آپ اپنے بچوں کو بچائیے
لاہور میں میرے ایک جاننے والا کا اکلوتا جوان بیٹا چرس پینے سے مرگیا‘ یہ بچہ پڑھنے کے لیے باہر جا رہا تھا۔
بہارہ کہو اسلام آباد کے مضافات میں ایک چھوٹی سی بستی ہے' بہارہ کہو میں گیارہ سال کی بچی شہزادی رہتی تھی' یہ غریب ماں باپ کی بیٹی تھی' یہ شام کے وقت زارا مہک کے گھر ٹیوشن پڑھنے جاتی تھی' زارا مہک نے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس کر رکھا تھا' اس کے والد او جی ڈی سی میں نائب قاصد تھے' شہزادی تیرہ فروری کو ٹیوشن پڑھنے گئی اور گھر واپس نہیں آئی' والدین نے تھانے میں رپورٹ کرا دی' بچی کی لاش تین دن بعد آئی نائین انڈسٹریل ایریا کے ایک گٹر سے ملی' بچی کو قتل کر کے اس کی نعش پر پٹرول چھڑک کر اسے جلا دیا گیا تھا۔
نعش سوفیصد جل گی تھی'والدین نے بچی کو اس کے دانتوں سے پہچانا' بچی کے لواحقین نے 17 فروری کو لاش سڑک پر رکھ کر ٹریفک بلاک کر دی' میڈیا پر خبر آئی ' چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لے لیا' ایس پی کیپٹن الیاس نے تفتیش شروع کر دی' یہ نوجوان ایس پی الجھے ہوئے کیس حل کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا ہے' کیپٹن الیاس نے بہارہ کہو اور آئی نائین کے فون ٹاورز کا ڈیٹا نکلوایا' بچی کے اغواء کے دن دونوں ٹاوروں سے 40 لاکھ کالز ہوئی تھیں' کیپٹن الیاس نے چالیس لاکھ میں سے ایسے لوگ الگ کیے جو اس دن بہارہ کہو اور آئی نائین دونوں جگہوں کے درمیان آتے جاتے رہے۔
یہ پچاس ہزار لوگ تھے' ان میں سے ایسے لوگ الگ کیے گئے جو آئی نائین سے بہارہ کہو گئے اور پھر واپس آئی نائین آئے' یہ بیس ہزار لوگ تھے' ان میں سے ایسے لوگ الگ کیے گئے جو صرف اس دن بہارہ کہو گئے اور واپس آئے اور یہ عام دنوں میں بہارہ کہو نہیں جاتے تھے' یہ ساڑھے بارہ سو لوگ تھے' پولیس نے ان ساڑھے بارہ سو میں سے ایسے نمبر الگ کیے جو صرف اس دن استعمال ہوئے اور عام دنوں میں بند رہتے ہیں' بہر حال قصہ مختصر پولیس ایک نمبر تک پہنچ گئی۔
اس نمبر سے بچی کی ٹیوٹر زارا مہک کے نمبر پر مس کال دی گئی تھی' پولیس نے زارا کو گرفتار کر لیا' تفتیش کے دوران اس سے اس نمبر کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ گھبرا گئی' مزید تفتیش ہوئی تو معلوم ہوا '' مشکوک'' فون سے بہارہ کہو کے ایک نمبر پر مسلسل کالز اور ایس ایم ایس آتے تھے' یہ زارا مہلک کا دوسرا نمبر تھا' پولیس نے یہ فون برآمد کر لیا' اس کے بعدپولیس کے سامنے ایک لرزہ خیزا سٹوری آئی۔
