دین سیاست سے جدا نہیں
اگر سیاست کے ساتھ دیانت نہ رہی تو سیاست سراسر ظلم اور آمریت کا محور ہوگی
اسلام میں دین سیاست سے جدا نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے دو حصے علم احکام اور حسن اخلاق دیانت کے بنیادی شعبے ہیں، جب کہ ایک حصہ نظم اور اجتماعیت میں پورا سیاست کا شعبہ ہے۔ اگر سیاست کو دیانت سے جدا کیا جائے گا تو نہ حقیقی سیاست قائم ہوگی اور نہ ہی حقیقی دیانت، کیونکہ اگر سیاست کے ساتھ دیانت نہ رہی تو سیاست سراسر ظلم اور آمریت کا محور ہوگی اور اگر دیانت کے ساتھ سیاست نہ رہی تو پھر دیانت مجبور، بے ار و مددگار اور پست ہوجائے گی۔ اسی بات کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
لہٰذا صرف قانون اور جھوٹی سیاست سے دنیا کبھی بھی امن و سکون کا منہ نہیں دیکھے گی اور نہ ہی انسانی دنیا کی اصلاح ہوسکے گی۔ اگر صرف قانون اور سیاست سب کچھ ہوتے تو آج یورپ سب سے زیادہ صالح، نیک اور سب سے زیادہ قانون پر چلنے والا، سب سے زیادہ امن والا ہوتا ۔
اگر صرف سیاست اور قانون سازی سے انسانی ذات کی اصلاح ہوتی تو آج یورپی دنیا کو ایسے دن دیکھنے نہ پڑتے کیونکہ وہاں نہ سیاست کی کمی ہے اور نہ قانون کی، اگر کمی ہے تو صرف دیانت کی کمی ہے۔ یعنی وہاں سیاست کے نیچے نہ اخلاق ربانی موجود ہیں نہ ہی مقاصد الٰہیہ کا علم اور نہ ہی اس کا عملی نمونہ موجود ہے۔ اس لیے جب سیاست کا دائرہ ہی صحیح سمت میں نہ ہوگا تو پھر صرف کھوکھلی سیاست اور خالی قانون کی اونچ نیچ سے لوگوں کو امن اور دنیا کو سکون کیسے نصیب ہوگا؟
پس آج کی یورپی تباہ کاریاں، عالمی بربادیاں اور انسانیت کی تباہی سیاست کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ دیانت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
جب تک دیانت کے ساتھ سیاسی طاقت اور سیاست کے ساتھ علم و اخلاق کی دیانت نہ ہوگی تب تک دنیا کبھی بھی امن و سکون کا سانس نہیں لے سکے گی۔ جیسے حدیث پاک میں ہے کہ فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے:
ترجمہ : حکومت اور دین آپس میں دو جڑواں بھائی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت (دنیا سے الگ ہوکر زندگی گزارنا) کو ختم کرکے اس کے ساتھ سلطنت کو ملادیا اور سلطنت کی ملوکیت کو ختم کرکے اسے خلافت کا کرتہ پہنایا تاکہ جس سے دیانت اور سیاست کا حکمت والا ملاپ قائم ہو اور اسی جامعیت سے اخلاقی اقدار بلند ہوںگے اور دین کی شان و شوکت نشوونما پائے گی۔
اسی واسطے ایمان کے دو رکن فرمائے گئے:
ترجمہ: یعنی اللہ تعالیٰ کے امر کی تعظیم کرنا تاکہ اس کے سامنے جھک جانا۔ دوسرے اس کی مخلوق پر شفقت اور اس کی خدمت کرنا۔ دونوں باتوں سے مل کر ایمان بنتا ہے۔ یعنی ایک شخص چوبیس گھنٹے مسجد میں رہے، مخلوق چاہے جیے یا مرے، اسے کوئی پروا نہیں اس کا آدھا ایمان ہے اور ایک شخص رات دن مخلوق کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ مگر مسجد میں جانے کا نام نہیں لیتا، اس کا آدھے سے بھی کم ایمان ہے۔ اس لیے کہ خلافت کا کام تو انجام دیا مگر عبادت چھوڑدی، انسان مکمل تب ہوگا جب ایک طرف عابد و زاہد ہو اور ایک طرف خلیفۂ خداوندی ہو، ایک طرف وہ کام کرے جو مخلوق کے کرنے کا ہے وہ عبادت ہے، ایک طرف وہ کام کرے جو خالق کا ہے۔ وہ تربیت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی زندگی ہے کہ راتوں کو دیکھو تو تہجد پڑھتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ورم آجاتا تھا۔ دنوں میں دیکھو تو مخلوق کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، دنیا کے بادشاہوں کے نام خطوط جاری فرمارہے ہیں، جن میں اسلام کی دعوت دی جارہی ہے۔ سفر فرمارہے ہیں، کبھی طائف میں ہیں، کبھی مدینہ میں تاکہ خلق خدا نیک راستے پر آجائے یہ خلافت کا کام ہے۔ مسجد نبوی میں جس طرح سے آپ نماز پڑھتے اسی طرح سے آپ مقدمات کے فیصلے بھی فرماتے۔ مسجد میں جیسے عبادت ہوتی ویسے ہی درس و تدریس کے ذریعے تعلیم بھی ہوتی یہ خلافت کا کام تھا۔ نماز پڑھنا، تلاوت کرنا، سجدے کرنا یہ عبادت کا کام تھا۔
یہی شان صحابہ کرامؓ کی ہے کہ ایک طرف تخت خلافت پر بیٹھ کر مخلوق خدا کی اصلاح اور ایک طرف بوریا اور چٹائی پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز سے سرجھکادینا، جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریںگے تو صحابہ کی زندگی کے ایسے لا تعداد واقعات ملیںگے۔ اُمور مملکت چلانے میں نبی کریم ﷺ کی سیاست و اُمور خارجہ کے اصول اعلیٰ درجے کے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے بارے میں ارشاد فرمایا۔
ترجمہ: اے نبی ﷺ یقینا ہم نے آپؐ کو گواہی دینے والا، خوش خبری دینے والا، اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے والا اور ایک روشن چراغ بناکر بھیجا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی بعثت کے مقصد کو بیان کرکے بتادیا کہ نبی کریم ﷺ کی دنیا میں آمد دعوت الیٰ اللہ کے لیے تھی جو حق اور سچ پرمبنی تھی اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی سیاست و امور خارجہ کی پالیسی کے اصول برحق تھے جو امت مسلمہ اور مسلم مالک کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے ابتدائی دور میں چونکہ روسائے کفار کی سخت عداوت کی بنا پر دعوت اسلام صرف اور صرف مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف تک محدود رہی لیکن ہجرت مدینہ کے بعد یہ دعوت اسلام عالمگیر حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ اس لیے کہ مدینہ منورہ میں مسلم حکومت قائم ہوگئی جس کے سربراہ خود نبی کریمﷺ تھے اور نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے یہ اہم سیاسی کام انجام دیا کہ مدینہ منورہ اور اس کے قرب و جوار میں رہائش پذیر قبائل خصوصاً یہود کے ساتھ سیاسی معاہدہ فرمایا جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے کی وجہ سے مدینہ منورہ امن کا گہوارہ بن گیا اور سب قبائل خصوصاً مسلمان امن و سکون کی زندگی بسر کرنے لگے اور نبی کریمﷺ کے لیے سیاسی، مذہبی، امور خارجہ اور نظام مملکت کی تشکیل آسان ہوگئی جس کی وجہ سے مسلمان مضبوط و مستحکم ہوکر اجتماعی قوت بن گئے اور ریاست کی سرحدوں کو وسعت ملی۔