اگلی سزائیں
ہمیں قدرت کی ان اگلی سزاؤں سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر مقامی درختوں کی شجرکاری کرنا ہوگی۔
پہلی مثال آپ لاوارث شہر کراچی کی لے لیجیے۔ جون 2015 میں اس تباہ حال شہر میں تباہ کن گرمی پڑی۔ اس گرمی کی شدت کچھ ایسی تھی کہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر کا درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر کا محسوس ہوتا تھا۔
یہ جان لیوا گرمی اپنے ساتھ اس لاوارث شہر کے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لاوارث شہریوں کی جانیں لے گئی۔ لوٹ مار اور تباہی کے گزرتے تاریک برسوں کے ساتھ اب برباد شدہ کراچی میں شہری سہولتوں کے ساتھ ساتھ درخت بھی بہت کم باقی بچے ہیں۔ چنانچہ تیز دھوپ کی تپش درختوں کے کور سے محروم ہر جانب موجود کنکریٹ تعمیرات میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔ نتیجتاً شہر تندور کی طرح دہکتا ہے۔
اس بے بس بے اختیار شہر کو آیندہ اس طرح کی صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لیے تو حکومتی سطح پہ کچھ نہیں کیا گیا ہے البتہ ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کے چند نام نہاد کیمپ جون جولائی کے کچھ ہفتوں میں لگا دیے جاتے ہیں۔ آپ دوسری مثال پاکستان کے دل، اور تعمیر و ترقی کے مرکز شہر لاہور کی لیجیے۔ اس سال نومبر میں اربوں کھربوں روپوں کے ترقیاتی فنڈز ہر سال حاصل کرنیوالا لاہور اسموگ کا شکار ہوگیا۔
یہ اسموگ اتنی شدید تھی کہ حد نظر چند میٹر تک محدود ہوگئی۔ ایئرپورٹ سے جہاز نہ اڑ سکے نہ اتر سکے۔ سڑکوں پہ حادثات کئی گنا بڑھ گئے۔ لوگ انتہائی زہریلی فضا میں سانس لینے سے بیماریوں کا شکار ہوگئے۔ یہ اسموگ بعدازاں لاہور سے فیصل آباد، ساہیوال اور پھر ملتان تک پہنچ گئی۔ آخرکار بارش ہونے پر یہ اسموگ ختم ہوئی، گو فوگ (دھند) کا سلسلہ جاری رہا۔ بارش ہونے پر بھنگڑا ڈالتے اور لوگوں کو ''موج مستی'' کرتے دکھاتے ٹی وی چینلز کو بہت بعد میں سمجھ میں آیا کہ یہ زہریلی بارش تھی۔ زہریلے مادوں سے بوجھل اسموگ سے گزرتی بارش لامحالہ زہریلی ہوتی ہے۔
اس خطرناک اسموگ کی اس خوفناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر جو کیا گیا وہ یہ ہے کہ کچھ سڑکیں اور موٹروے مختلف اوقات میں بند کردیے گئے۔ ٹائر جلانیوالے چند کارخانوں پر چھاپے پڑے اور وہ عارضی طور پر بند ہوگئے۔ مزید برآں دھان کے کھیتوں میں فصل کے لیفٹ اوورز (باقیات) جلانے پہ دفعہ 144 کی پابندی عائد کردی گئی، جس کی ظاہر ہے کہ کسانوں نے کچھ پرواہ نہیں کی۔ اب آپ لاکھ سر پٹختے رہ جائیں مگر ہمارے ہاں تو حکومتیں یوں ہی ''کام'' کرتی ہیں۔
حال ہی کی ایک اور مثال لے لیجیے کہ تربت بلوچستان میں مبینہ طور پر یورپ جانے والے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا قتل عام کیا گیا تو اچانک حکومت جاگ اٹھی اور انسانی اسمگلروں کے خلاف ''کارروائی'' شروع ہوگئی، جو وقت گزرنے کے ساتھ نئے مک مکا پر ختم ہوجائے گی، یہاں تک کہ خدانخواستہ ایسا ایک اور واقعہ پیش آجائے۔ یہاں ہر معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں حکومت ایسے ہی کی جاتی ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ آخر ہماری حکومتیں بلکہ ہمارا حکمراں طبقہ ایسا کیوں ہے؟
