ہری پیاز
عبوری حکومت بھی انھیں وہی پسند ہے جو دو تین سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک چلے۔
لاہور:
نہ تو یکایک ان کے دماغ گھوم گئے ہیں اور نہ ہی شوق بدل گئے ہیں بس یہ ہوا ہے کہ ایک نئے مرکز کی طرف جھک گئے ہیں، ہزماسٹرز وائس، ایک ہی ریکارڈ جگہ جگہ بج رہا ہے اور جمہوریت کی چھترول ہر چوک پر ہورہی ہے، یہ آج کی سب سے بڑی مجرم ہے۔ سب خرابیوں کی جڑ، انھیں الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، اس لیے کہ اگر ہوگئے تو پھر جمہوریت تازہ دم ہوکے لوٹ آئے گی، یہ صدمہ سہنا آسان نہ ہوگا۔
میں میڈیا اور اپنے بھائی بندوں کو عموماً ڈسکس نہیں کرتا لیکن اب اس کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ زندگی کے دستور کی ہر شق کی تشریح اب ان کے ذمے ہے، یہ چاہیں تو پانچ سیکنڈ میں اپنے لیپ ٹاپ سے کسی بھی قسم اور سائز کی بوتل والا جن برآمد کرلیں اور جب چاہیں تو ایک ''ٹویٹر''مار کے گاماں پہلوان کا بوتھا سجا دیں۔ سو طوعاً وکرہاً یہی موضوع جو دیر سے سامنے کھڑا سیاپا کر رہا ہے اسی کا ذکر حاضر ہے۔
الیکشن کون نہیں کروانا چاہتا؟ اس کے بارے میںکھل کے کوئی بات نہیں کرتا، کوئی نادیدہ قوت ہے جو یہ افواہیں اڑاتی ہے، شاید یہ کوئی بھوت ہے جس نے کنفیوژن پھیلانے میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، یہ جو بھی ہے، بڑے سلیقے سے اپنا کام کرتا ہے، پہلے سیاستدانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کیا اور ہر نوع کی خرابی ان کی جھولی میں ڈال دی۔ اب الیکشن کمیشن کی باری ہے، مولانا طاہر القادری نے صوبائی الیکشن کمشنروں کے معاملے میں سبکی کروالی اور پھوک نکلے ہوئے غبارے کی طرح اڑگئے تو اب کچھ لوگ براہ راست چیف الیکشن کمشنر کو نشانہ بنانے پر تلے ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ الیکشن کو کہیں گم کردیا جائے۔
بے چارے سیاستدان جو انتخابات میں ووٹرز کے ہاتھوں احتساب کی سولی پر چڑھائے جاتے ہیں ان میں سے کوئی الیکشن کے خلاف نہیں ہے حالانکہ ہمارے سیاسی نظام کی ناپختگی کے باعث جو خراب عناصر حکومت کا حصہ بن کے تباہی مچاتے ہیں الیکشن کی وجہ سے وہ بھی ووٹرز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، ہار جائیں تو ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ جمہوریت کی یہی چھلنی ہے جس نے اسے بہترین نظام حکومت بنا رکھا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت اور سیاستدانوں کو گالی دینے والے لوگ آمریت سے ان کے تعلق کو تبرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ سب آمریت کی پیداوار ہیں، اسی کے گملے میں اگے ہیں۔ ارے بھئی! یہاں ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں آمریت ہی ہوتی ہے، وہی رہی ہے، جمہوریت تو کبھی کبھار جھاکا مار کے آتی ہے پھر چلی جاتی ہے۔ یوں جیسے گھٹاؤں میں کبھی بجلی کی چمک، پھر کیا کریں؟ آمریت آئے تو کیا سیاستدان پیدا ہونا بند کردیں؟ ایسا ہوگیا تو عاشقان جمہوریت میں بس وہی لوگ باقی بچیں گے جو جوڑوں کے درد اور دمے کے مریض ہوں اور لاٹھی کے سہارے چلتے ہوں۔ لیکن قنوطی گروہ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔جن رہنماؤں نے آمریت کے ادوار میں آنکھ کھولی اور پھر بعد میں علم بغاوت بلند کرکے کفارہ ادا کردیا وہ انھیں بھی جڑ سمیت اکھاڑ کے واپس اسی گملے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عبوری حکومت بھی انھیں وہی پسند ہے جو دو تین سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک چلے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ آئین کے تحت تجویز کیے جانے والے ہر عبوری وزیر اعظم کے نام میں وہ ترنت لاتعداد جراثیم تلاش کرلیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں جمہوریت کی گاڑی چلتی ہی نہ جائے وہ چیخ چیخ کے ''اصلی اسٹیک ہولڈرز'' کو پکارنے لگتے ہیں۔ انھیں ستو پینے کے طعنے مارتے ہیں۔
افسوس جب بات بنی نہیں تو اب یہ لوگ بوکھلا چکے ہیں۔ اپنے سر کے بال نوچ نوچ کے ان سے لفظوں کے گلوبند بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں۔ ہارا ہوا جواری کیسی حرکات کرتا ہے، مجھے اس کا تجربہ نہیں لیکن اندازہ ہے کہ ان سے مختلف نہیں ہوتا ہوگا، انھی جیسی حرکات کرتا ہوگا اور انھوں نے تو اب آپس میں بھی لڑنا شروع کردیا ہے، جس طرح ہاری ہوئی ٹیم کے کھلاڑی اپنے کپتان اور کوچ کے بھی کپڑے نوچ ڈالتے ہیں، یہ بھی ایک دوسرے پر غرانے کا آغاز کرچکے ہیں، ناکامی جب یقینی دکھائی دے گی تو بڑا مزہ آئے گا۔
''وہ مجھے دیکھتی جاتی تھی اور میں اسے دیکھتا جاتا تھا، نہ پرچے کا حل اسے آتا تھا اور نہ پرچے کا حل مجھے آتا تھا۔''
اب جن لوگوں کو جمہوریت کی، الیکشن کی اور سیاستدانوں کی اہمیت ہی سمجھ میں نہیں آتی یا جن کے مغزکسی خاص خانے میں رکھے رکھے گل سڑ گئے ہیں ان کی بات سنی ہی کیوں جائے۔ یہ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کے ایٹم بم جیسے دھماکوں سے بھی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے جاری کردہ ''انقلاب'' نے تو آنا نہیں ہے، بس انھوں نے آنے والے الیکشن کا مزہ کرکرا کرنا ہے۔
آئیے! آخر میں آپ کو میں دو معزز صاحبان کی ایک معصومانہ سی گفتگو کا ایک ٹکڑا سناتا ہوں جو میں نے گزشتہ روز ٹی وی پر سنی۔ اس کا اوپر والے کالم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بڑے صاحب جو قوم کے لیے تیر بہدف دعائیں کرتے ہیں اور چھوٹے صاحب جو شاعری کرتے ہیں دونوں ہی اچھا کام کرتے ہیں لیکن اس روز وہ ایک لفظ پر اٹک گئے تھے، ان کی یہ پھنسی ہوئی گفتگو کچھ اس طرح تھی۔بڑے صاحب : ''ان صاحب کو چاہیے کہ وظیفہ پڑھنے کے ساتھ پھل اور سبزی کا استعمال بڑھائیں، خصوصاً پیاز کا استعمال۔ عام نہیں بلکہ وہ پیاز جس کی لمبی لمبی سی ٹہنیاں ہوتی ہیں۔''
چھوٹے صاحب : ''پیاز کے پردے؟''
بڑے صاحب: ''میرا مطلب ہے Spring Onion وہ پیاز جس کا سر زمین میں ہوتا ہے اور شاخیں باہر ہوتی ہیں۔
چھوٹے صاحب: ''آپ کا مطلب ہے لچھے دار پیاز؟''
بڑے صاحب: ''جی نہیں، وہ پیاز جس کی سبز رنگ کی زلفیں ہوتی ہیں۔''
چھوٹے صاحب: ''گھومتا ہوا پیاز؟''
بڑے صاحب: ''نہیں، ایک طرف پیاز ہوتا ہے اور دوسری طرف لمبی لمبی لٹیں سی ہوتی ہیں اور اسے پتہ نہیں کیا کہتے ہیں، میں اس وقت بھول رہا ہوں۔''
تو ناظرین آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہوگا کہ کبھی کوئی عام سا لفظ بھول جاتا ہوگا، بڑے بڑے عالم بھول جاتے ہیں، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر یہ گفتگو سیاسی پروگرام میں ہوتی تو پتہ ہے کیاہونا تھا؟ جوتے چل جاتے تھے۔