زارا مہک 2009ء سے ابرار قاضی کی محبت میں گرفتار تھی' ابرار ایم بی اے تھا' پڑھا لکھا اور خوبصورت تھا اور یہ آئی نائین کی ایک اسٹیل مل میں ایچ آر منیجر تھا' یہ دونوں زندگی میں ''تھرل'' کرنا چاہتے تھے اور زارا مہک نے اس تھرل میں گیارہ سال کی معصوم بچی ابرار کے حوالے کر دی' پولیس اسٹوری کے مطابق زارا نے بچی کا گلا دبایا' بچی بے ہوش ہو گئی' لڑکا بہارہ کہو پہنچا' اس نے بچی کو چادر میں لپیٹا' اس کے بعد اسے پلاسٹک کے بڑے بیگ میں ڈالا اور اس کے بعد اسے بوری میں بند کر کے کندھے پر اٹھایا اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا' راستے میں بچی سانس لینے کی کوشش کرتی تھی تو یہ ٹیکسی کا شیشہ نیچے کر دیتا تھا۔
موبائل پر گانے لگا دیتا تھا اور ٹیکسی ڈرائیور کو باتوں میں الجھا دیتا تھا' یہ بچی کو آئی نائین اپنے کمرے میں لے گیا' پولیس کا کہنا ہے کہ بچی اس وقت تک مرچکی تھی' اس نے مری ہوئی بچی سے زیادتی کی' بعد ازاں اسے دوبارہ بوری میں ڈالا' جنگل میں گیا اور نعش خشک نالے میں پھینک دی' اس نے واپس جاتے ہوئے زارا مہک کو کال کر کے بتایا '' میں نے نعش نالے میں پھینک دی ہے'' زارا نے اسے ایس ایم ایس کیا ''تم نعش کو دفن کر دو یا پھر جلا دو'' یہ پٹرول پمپ پر گیا' اس نے وہاں سے پٹرول لیا' واپس نالے پر آیا اور نعش کو آگ لگا دی۔
کیپٹن الیاس نے یہ ایس ایم ایس پکڑ لیے اور اس کے بعد کیس کھل گیا۔ پولیس کو تفتیش کے دوران معلوم ہوا یہ ان لوگوں کی اس نوعیت کی پہلی واردات نہیں' یہ اس سے قبل ایس پی حاکم علی کی جوان بیٹی کو قتل کر چکے ہیں' یہ لڑکی زارا مہک کی سہیلی اور کلاس فیلو تھی' یہ عموماً پڑھنے کے لیے زارا مہک کے گھر چلی جاتی تھی اور رات کو اس کے پاس ٹھہر جاتی تھی' یہ ایک رات زارا مہک کے پاس رک گئی' ابرار رات کے وقت آیا' ان دونوں نے اس کا گلا دبایا' وہ بے ہوش ہو گئی اور ابرار نے بے ہوشی کے عالم میں اس کے ساتھ زیادتی کی' یہ لڑکی بھی مر گئی' ابرار واپس چلا گیا۔
پولیس کہانی کہتی ہے کہ زارا مردہ لڑکی کے ساتھ سو گئی اور اس نے صبح اٹھ کر شور مچا دیا، میری سہیلی سوتے ہوئے مر گئی' زارا نے بعد ازاں ایس پی حاکم کو بتایا آپ کی بیٹی ڈرگز استعمال کرتی تھی' میں اس کو منع کرتی تھی لیکن یہ باز نہیں آتی تھی' رات اس نے ڈرگز لیں اور شاید یہ ان ڈرگز کی وجہ سے فوت ہو گئی' حاکم علی نے اس کہانی پر یقین کر لیا اور یوں یہ لوگ پولیس سے بچ گئے' یہ اس کے علاوہ بھی اس قسم کی وارداتیں کر چکے ہیں لیکن یہ ابھی سامنے نہیں آئیں۔ اب زارا مہک بہارہ کہو کیس میں جیل میں ہے۔
یہ اس نوعیت کا پہلا کیس نہیں' ملک میں آئے روز ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں' والدین ٹیوشن پڑھانے کے لیے بچیوں کو دوسروں کے گھر بھیج دیتے ہیں اور وہاں بچیوں کی عزت بھی چلی جاتی ہے اور بعض اوقات جان بھی۔ ہمارے والدین بالخصوص بچیوں کے والدین کو احتیاط کرنی چاہیے' ہم والدین چھوٹے بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں' ملک میں ایسے بے شمار گینگ موجود ہیں جوگھروں کے گیٹس یا دہلیز پر کھڑے بچوں کو اٹھا لے جاتے ہیں' یہ لوگ موٹر سائیکل پر ہوتے ہیں' ایک ملزم موٹر سائیکل چلاتا ہے جب کہ دوسرا پیچھے بیٹھا ہوتا ہے' پیچھے بیٹھا ملزم بچے کو اٹھاتا ہے' اسے کلورو فارم سونگھاتا ہے' بچہ بے ہوش ہو جاتا ہے' یہ اسے کندھے کے ساتھ لگالیتا ہے اور یہ دونوں غائب ہو جاتے ہیں' چھوٹی بچیاں ان کا خصوصی ہدف ہوتی ہیں۔