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ جنوبی ایشیا یا برصغیر کے جس خطے میں ہمارا یہ باقی ماندہ پاکستان واقع ہے، اس خطے کے حکمراں طبقے نے تاریخی طور پر کبھی کسی ملک یا مملکت پر حکومت نہیں کی، یہ دہلی سے پورے برصغیر پر راج کرنے والی حکومت کا باجگزار و صوبے دار رہا اور اس سے قبل یہ چھوٹے بڑے راجواڑوں پہ حکمران تھا۔ چنانچہ یہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کرکے اپنے اپنے صوبوں کو اپنے ذاتی و خاندانی راجواڑوں میں تو تبدیل کرسکتا ہے مگر اس ملک کو بطور ملک نہیں چلا سکتا۔
یہ کراچی کو لوٹ کر دبئی میں پراپرٹی بنا سکتا ہے، کراچی کو دبئی نہیں بناسکتا۔ اور یہ کسی مخصوص سیاسی پارٹی و حکمران کی بات نہیں مجموعی طور پہ ہمارا روایتی حکمراں طبقہ اس ملک کو ایک اچھی و ایماندار حکومت دینے سے جینیاتی طور پر معذور ہے، چنانچہ یہ ملک ''نوٹس لے لیا''، ''معطل کردیا'' کے ''گڈ گورننس'' اصولوں پر چل رہا ہے اور ہوسکتا ہے اس ملک کو شاید آپ مزید کچھ عرصے اس طرح چلالیں مگر قدرت کا نظام اس طرح نہیں چلتا۔ ہم جس بے دردی اور بے حسی سے اپنے قدرتی ماحول کی بے حرمتی کیے جا رہے ہیں قدرت ہم سے اس کا انتقام لے کر رہے گی اور ہم بچ نہیں سکتے کیونکہ قدرت کے نظام میں کسی این آر او کا گزر نہیں۔
کراچی میں ابلتی کھولتی گرمی اور لاہور و باقی پنجاب میں زہریلی اسموگ ان سزاؤں کی محض جھلکیاں ہیں جو قدرت سے ہمیں ملنے والی ہیں، اگر ہم نے اور ہماری حکومتوں نے اپنے طور طریقے تبدیل نہیں کیے۔ ملک میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری ہوا، پانی اور مٹی تینوں ہی شدید ترین آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں اور مزید ہو رہے ہیں۔ مسئلوں سے بڑا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے، مثلاً آپ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا معاملہ لے لیجیے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بشمول چین اپنے ہاں کوئلے کے پاورپلانٹ بند کر رہے ہیں اور یہاں لگائے جا رہے ہیں۔ حکومت کو کوئلے کے پاورپلانٹس بند کرکے بجلی کی پیداوار کے ماحول دوست ذرایع بشمول ہائیڈرو پاور پر فوکس کرنا ہوگا۔ پنجاب حکومت کے تعمیر کردہ لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے ماس ٹرانزٹ سسٹم مثلا میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین اور خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پشاور میں بنایا جانے والا میٹرو بس سسٹم ٹریفک خصوصاً موٹرسائیکلوں اور رکشوں کی تعداد بڑھنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں بھی کمی کا باعث بنیں گے۔
