حلقہ بندی ترمیمی بل یا معمہ

یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کے شفاف انتخابات کے لیے تعاون سے انتخابی عمل کی ساکھ بڑھانے میں مدد ملے گی۔

پاکستان کا انتخابی عمل بہتر بنانے کے لیے جاپانی حکومت اور یو این ڈی پی کے درمیان معاہدہ ہوا ہے، (فوٹو: فائل)

سینیٹ میں اراکین کی مطلوبہ تعداد نہ ہونے پر انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیمی بل بدھ کو بھی منظور نہ ہو سکا۔ یعنی یہ بل ایسی آئینی گتھی بن چکا ہے کہ جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا جب کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بظاہر شفاف اور بر وقت انتخابات کے اصولی مطالبے پر قائم ہیں مگر بل کی منظوری کی راہ میں حائل خدشات اور تحفظات کوئی اور کہانی سناتے ہیں۔

جمہوری فورم پارلیمنٹ ہے، اس کی سپریمیسی کی بات کرتے ہوئے سیاست دانوں کی زبان نہیں تھکتی لیکن اب جب کہ حلقہ بندیوں کا معاملہ جمہوریت کے مقدس ایوانوں میں ہے اس کی لڑائی میڈیا میں لڑنے کا کوئی جواز نہیں اور کوئی انوکھی منطق قابل قبول نہیں ہونی چاہیے، اس لیے صائب تجویز یہی ہے کہ سیاسی قائدین، حکومت اور طاقتور اسٹیک ہولڈرز اس قسم کے پارلیمانی تماشوں اور بازی گری سے گریز کا صاحبان سیاست کو مشورہ دیں، کیا سیاسی سواد اعظم کو اتنی حقیقت بھی معلوم نہیں کہ ملک میں کیا کچھ نہیں ہو رہا، بحرانوں کا ایک سیل رواں ہے۔

عوام اندیشوں اور وسوسوں میں گرفتار ہر طلوع ہونے والے دن کو ایک نئی افتاد کی آمد سمجھ رہے ہیں، اگر جمہوریت کے داخلی تضادات عوامی بہبود اور قومی امنگوں کو روند رہے ہیں تو لازم ہے کہ اس خطرناک محاذ آرائی اور بے اعتباری کا جلد خاتمہ ہو اور تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکمراں اور تمام سیاسی رہنما حلقہ بندیوں اور دیگر انتخابی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کر لیں تا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ نئی حلقہ بندیوں کا بل دراصل سانپ کے منہ میں چھچھوندر ہے کہ نگلے تو اندھا اُگلے تو کوڑھی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت نے انجام کار پیپلزپارٹی سے مدد ہی مانگ لی۔

پارلیمنٹ کی اندر کی کارکردگی کے مطابق بل کی منظوری کے لیے ایوان بالا میں 69 ارکان کی موجودگی درکار تھی تاہم ایوان میں مجموعی طور پر 50 ممبران ہی شریک ہوئے جس میں سے حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد 33 تھی جب کہ متحدہ اپوزیشن کے محض 17 ارکان حاضر تھے۔


حکمران جماعت ن لیگ کے ایوان میں کل 27 ممبران میں سے 21 شریک ہوئے جن میں سے اسحق ڈار، مشاہداللہ اور ذوالفقارکھوسہ سمیت چند ممبران غیر حاضر رہے، پیپلز پارٹی کے کل 26 ممبران میں سے 8 ممبران موجود تھے۔ ایم کیو ایم کے 8میں سے3، تحریک انصاف کے 7 ممبران میں سے 3، جے یو آئی (ف) کے کل 5 ممبران میں سے4، ق لیگ کے 4 ممبران میں سے 2، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے3 میں سے تمام 3، نیشنل پارٹی کے 3ممبران میں سے 2، فاٹا کے 2، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک اور بی این پی (مینگل) کا بھی واحد رکن شریک ہوا، جماعت اسلامی کے واحد رکن سراج الحق، پی ایم ایل (فنکشنل) کے واحد رکن مظفر حسین اور بی این پی (عوامی) کے دونوں ارکان غیرحاضر رہے۔

ایوان بالا میں ممبران کی کل تعداد 104ہے تاہم گزشتہ چند روز سے انتخابی حلقہ بندیوں کے متعلق آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت پوری نہیں ہو سکی۔ پیرکو بھی اجلاس میں مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے پر بل بدھ تک موخر کیا گیا تھا تاہم گزشتہ روز بھی صورتحال برقرار رہی جس کے باعث بل اب جمعے کو تک موخر کردیا گیا۔

ایوان میں بل کی منظوری کے لیے درکار ممبران کی موجودگی نہ ہونے پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ بہترہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں، پارلیمنٹ کے پاس تاریخی موقع ہے انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور یہ اہم موقع ضایع نہ کرے ، اعتزاز احسن نے یقین دلایا کہ سیاسی جماعتوں کے کچھ معاملات پر اختلافات ہیں لیکن امید ہے کہ آیندہ چند روز میں بل پر سمجھوتہ ہوجائے گا، راجا ظفر الحق نے کہا کہ ملک میں بروقت انتخابات آئینی تقاضہ ہے۔

ادھر دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ حکومت جاپان اور یو این ڈی پی (یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام)کے درمیان پاکستان میں انتخابی عمل کی مضبوطی کے حوالے سے معاہدہ طے پاگیا، معاہدے کے تحت جاپان 3 سال کے دوران5.9 ملین ڈالر (61کروڑ روپے سے زائد) یو این ڈی پی کو دے گا، معاہدے کے تحت 5 لاکھ انتخابی اہلکاروں کی تربیت کی جائے گی، ووٹرز کی آگاہی اور نتائج وصول کرنے کے نظام میں بہتری بھی لائی جائے گی۔

سیاست دان ابھی بل پر باہم دست وگریبان ہیں جب کہ پاکستان کے انتخابی عمل کو مضبوط بنانے کے حوالے سے حکومت جاپان اور یو این ڈی پی کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب گزشتہ روز منعقد ہوئی، تقریب میں چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان بھی موجود تھے، چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے کہا کہ جاپان الیکشن کمیشن سے3 سال تک تعاون جاری رکھے گا۔ یو این ڈی پی اور دیگر ادارے شفاف انتخابات کے لیے تعاون کر رہے ہیں، اس معاہدے سے انتخابی عمل کی ساکھ بڑھانے میں مدد ملے گی۔ یہ امدادِ غیبی چشم کشا ہے۔
Load Next Story