یہ واردات اسلام آباد میں عام ہے' والدین چھوٹے بچوں کو گیٹ سے باہر نہ نکلنے دیں' والدین بچیوں کو ٹیوشن کے لیے بھی دوسروں کے گھر نہ بھجوائیں' اگر ضروری ہو تو بچیوں کو گروپ کی شکل میں بھجوائیں' تین چار بچیاں اکٹھی جائیں اور اکٹھی واپس آئیں' اگر گھر کی کوئی بزرگ خاتون بچیوں کے ساتھ چلی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا' بچیوں کا دادا یا کوئی بزرگ بھی ساتھ جا سکتا ہے' یہ کوئی کتاب یا ریڈیو ساتھ لے جائے اور باہر بیٹھ کر ریڈیو سنتا رہے یا کتاب پڑھتا رہے۔والدین بچیوں کو کسی بھی قیمت پر سہیلی کے گھر رکنے کی اجازت نہ دیں' یہ بچیوں کو رات کے وقت کسی عزیز رشتے دار کے گھر بھی ٹھہرنے کی اجازت نہ دیں' مائیں بچیوں کے کمروں' الماریوں اور بیگز کی تلاشی لیتی رہیں۔
اگرانھیں وہاں کوئی اضافی موبائل ملے تو یہ اسے الارم سمجھیں کیونکہ بچی کو دوسرا موبائل رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کی بچی کے پاس دوسری سم بھی نہیں ہونی چاہیے' آپ یہ بھی دیکھئے کیا آپ کی بچی کا لائف اسٹائل' اس کے کپڑے' اس کے پرفیومز' اس کے زیورات اور اس کے جوتے اس کی پاکٹ منی سے میچ کرتے ہیں؟ آپ کی بچی گفٹ لے کرتو گھر نہیں آرہی؟ اس کے پرس سے پیسے تو نہیں نکلتے؟ اور یہ بار بار موبائل سیٹ تو تبدیل نہیں کر رہی؟ اگر ایسا ہے تو آپ تحقیق ضرور کریں' آپ بچیوں کو پارٹیوں' گیٹ ٹو گیدرز اور سالگروں میں بھی نہ جانے دیں' اگر جانا ضروری ہو تو والدہ ساتھ جائے' اگر یہ ممکن نہ ہو تو آپ بچی کو خودڈراپ کریں اور خود واپس لے کر آئیں۔
کراچی' لاہور اور اسلام آباد میں آج کل زہریلی منشیات بھی بک رہی ہیں' پچھلے دو ماہ میں تین چار سو جوان لڑکے زہریلی چرس اور جعلی شراب پینے سے مر چکے ہیں' یہ اعلیٰ خاندانوں کے پڑھے لکھے جوان بچے تھے' کراچی میں چند دن قبل ایک خوبصورت باڈی بلڈر نوجوان مر گیا' اس نے چرس کا سگریٹ پیا اور درجنوں لوگوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی' لاہور میں میرے ایک جاننے والا کا اکلوتا جوان بیٹا چرس پینے سے مرگیا' یہ بچہ پڑھنے کے لیے باہر جا رہا تھا' اگلے دن اس کی فلائیٹ تھی' یہ رات کو دوستوں کے ساتھ پارٹی پر گیا۔