ادھر ان دس سال میں برباد کیے گئے لٹے پٹے کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم تو کیا بنتا الٹا پہلے سے موجود کھٹارا بسوں اور منی بسوں کی تعداد بھی انتہائی کم ہوگئی اور ان کی جگہ لاکھوں بے لگام موٹرسائیکلوں اور رکشوں نے لے لی۔ اس وقت وفاقی حکومت کراچی میں گرین لائن کے نام سے میٹرو بس سروس پر کام تو کر رہی ہے مگر سچ پوچھیے تو اگر یہ میٹرو بس سسٹم بن بھی گیا تو بھی موجودہ صوبائی حکومتی نظام میں اس کا مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے، کیونکہ کراچی میں سٹی ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کے دور میں اچھی خاصی تعداد میں ایئرکنڈیشنڈ گرین سی این جی بسیں چلائی گئی تھیں جو 2009 کے بعد تیزی سے غائب ہوگئیں۔ بعد میں کچھ ٹی وی نیوز چینلز نے ان بسوں کے انجن اور ٹائرز سے محروم ڈھانچے دکھائے۔
چلیے خیر جہاں تباہ شدہ شہر کراچی کا عملاً کوئی مستقبل نہیں وہاں گرین لائن بس کے مستقبل پر کیا پریشان ہونا؟مسئلہ مگر یہ ہے کہ قدرت ہماری ریاست کی طرح دیالو نہیں کہ ہر برائی سے این آر او کرتی جائے۔ چنانچہ قدرتی ماحول سے ہماری زیادتیوں کے عوض قدرت ہمیں این آر او نہیں بلکہ 2015 کی کراچی کی گرمی اور 2017 کے لاہور کے اسموگ سے بڑھ کر سزائیں دے گی، مثلاً بگڑتے موسم، طوفان، شدید سیلاب، شدید خشک سالی، زہریلا پانی، زہریلی فصلیں، زہریلی غذائیں، نت نئی وبائیں، نت نئی بیماریاں۔
ہمیں قدرت کی ان اگلی سزاؤں سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر مقامی درختوں کی شجرکاری، نہروں، دریاؤں، جھیلوں اور سمندر میں شہری اور صنعتی پانی (فضلے) کا فلٹریشن کے بعد اخراج، پولیتھن تھیلیوں پر مکمل پابندی اور ان کی تیاری اور استعمال پر سخت سزائیں، فصلوں میں زہریلے کیمیکلز کے استعمال پر پابندی، جدید ترین ویسٹ ٹو انرجی (WTE) پلانٹس کا ملک بھر میں نیٹ ورک، کوئلے کے پاور پلانٹس کی بندش، فضائی آلودگی پھیلانیوالی گاڑیوں کی ضبطگی، فضائی اور آبی آلودگی پھیلانیوالی صنعتوں پر بھاری جرمانے جیسے چند بنیادی ناگزیر کام کرنے ہی ہوں گے، ورنہ پھر قدرت کی اگلی سزاؤں کے لیے تیار رہیں۔
یہ جان لیوا گرمی اپنے ساتھ اس لاوارث شہر کے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ لاوارث شہریوں کی جانیں لے گئی۔ لوٹ مار اور تباہی کے گزرتے تاریک برسوں کے ساتھ اب برباد شدہ کراچی میں شہری سہولتوں کے ساتھ ساتھ درخت بھی بہت کم باقی بچے ہیں۔ چنانچہ تیز دھوپ کی تپش درختوں کے کور سے محروم ہر جانب موجود کنکریٹ تعمیرات میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔ نتیجتاً شہر تندور کی طرح دہکتا ہے۔
اس بے بس بے اختیار شہر کو آیندہ اس طرح کی صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لیے تو حکومتی سطح پہ کچھ نہیں کیا گیا ہے البتہ ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کے چند نام نہاد کیمپ جون جولائی کے کچھ ہفتوں میں لگا دیے جاتے ہیں۔ آپ دوسری مثال پاکستان کے دل، اور تعمیر و ترقی کے مرکز شہر لاہور کی لیجیے۔ اس سال نومبر میں اربوں کھربوں روپوں کے ترقیاتی فنڈز ہر سال حاصل کرنیوالا لاہور اسموگ کا شکار ہوگیا۔
یہ اسموگ اتنی شدید تھی کہ حد نظر چند میٹر تک محدود ہوگئی۔ ایئرپورٹ سے جہاز نہ اڑ سکے نہ اتر سکے۔ سڑکوں پہ حادثات کئی گنا بڑھ گئے۔ لوگ انتہائی زہریلی فضا میں سانس لینے سے بیماریوں کا شکار ہوگئے۔ یہ اسموگ بعدازاں لاہور سے فیصل آباد، ساہیوال اور پھر ملتان تک پہنچ گئی۔ آخرکار بارش ہونے پر یہ اسموگ ختم ہوئی، گو فوگ (دھند) کا سلسلہ جاری رہا۔ بارش ہونے پر بھنگڑا ڈالتے اور لوگوں کو ''موج مستی'' کرتے دکھاتے ٹی وی چینلز کو بہت بعد میں سمجھ میں آیا کہ یہ زہریلی بارش تھی۔ زہریلے مادوں سے بوجھل اسموگ سے گزرتی بارش لامحالہ زہریلی ہوتی ہے۔
