رابرٹ موگابے پر ایک نظر
خود رابرٹ موگابے اقتدار سے چمٹے رہنے کو ہی اپنی جیت سمجھ بیٹھے تھے۔
PARIS:
16 نومبر کی گزرتی شب کو یہ خبر آئی کہ رابرٹ موگابے، جو زمبابوے کے مرد آہن اور آزادی کے ہیرو ہیں، ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور دارالحکومت کی شاہراہوں پر فوجی گشت جاری ہے۔
نظر یہ خبر دیکھ رہی تھی مگر عقل محوحیرت تھی کہ جس نے برطانیہ کی حکومت سے آزادی کی جنگ لڑی اور ملک کو آزادی کی سانس دلائی آج وہ خود کیونکر قید ہے، اس کے ہمسفر اور جانثار کیا ہوئے، جو خود کو مارکسی باغی کہتا تھا، وہ کیونکر مقید ہے، جس نے آزادی تو دلائی مگر زبانی کلامی نہیں بلکہ جاگیرداری سسٹم کو توڑ کر زرعی اصلاحات سے ملک کو روشناس کیا اور سفید فام کی سیکڑوں ایکڑ زمین پر سیاہ فام کی ملکیت قائم کی، پاکستانی قارئین کی سہولت کے لیے بتاتا چلوں کہ وڈیرہ سفید فام اور ہاری سرتاپا سیاہ فام تھا۔ موگابے نے اس کو آزادی کی اصل حقیقت سے آشنا کیا۔
یہی نہیں کہ پاکستان کے سربراہوں کی طرح جمہوریت میں جمہور کا گلا گھونٹا۔ ایک زرعی ملک میں ہر چیز امپورٹیڈ، لپ اسٹک سے لے کر ٹماٹر تک امپورٹیڈ اور عوام غربت کے بوجھ تلے دب کر رہ رہے ہیں۔ مگر میڈیا کی اپنی روایتی مصنوعی جنگ عوام کے کسی مسئلے پر گفتگو نہ کرنا وتیرہ۔ تاکہ عوام دشمن قوتیں پر سکون رہیں۔
کسی کمزور ترین افریقی ملک میں بھی آج کل ممکن نہیں۔ اس لیے تو رابرٹ موگابے 37 برس حکومت کرسکا اور فوج اس کو ہراساں نہ کرسکی، بلکہ جمعہ 17 نومبر کو رابرٹ موگابے دارالسلطنت ہرارے میں یونیورسٹی کنونشن میں نوجوانوں کو ڈگری سے سرفراز کر رہے تھے۔ بلاشبہ 21 نومبر کو موگابے اپنے عہدۂ صدارت سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔
زمبابوے کی صورتحال کو جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ ملٹری کا لایا ہوا انقلاب نہیں بلکہ خود موگابے کی پارٹی پی ایف زانو کے منحرفین کا لایا ہوا انقلاب ہے اور آرمی بڑی احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ خصوصاً پارٹی کے نائب صدر ایمرسن کو ہٹا کر موگابے نے جو اپنی بیگم کو نائب صدر بنایا اس نے پارٹی میں منحرفین کی تعداد میں اضافہ کر دیا، اور ذاتی نوعیت کے اختلافات نے جنم لیا، یعنی موگابے کی عمر 93 برس کی ہوگئی اور پھر بھی اقتدار کو طول دے دیا گیا وغیرہ وغیرہ اور زمبابوے کی فوج کے بڑے عہدے دار لوگوں کو موگابے کے خلاف پوسٹر آویزاں کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
یہ تمام واقعات جمعہ 17 نومبر کے دن تک کے تھے، کیونکہ وہاں کی آرمی چاہتی ہے کہ زمبابوے جو سابق رہوڈیشیا تھا، وہاں کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں کہ ان کی زندگی میں معاشی بہار آئے۔ دراصل زمبابوے میں ملٹری کو بغاوت کے تانے بانے نہیں بُنے بلکہ وہاں کی سیاسی تنظیم کے عہدے داروں نے ملٹری کو سیاست میں گھسیٹا۔ اس طرح سیاست دانوں نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے کیونکہ زمبابوے کے رہنما کی ملک کی آزادی میں ایک بڑی قربانی ہے، تقریباً 20 برس کی جد وجہد ہے جس میں 10 برس برطانوی قید و بند میں گزرے۔ وہ بھی انگریزوں کی نو آبادی کے زمانے میں، جس نے گزرتی عمر کے ساتھ بعض اخلاقی خرابیاں بھی پیدا کردیں۔