وہاں کسی دوست نے اسے چرس کا سگریٹ دے دیا' بچے نے دو کش لگائے' نیچے گرا اور چار منٹ میں اس کی جان نکل گئی' اس چرس میں ہیروئن اور کوکین کے کیمیکل ہوتے ہیں' یہ انتہائی مہلک ہے اور ملک بھر میں دھڑا دھڑ نوجوان بچے مر رہے ہیں' ملک میں جعلی شراب بھی عام بک رہی ہے' یہ بڑے برانڈز کی بوتلوں میں ہوتی ہے اور یہ روزانہ کسی نہ کسی کی جان لے لیتی ہے اور والدین اپنی عزت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں' آپ کو اگر اپنے بچوں سے محبت ہے تو آپ فوراً ان باتوں پر توجہ دیں ورنہ وقت آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور جاتے جاتے آپ کے بیٹے یا بیٹی کو بھی ساتھ لے جائے گا۔
نعش سوفیصد جل گی تھی'والدین نے بچی کو اس کے دانتوں سے پہچانا' بچی کے لواحقین نے 17 فروری کو لاش سڑک پر رکھ کر ٹریفک بلاک کر دی' میڈیا پر خبر آئی ' چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لے لیا' ایس پی کیپٹن الیاس نے تفتیش شروع کر دی' یہ نوجوان ایس پی الجھے ہوئے کیس حل کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا ہے' کیپٹن الیاس نے بہارہ کہو اور آئی نائین کے فون ٹاورز کا ڈیٹا نکلوایا' بچی کے اغواء کے دن دونوں ٹاوروں سے 40 لاکھ کالز ہوئی تھیں' کیپٹن الیاس نے چالیس لاکھ میں سے ایسے لوگ الگ کیے جو اس دن بہارہ کہو اور آئی نائین دونوں جگہوں کے درمیان آتے جاتے رہے۔
یہ پچاس ہزار لوگ تھے' ان میں سے ایسے لوگ الگ کیے گئے جو آئی نائین سے بہارہ کہو گئے اور پھر واپس آئی نائین آئے' یہ بیس ہزار لوگ تھے' ان میں سے ایسے لوگ الگ کیے گئے جو صرف اس دن بہارہ کہو گئے اور واپس آئے اور یہ عام دنوں میں بہارہ کہو نہیں جاتے تھے' یہ ساڑھے بارہ سو لوگ تھے' پولیس نے ان ساڑھے بارہ سو میں سے ایسے نمبر الگ کیے جو صرف اس دن استعمال ہوئے اور عام دنوں میں بند رہتے ہیں' بہر حال قصہ مختصر پولیس ایک نمبر تک پہنچ گئی۔
اس نمبر سے بچی کی ٹیوٹر زارا مہک کے نمبر پر مس کال دی گئی تھی' پولیس نے زارا کو گرفتار کر لیا' تفتیش کے دوران اس سے اس نمبر کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ گھبرا گئی' مزید تفتیش ہوئی تو معلوم ہوا '' مشکوک'' فون سے بہارہ کہو کے ایک نمبر پر مسلسل کالز اور ایس ایم ایس آتے تھے' یہ زارا مہلک کا دوسرا نمبر تھا' پولیس نے یہ فون برآمد کر لیا' اس کے بعدپولیس کے سامنے ایک لرزہ خیزا سٹوری آئی۔
زارا مہک 2009ء سے ابرار قاضی کی محبت میں گرفتار تھی' ابرار ایم بی اے تھا' پڑھا لکھا اور خوبصورت تھا اور یہ آئی نائین کی ایک اسٹیل مل میں ایچ آر منیجر تھا' یہ دونوں زندگی میں ''تھرل'' کرنا چاہتے تھے اور زارا مہک نے اس تھرل میں گیارہ سال کی معصوم بچی ابرار کے حوالے کر دی' پولیس اسٹوری کے مطابق زارا نے بچی کا گلا دبایا' بچی بے ہوش ہو گئی' لڑکا بہارہ کہو پہنچا' اس نے بچی کو چادر میں لپیٹا' اس کے بعد اسے پلاسٹک کے بڑے بیگ میں ڈالا اور اس کے بعد اسے بوری میں بند کر کے کندھے پر اٹھایا اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا' راستے میں بچی سانس لینے کی کوشش کرتی تھی تو یہ ٹیکسی کا شیشہ نیچے کر دیتا تھا۔