اس خطرناک اسموگ کی اس خوفناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر جو کیا گیا وہ یہ ہے کہ کچھ سڑکیں اور موٹروے مختلف اوقات میں بند کردیے گئے۔ ٹائر جلانیوالے چند کارخانوں پر چھاپے پڑے اور وہ عارضی طور پر بند ہوگئے۔ مزید برآں دھان کے کھیتوں میں فصل کے لیفٹ اوورز (باقیات) جلانے پہ دفعہ 144 کی پابندی عائد کردی گئی، جس کی ظاہر ہے کہ کسانوں نے کچھ پرواہ نہیں کی۔ اب آپ لاکھ سر پٹختے رہ جائیں مگر ہمارے ہاں تو حکومتیں یوں ہی ''کام'' کرتی ہیں۔
حال ہی کی ایک اور مثال لے لیجیے کہ تربت بلوچستان میں مبینہ طور پر یورپ جانے والے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا قتل عام کیا گیا تو اچانک حکومت جاگ اٹھی اور انسانی اسمگلروں کے خلاف ''کارروائی'' شروع ہوگئی، جو وقت گزرنے کے ساتھ نئے مک مکا پر ختم ہوجائے گی، یہاں تک کہ خدانخواستہ ایسا ایک اور واقعہ پیش آجائے۔ یہاں ہر معاملے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں حکومت ایسے ہی کی جاتی ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ آخر ہماری حکومتیں بلکہ ہمارا حکمراں طبقہ ایسا کیوں ہے؟
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ جنوبی ایشیا یا برصغیر کے جس خطے میں ہمارا یہ باقی ماندہ پاکستان واقع ہے، اس خطے کے حکمراں طبقے نے تاریخی طور پر کبھی کسی ملک یا مملکت پر حکومت نہیں کی، یہ دہلی سے پورے برصغیر پر راج کرنے والی حکومت کا باجگزار و صوبے دار رہا اور اس سے قبل یہ چھوٹے بڑے راجواڑوں پہ حکمران تھا۔ چنانچہ یہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کرکے اپنے اپنے صوبوں کو اپنے ذاتی و خاندانی راجواڑوں میں تو تبدیل کرسکتا ہے مگر اس ملک کو بطور ملک نہیں چلا سکتا۔
یہ کراچی کو لوٹ کر دبئی میں پراپرٹی بنا سکتا ہے، کراچی کو دبئی نہیں بناسکتا۔ اور یہ کسی مخصوص سیاسی پارٹی و حکمران کی بات نہیں مجموعی طور پہ ہمارا روایتی حکمراں طبقہ اس ملک کو ایک اچھی و ایماندار حکومت دینے سے جینیاتی طور پر معذور ہے، چنانچہ یہ ملک ''نوٹس لے لیا''، ''معطل کردیا'' کے ''گڈ گورننس'' اصولوں پر چل رہا ہے اور ہوسکتا ہے اس ملک کو شاید آپ مزید کچھ عرصے اس طرح چلالیں مگر قدرت کا نظام اس طرح نہیں چلتا۔ ہم جس بے دردی اور بے حسی سے اپنے قدرتی ماحول کی بے حرمتی کیے جا رہے ہیں قدرت ہم سے اس کا انتقام لے کر رہے گی اور ہم بچ نہیں سکتے کیونکہ قدرت کے نظام میں کسی این آر او کا گزر نہیں۔
