں نمبر پلیٹس کا اجراء 1903 میں عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح برطانیہ میں 1903 کے موٹرکار ایکٹ کے تحت نمبر پلیٹس کا اجراء یکم جنوری 1904 کو شروع ہوا۔
اب کچھ بات کرتے ہیں پاکستان میں استعمال کی جانے والی نمبر پلیٹس کی۔
پاکستان میں وفاقی دارالحکومت سمیت ہر صوبہ اپنی الگ نمبر پلیٹ جاری کرتا ہے۔ یہ کام ضلعی سطح پر کیا جاتا ہے یعنی ہر ضلعے کو نمبر پلیٹ جاری کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ ہر صوبے کی ایک مخصوص رنگ کی نمبر پلیٹ ہے۔ جیسا کہ سندھ میں کاروں کےلیے پیلے بیک گراؤنڈ پر کالی لکھائی ہوتی ہے جبکہ موٹر سائیکلوں کےلیے سفید بیک گراؤنڈ پر کالی لکھائی ہوتی ہے۔ پنجاب میں سفید اور سبز بیک گراؤنڈ پر کالی لکھائی ہوتی ہے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں رجسٹر کروائی جانے والی گاڑیوں کو جاری ہونے والی نمبر پلیٹس کا بیک گراؤنڈ سفید اور لکھائی کالی ہوتی ہے۔ اسی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رجسٹرڈ کروائی جانے والی گاڑیوں کو جاری ہونے والی نمبر پلیٹس کا بیک گراؤنڈ سفید اور لکھائی کالی ہوتی ہے۔
یہ تو ہوئی سرکاری سطح پر جاری کردہ نمبر پلیٹس کی بات۔ مگر ہمارے وطن عزیز میں پرائیویٹ سطح پر بھی نمبر پلیٹس جاری کرنے کا رواج عام ہے۔ لوگ اپنی مرضی کی نمبر پلیٹ لگواتے ہیں جس پر گاڑی کا نمبر نہایت مختصر اور باقی عبارت زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ گویا نمبر پلیٹ کم اور نیم پلیٹ بلکہ تعارفی پلیٹ زیادہ نظر آتی ہے۔
مثلاً ایک صاحب کی گاڑی کا نمبر ہے ''ایم این اے'' یعنی ''ممبر نیشنل اسمبلی۔'' اسی طرح ایک صاحب کی گاڑی کا نمبر ہے ''سرکار نوں نمبراں واسطے آکھیا اے'' یعنی ''اپلائیڈ فار رجسٹریشن'' اور ''پیار تے کراں پر تنخواہ بڑی تھوڑی اے۔''
اسی طرح کے بیش بہا نمونے ہمیں سڑکوں پر چلتے پھرتے نظر آتے رہتے ہیں۔ جب تک ہم ایسی نمبر پلیٹ نہ لگائیں، یوں لگتا ہے جیسے خاندانی رتبہ ظاہر نہیں ہوگا۔
عرض یہ ہے کہ نمبر پلیٹ کو نمبر پلیٹ ہی رہنے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ تعارف کےلیے آپ اور بہت سے دوسرے ذرائع استعمال کر سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آئیے نمبر پلیٹ کا مختصر تعارف حاصل کرتے ہیں۔
نمبر پلیٹ سب سے پہلے 14 اگست 1893 کو فرانس نے اپنے پیرس پولیس آرڈینینس میں متعارف کروائی اور اس کے بعد جرمنی نے 1896 میں۔ نیدر لینڈ وہ پہلا ملک تھا جس نے ملکی سطح پر رجسٹرڈ نمبر پلیٹس کا اجراء کیا جنہیں ''ڈرائیونگ پرمٹ'' کہا گیا۔ شروع میں یہ نمبر پلیٹس ایک ترتیب سے شروع ہوا کرتی تھیں جیسے کہ 1، 2 وغیرہ، لیکن 1906 میں یہ طریقہ تبدیل کردیا گیا۔
امریکہ میں نمبر پلیٹس کا اجراء 1903 میں عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح برطانیہ میں 1903 کے موٹرکار ایکٹ کے تحت نمبر پلیٹس کا اجراء یکم جنوری 1904 کو شروع ہوا۔
اب کچھ بات کرتے ہیں پاکستان میں استعمال کی جانے والی نمبر پلیٹس کی۔
پاکستان میں وفاقی دارالحکومت سمیت ہر صوبہ اپنی الگ نمبر پلیٹ جاری کرتا ہے۔ یہ کام ضلعی سطح پر کیا جاتا ہے یعنی ہر ضلعے کو نمبر پلیٹ جاری کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ ہر صوبے کی ایک مخصوص رنگ کی نمبر پلیٹ ہے۔ جیسا کہ سندھ میں کاروں کےلیے پیلے بیک گراؤنڈ پر کالی لکھائی ہوتی ہے جبکہ موٹر سائیکلوں کےلیے سفید بیک گراؤنڈ پر کالی لکھائی ہوتی ہے۔ پنجاب میں سفید اور سبز بیک گراؤنڈ پر کالی لکھائی ہوتی ہے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں رجسٹر کروائی جانے والی گاڑیوں کو جاری ہونے والی نمبر پلیٹس کا بیک گراؤنڈ سفید اور لکھائی کالی ہوتی ہے۔ اسی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رجسٹرڈ کروائی جانے والی گاڑیوں کو جاری ہونے والی نمبر پلیٹس کا بیک گراؤنڈ سفید اور لکھائی کالی ہوتی ہے۔
یہ تو ہوئی سرکاری سطح پر جاری کردہ نمبر پلیٹس کی بات۔ مگر ہمارے وطن عزیز میں پرائیویٹ سطح پر بھی نمبر پلیٹس جاری کرنے کا رواج عام ہے۔ لوگ اپنی مرضی کی نمبر پلیٹ لگواتے ہیں جس پر گاڑی کا نمبر نہایت مختصر اور باقی عبارت زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ گویا نمبر پلیٹ کم اور نیم پلیٹ بلکہ تعارفی پلیٹ زیادہ نظر آتی ہے۔
مثلاً ایک صاحب کی گاڑی کا نمبر ہے ''ایم این اے'' یعنی ''ممبر نیشنل اسمبلی۔'' اسی طرح ایک صاحب کی گاڑی کا نمبر ہے ''سرکار نوں نمبراں واسطے آکھیا اے'' یعنی ''اپلائیڈ فار رجسٹریشن'' اور ''پیار تے کراں پر تنخواہ بڑی تھوڑی اے۔''
اسی طرح کے بیش بہا نمونے ہمیں سڑکوں پر چلتے پھرتے نظر آتے رہتے ہیں۔ جب تک ہم ایسی نمبر پلیٹ نہ لگائیں، یوں لگتا ہے جیسے خاندانی رتبہ ظاہر نہیں ہوگا۔
عرض یہ ہے کہ نمبر پلیٹ کو نمبر پلیٹ ہی رہنے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ تعارف کےلیے آپ اور بہت سے دوسرے ذرائع استعمال کر سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