موبائل پر گانے لگا دیتا تھا اور ٹیکسی ڈرائیور کو باتوں میں الجھا دیتا تھا' یہ بچی کو آئی نائین اپنے کمرے میں لے گیا' پولیس کا کہنا ہے کہ بچی اس وقت تک مرچکی تھی' اس نے مری ہوئی بچی سے زیادتی کی' بعد ازاں اسے دوبارہ بوری میں ڈالا' جنگل میں گیا اور نعش خشک نالے میں پھینک دی' اس نے واپس جاتے ہوئے زارا مہک کو کال کر کے بتایا '' میں نے نعش نالے میں پھینک دی ہے'' زارا نے اسے ایس ایم ایس کیا ''تم نعش کو دفن کر دو یا پھر جلا دو'' یہ پٹرول پمپ پر گیا' اس نے وہاں سے پٹرول لیا' واپس نالے پر آیا اور نعش کو آگ لگا دی۔
کیپٹن الیاس نے یہ ایس ایم ایس پکڑ لیے اور اس کے بعد کیس کھل گیا۔ پولیس کو تفتیش کے دوران معلوم ہوا یہ ان لوگوں کی اس نوعیت کی پہلی واردات نہیں' یہ اس سے قبل ایس پی حاکم علی کی جوان بیٹی کو قتل کر چکے ہیں' یہ لڑکی زارا مہک کی سہیلی اور کلاس فیلو تھی' یہ عموماً پڑھنے کے لیے زارا مہک کے گھر چلی جاتی تھی اور رات کو اس کے پاس ٹھہر جاتی تھی' یہ ایک رات زارا مہک کے پاس رک گئی' ابرار رات کے وقت آیا' ان دونوں نے اس کا گلا دبایا' وہ بے ہوش ہو گئی اور ابرار نے بے ہوشی کے عالم میں اس کے ساتھ زیادتی کی' یہ لڑکی بھی مر گئی' ابرار واپس چلا گیا۔
پولیس کہانی کہتی ہے کہ زارا مردہ لڑکی کے ساتھ سو گئی اور اس نے صبح اٹھ کر شور مچا دیا، میری سہیلی سوتے ہوئے مر گئی' زارا نے بعد ازاں ایس پی حاکم کو بتایا آپ کی بیٹی ڈرگز استعمال کرتی تھی' میں اس کو منع کرتی تھی لیکن یہ باز نہیں آتی تھی' رات اس نے ڈرگز لیں اور شاید یہ ان ڈرگز کی وجہ سے فوت ہو گئی' حاکم علی نے اس کہانی پر یقین کر لیا اور یوں یہ لوگ پولیس سے بچ گئے' یہ اس کے علاوہ بھی اس قسم کی وارداتیں کر چکے ہیں لیکن یہ ابھی سامنے نہیں آئیں۔ اب زارا مہک بہارہ کہو کیس میں جیل میں ہے۔
یہ اس نوعیت کا پہلا کیس نہیں' ملک میں آئے روز ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں' والدین ٹیوشن پڑھانے کے لیے بچیوں کو دوسروں کے گھر بھیج دیتے ہیں اور وہاں بچیوں کی عزت بھی چلی جاتی ہے اور بعض اوقات جان بھی۔ ہمارے والدین بالخصوص بچیوں کے والدین کو احتیاط کرنی چاہیے' ہم والدین چھوٹے بچوں کو گھر سے باہر نہ جانے دیں' ملک میں ایسے بے شمار گینگ موجود ہیں جوگھروں کے گیٹس یا دہلیز پر کھڑے بچوں کو اٹھا لے جاتے ہیں' یہ لوگ موٹر سائیکل پر ہوتے ہیں' ایک ملزم موٹر سائیکل چلاتا ہے جب کہ دوسرا پیچھے بیٹھا ہوتا ہے' پیچھے بیٹھا ملزم بچے کو اٹھاتا ہے' اسے کلورو فارم سونگھاتا ہے' بچہ بے ہوش ہو جاتا ہے' یہ اسے کندھے کے ساتھ لگالیتا ہے اور یہ دونوں غائب ہو جاتے ہیں' چھوٹی بچیاں ان کا خصوصی ہدف ہوتی ہیں۔