کراچی میں ابلتی کھولتی گرمی اور لاہور و باقی پنجاب میں زہریلی اسموگ ان سزاؤں کی محض جھلکیاں ہیں جو قدرت سے ہمیں ملنے والی ہیں، اگر ہم نے اور ہماری حکومتوں نے اپنے طور طریقے تبدیل نہیں کیے۔ ملک میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری ہوا، پانی اور مٹی تینوں ہی شدید ترین آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں اور مزید ہو رہے ہیں۔ مسئلوں سے بڑا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے، مثلاً آپ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا معاملہ لے لیجیے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بشمول چین اپنے ہاں کوئلے کے پاورپلانٹ بند کر رہے ہیں اور یہاں لگائے جا رہے ہیں۔ حکومت کو کوئلے کے پاورپلانٹس بند کرکے بجلی کی پیداوار کے ماحول دوست ذرایع بشمول ہائیڈرو پاور پر فوکس کرنا ہوگا۔ پنجاب حکومت کے تعمیر کردہ لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے ماس ٹرانزٹ سسٹم مثلا میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین اور خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پشاور میں بنایا جانے والا میٹرو بس سسٹم ٹریفک خصوصاً موٹرسائیکلوں اور رکشوں کی تعداد بڑھنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں بھی کمی کا باعث بنیں گے۔
ادھر ان دس سال میں برباد کیے گئے لٹے پٹے کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم تو کیا بنتا الٹا پہلے سے موجود کھٹارا بسوں اور منی بسوں کی تعداد بھی انتہائی کم ہوگئی اور ان کی جگہ لاکھوں بے لگام موٹرسائیکلوں اور رکشوں نے لے لی۔ اس وقت وفاقی حکومت کراچی میں گرین لائن کے نام سے میٹرو بس سروس پر کام تو کر رہی ہے مگر سچ پوچھیے تو اگر یہ میٹرو بس سسٹم بن بھی گیا تو بھی موجودہ صوبائی حکومتی نظام میں اس کا مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے، کیونکہ کراچی میں سٹی ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کے دور میں اچھی خاصی تعداد میں ایئرکنڈیشنڈ گرین سی این جی بسیں چلائی گئی تھیں جو 2009 کے بعد تیزی سے غائب ہوگئیں۔ بعد میں کچھ ٹی وی نیوز چینلز نے ان بسوں کے انجن اور ٹائرز سے محروم ڈھانچے دکھائے۔
چلیے خیر جہاں تباہ شدہ شہر کراچی کا عملاً کوئی مستقبل نہیں وہاں گرین لائن بس کے مستقبل پر کیا پریشان ہونا؟مسئلہ مگر یہ ہے کہ قدرت ہماری ریاست کی طرح دیالو نہیں کہ ہر برائی سے این آر او کرتی جائے۔ چنانچہ قدرتی ماحول سے ہماری زیادتیوں کے عوض قدرت ہمیں این آر او نہیں بلکہ 2015 کی کراچی کی گرمی اور 2017 کے لاہور کے اسموگ سے بڑھ کر سزائیں دے گی، مثلاً بگڑتے موسم، طوفان، شدید سیلاب، شدید خشک سالی، زہریلا پانی، زہریلی فصلیں، زہریلی غذائیں، نت نئی وبائیں، نت نئی بیماریاں۔
ہمیں قدرت کی ان اگلی سزاؤں سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر مقامی درختوں کی شجرکاری، نہروں، دریاؤں، جھیلوں اور سمندر میں شہری اور صنعتی پانی (فضلے) کا فلٹریشن کے بعد اخراج، پولیتھن تھیلیوں پر مکمل پابندی اور ان کی تیاری اور استعمال پر سخت سزائیں، فصلوں میں زہریلے کیمیکلز کے استعمال پر پابندی، جدید ترین ویسٹ ٹو انرجی (WTE) پلانٹس کا ملک بھر میں نیٹ ورک، کوئلے کے پاور پلانٹس کی بندش، فضائی آلودگی پھیلانیوالی گاڑیوں کی ضبطگی، فضائی اور آبی آلودگی پھیلانیوالی صنعتوں پر بھاری جرمانے جیسے چند بنیادی ناگزیر کام کرنے ہی ہوں گے، ورنہ پھر قدرت کی اگلی سزاؤں کے لیے تیار رہیں۔