نوٹ: دونوں معزز صاحبان کیا کہنا چاہ رہے تھے؟ جو دوست ابھی تک نہیں سمجھے وہ آج کا عنوان دیکھ لیں۔
نہ تو یکایک ان کے دماغ گھوم گئے ہیں اور نہ ہی شوق بدل گئے ہیں بس یہ ہوا ہے کہ ایک نئے مرکز کی طرف جھک گئے ہیں، ہزماسٹرز وائس، ایک ہی ریکارڈ جگہ جگہ بج رہا ہے اور جمہوریت کی چھترول ہر چوک پر ہورہی ہے، یہ آج کی سب سے بڑی مجرم ہے۔ سب خرابیوں کی جڑ، انھیں الیکشن ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، اس لیے کہ اگر ہوگئے تو پھر جمہوریت تازہ دم ہوکے لوٹ آئے گی، یہ صدمہ سہنا آسان نہ ہوگا۔
میں میڈیا اور اپنے بھائی بندوں کو عموماً ڈسکس نہیں کرتا لیکن اب اس کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ زندگی کے دستور کی ہر شق کی تشریح اب ان کے ذمے ہے، یہ چاہیں تو پانچ سیکنڈ میں اپنے لیپ ٹاپ سے کسی بھی قسم اور سائز کی بوتل والا جن برآمد کرلیں اور جب چاہیں تو ایک ''ٹویٹر''مار کے گاماں پہلوان کا بوتھا سجا دیں۔ سو طوعاً وکرہاً یہی موضوع جو دیر سے سامنے کھڑا سیاپا کر رہا ہے اسی کا ذکر حاضر ہے۔
الیکشن کون نہیں کروانا چاہتا؟ اس کے بارے میںکھل کے کوئی بات نہیں کرتا، کوئی نادیدہ قوت ہے جو یہ افواہیں اڑاتی ہے، شاید یہ کوئی بھوت ہے جس نے کنفیوژن پھیلانے میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، یہ جو بھی ہے، بڑے سلیقے سے اپنا کام کرتا ہے، پہلے سیاستدانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کیا اور ہر نوع کی خرابی ان کی جھولی میں ڈال دی۔ اب الیکشن کمیشن کی باری ہے، مولانا طاہر القادری نے صوبائی الیکشن کمشنروں کے معاملے میں سبکی کروالی اور پھوک نکلے ہوئے غبارے کی طرح اڑگئے تو اب کچھ لوگ براہ راست چیف الیکشن کمشنر کو نشانہ بنانے پر تلے ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ الیکشن کو کہیں گم کردیا جائے۔
بے چارے سیاستدان جو انتخابات میں ووٹرز کے ہاتھوں احتساب کی سولی پر چڑھائے جاتے ہیں ان میں سے کوئی الیکشن کے خلاف نہیں ہے حالانکہ ہمارے سیاسی نظام کی ناپختگی کے باعث جو خراب عناصر حکومت کا حصہ بن کے تباہی مچاتے ہیں الیکشن کی وجہ سے وہ بھی ووٹرز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، ہار جائیں تو ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ جمہوریت کی یہی چھلنی ہے جس نے اسے بہترین نظام حکومت بنا رکھا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت اور سیاستدانوں کو گالی دینے والے لوگ آمریت سے ان کے تعلق کو تبرے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ سب آمریت کی پیداوار ہیں، اسی کے گملے میں اگے ہیں۔ ارے بھئی! یہاں ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں آمریت ہی ہوتی ہے، وہی رہی ہے، جمہوریت تو کبھی کبھار جھاکا مار کے آتی ہے پھر چلی جاتی ہے۔ یوں جیسے گھٹاؤں میں کبھی بجلی کی چمک، پھر کیا کریں؟ آمریت آئے تو کیا سیاستدان پیدا ہونا بند کردیں؟ ایسا ہوگیا تو عاشقان جمہوریت میں بس وہی لوگ باقی بچیں گے جو جوڑوں کے درد اور دمے کے مریض ہوں اور لاٹھی کے سہارے چلتے ہوں۔ لیکن قنوطی گروہ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔جن رہنماؤں نے آمریت کے ادوار میں آنکھ کھولی اور پھر بعد میں علم بغاوت بلند کرکے کفارہ ادا کردیا وہ انھیں بھی جڑ سمیت اکھاڑ کے واپس اسی گملے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عبوری حکومت بھی انھیں وہی پسند ہے جو دو تین سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک چلے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ آئین کے تحت تجویز کیے جانے والے ہر عبوری وزیر اعظم کے نام میں وہ ترنت لاتعداد جراثیم تلاش کرلیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں جمہوریت کی گاڑی چلتی ہی نہ جائے وہ چیخ چیخ کے ''اصلی اسٹیک ہولڈرز'' کو پکارنے لگتے ہیں۔ انھیں ستو پینے کے طعنے مارتے ہیں۔
افسوس جب بات بنی نہیں تو اب یہ لوگ بوکھلا چکے ہیں۔ اپنے سر کے بال نوچ نوچ کے ان سے لفظوں کے گلوبند بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں۔ ہارا ہوا جواری کیسی حرکات کرتا ہے، مجھے اس کا تجربہ نہیں لیکن اندازہ ہے کہ ان سے مختلف نہیں ہوتا ہوگا، انھی جیسی حرکات کرتا ہوگا اور انھوں نے تو اب آپس میں بھی لڑنا شروع کردیا ہے، جس طرح ہاری ہوئی ٹیم کے کھلاڑی اپنے کپتان اور کوچ کے بھی کپڑے نوچ ڈالتے ہیں، یہ بھی ایک دوسرے پر غرانے کا آغاز کرچکے ہیں، ناکامی جب یقینی دکھائی دے گی تو بڑا مزہ آئے گا۔
''وہ مجھے دیکھتی جاتی تھی اور میں اسے دیکھتا جاتا تھا، نہ پرچے کا حل اسے آتا تھا اور نہ پرچے کا حل مجھے آتا تھا۔''
اب جن لوگوں کو جمہوریت کی، الیکشن کی اور سیاستدانوں کی اہمیت ہی سمجھ میں نہیں آتی یا جن کے مغزکسی خاص خانے میں رکھے رکھے گل سڑ گئے ہیں ان کی بات سنی ہی کیوں جائے۔ یہ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کے ایٹم بم جیسے دھماکوں سے بھی سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے جاری کردہ ''انقلاب'' نے تو آنا نہیں ہے، بس انھوں نے آنے والے الیکشن کا مزہ کرکرا کرنا ہے۔
آئیے! آخر میں آپ کو میں دو معزز صاحبان کی ایک معصومانہ سی گفتگو کا ایک ٹکڑا سناتا ہوں جو میں نے گزشتہ روز ٹی وی پر سنی۔ اس کا اوپر والے کالم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بڑے صاحب جو قوم کے لیے تیر بہدف دعائیں کرتے ہیں اور چھوٹے صاحب جو شاعری کرتے ہیں دونوں ہی اچھا کام کرتے ہیں لیکن اس روز وہ ایک لفظ پر اٹک گئے تھے، ان کی یہ پھنسی ہوئی گفتگو کچھ اس طرح تھی۔بڑے صاحب : ''ان صاحب کو چاہیے کہ وظیفہ پڑھنے کے ساتھ پھل اور سبزی کا استعمال بڑھائیں، خصوصاً پیاز کا استعمال۔ عام نہیں بلکہ وہ پیاز جس کی لمبی لمبی سی ٹہنیاں ہوتی ہیں۔''
چھوٹے صاحب : ''پیاز کے پردے؟''
بڑے صاحب: ''میرا مطلب ہے Spring Onion وہ پیاز جس کا سر زمین میں ہوتا ہے اور شاخیں باہر ہوتی ہیں۔
چھوٹے صاحب: ''آپ کا مطلب ہے لچھے دار پیاز؟''
بڑے صاحب: ''جی نہیں، وہ پیاز جس کی سبز رنگ کی زلفیں ہوتی ہیں۔''
چھوٹے صاحب: ''گھومتا ہوا پیاز؟''
بڑے صاحب: ''نہیں، ایک طرف پیاز ہوتا ہے اور دوسری طرف لمبی لمبی لٹیں سی ہوتی ہیں اور اسے پتہ نہیں کیا کہتے ہیں، میں اس وقت بھول رہا ہوں۔''
تو ناظرین آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہوگا کہ کبھی کوئی عام سا لفظ بھول جاتا ہوگا، بڑے بڑے عالم بھول جاتے ہیں، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر یہ گفتگو سیاسی پروگرام میں ہوتی تو پتہ ہے کیاہونا تھا؟ جوتے چل جاتے تھے۔
نوٹ: دونوں معزز صاحبان کیا کہنا چاہ رہے تھے؟ جو دوست ابھی تک نہیں سمجھے وہ آج کا عنوان دیکھ لیں۔