یہ واردات اسلام آباد میں عام ہے' والدین چھوٹے بچوں کو گیٹ سے باہر نہ نکلنے دیں' والدین بچیوں کو ٹیوشن کے لیے بھی دوسروں کے گھر نہ بھجوائیں' اگر ضروری ہو تو بچیوں کو گروپ کی شکل میں بھجوائیں' تین چار بچیاں اکٹھی جائیں اور اکٹھی واپس آئیں' اگر گھر کی کوئی بزرگ خاتون بچیوں کے ساتھ چلی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا' بچیوں کا دادا یا کوئی بزرگ بھی ساتھ جا سکتا ہے' یہ کوئی کتاب یا ریڈیو ساتھ لے جائے اور باہر بیٹھ کر ریڈیو سنتا رہے یا کتاب پڑھتا رہے۔والدین بچیوں کو کسی بھی قیمت پر سہیلی کے گھر رکنے کی اجازت نہ دیں' یہ بچیوں کو رات کے وقت کسی عزیز رشتے دار کے گھر بھی ٹھہرنے کی اجازت نہ دیں' مائیں بچیوں کے کمروں' الماریوں اور بیگز کی تلاشی لیتی رہیں۔
اگرانھیں وہاں کوئی اضافی موبائل ملے تو یہ اسے الارم سمجھیں کیونکہ بچی کو دوسرا موبائل رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کی بچی کے پاس دوسری سم بھی نہیں ہونی چاہیے' آپ یہ بھی دیکھئے کیا آپ کی بچی کا لائف اسٹائل' اس کے کپڑے' اس کے پرفیومز' اس کے زیورات اور اس کے جوتے اس کی پاکٹ منی سے میچ کرتے ہیں؟ آپ کی بچی گفٹ لے کرتو گھر نہیں آرہی؟ اس کے پرس سے پیسے تو نہیں نکلتے؟ اور یہ بار بار موبائل سیٹ تو تبدیل نہیں کر رہی؟ اگر ایسا ہے تو آپ تحقیق ضرور کریں' آپ بچیوں کو پارٹیوں' گیٹ ٹو گیدرز اور سالگروں میں بھی نہ جانے دیں' اگر جانا ضروری ہو تو والدہ ساتھ جائے' اگر یہ ممکن نہ ہو تو آپ بچی کو خودڈراپ کریں اور خود واپس لے کر آئیں۔
کراچی' لاہور اور اسلام آباد میں آج کل زہریلی منشیات بھی بک رہی ہیں' پچھلے دو ماہ میں تین چار سو جوان لڑکے زہریلی چرس اور جعلی شراب پینے سے مر چکے ہیں' یہ اعلیٰ خاندانوں کے پڑھے لکھے جوان بچے تھے' کراچی میں چند دن قبل ایک خوبصورت باڈی بلڈر نوجوان مر گیا' اس نے چرس کا سگریٹ پیا اور درجنوں لوگوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی' لاہور میں میرے ایک جاننے والا کا اکلوتا جوان بیٹا چرس پینے سے مرگیا' یہ بچہ پڑھنے کے لیے باہر جا رہا تھا' اگلے دن اس کی فلائیٹ تھی' یہ رات کو دوستوں کے ساتھ پارٹی پر گیا۔
وہاں کسی دوست نے اسے چرس کا سگریٹ دے دیا' بچے نے دو کش لگائے' نیچے گرا اور چار منٹ میں اس کی جان نکل گئی' اس چرس میں ہیروئن اور کوکین کے کیمیکل ہوتے ہیں' یہ انتہائی مہلک ہے اور ملک بھر میں دھڑا دھڑ نوجوان بچے مر رہے ہیں' ملک میں جعلی شراب بھی عام بک رہی ہے' یہ بڑے برانڈز کی بوتلوں میں ہوتی ہے اور یہ روزانہ کسی نہ کسی کی جان لے لیتی ہے اور والدین اپنی عزت کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں' آپ کو اگر اپنے بچوں سے محبت ہے تو آپ فوراً ان باتوں پر توجہ دیں ورنہ وقت آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور جاتے جاتے آپ کے بیٹے یا بیٹی کو بھی ساتھ لے جائے گا۔