ایک اور بات یہ کہ عوام میں سوشلزم کا نعرہ تو لگایا مگر اس کا نفاذ باقاعدگی سے نہ ہوسکا۔ جیسا کہ کیوبا میں فیڈل کاسترو نے کیا اور آج ان کا طبی فرنٹ دنیا کے جدید ترین صحت کے اصولوں کے تحت راہول کاسترو چلارہے ہیں۔ اس کے برعکس رابرٹ موگابے زبانی کلامی گفتگو میں طاق رہے ہیں اور عمل میں اس قدر عملدرآمد کرنے میں کامیاب نہ تھے، کیونکہ ان کی پارٹی زانو پی ایف کے لوگ اتنے عوام دوست نہ تھے، جس قدر ایک سوشلسٹ پارٹی کے ارکان کو ہونا چاہیے۔
خود رابرٹ موگابے اقتدار سے چمٹے رہنے کو ہی اپنی جیت سمجھ بیٹھے تھے۔ ان کے نائب صدر ایمرسن جو جنگ آزادی میں ان کے ساتھ تھے وہ اقتدار کی آس اور اپنی ذاتی خواہشات اور نمود میں کوشاں تھے۔ چند ماہ قبل یہ افواہ تھی کہ ایمرسن کو رابرٹ موگابے نے برطرف کردیا ہے، بہرصورت گزشتہ ماہ نائب صدر برطرف کردیے گئے۔
بعد ازاں یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ موگابے کی بیگم فرسٹ لیڈی محترمہ گریس (Grace) کو وہ نائب صدر بنانے والے ہیں۔ ان گھریلو خاندانی جمہوریت نے رابرٹ موگابے کی سیاسی پوزیشن بہت کمزور کردی اور نائب صدر ایمرسن پی ایف زانو پارٹی کے اندرون ملک کے عہدے داروں کو اپنا ہم نوا بنانے میں مصروف ہوگئے اور خبر یہی ہے کہ انھوں نے نواجوانوں کے ایک بڑے حلقے کو اپنا ہمنوا بنالیا۔ اس کے بعد موصوف فوج کے عہدے داروں اور کمانڈر انچیف کولنسٹن سٹائن سے بھی ملاقات کرتے رہے۔
لہٰذا کمانڈر انچیف نے نہایت محتاط انداز میں فوج کو اہم مقامات پر تعینات کردیا کہ موگابے کی کارکردگی محدود کردی جائے، لہٰذا موگابے کی آزادانہ کھلے عام آمد و رفت محدود کردی گئی اور ایک خبر کے مطابق وہ فوجی جرنیلوں کی اجازت سے کہیں آتے جاتے تھے اور کسی فوجی بیرک تک محدود تھے۔ وہ ٹیلی فون کرنے اور سننے میں آزاد تھے۔ ساؤتھ افریقا کے صدر جیکب زوما کے ان کے پاس تقریباً روزانہ فون آتے مگر جیکب زوما بھی زمبابوے کی صورتحال بتانے سے قاصر رہے۔
زمبابوے اور سیاہ فام لوگوں کو زمین کا مالک بنانے والے رابرٹ موگابے کے خلاف ہفتہ 18 نومبر کو زبردست ریلی نکالی گئی، ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار لوگوں نے شرکت کی، جو نائب صدر زمبابوے ایمرسن کی تدبیر تھی۔
ایمرسن کا یہ الزام کہ موگابے خاندانی جمہوریت یعنی نئے دور کی بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں، لوگ سڑکوں پر آگئے اور اس طرح فوج اور نائب صدر کے مقاصد پورے ہونے لگے، اس لیے اتوار 19 نومبر کو جو میٹنگ دارالحکومت ہرارے میں جنوبی افریقا کے صدر زمبابوے کے کمانڈر انچیف اور موگابے کے درمیان جاری تھی، رابرٹ موگابے کا پلڑا ہلکا رہ گیا اور فوج اپنی ہوشیاری میں زیادہ بہتر پوزیشن میں آگئی اور بالآخر رابرٹ موگابے کو قتدار چھوڑنا پڑا۔ مگر زمبابوے کی آزادی کے لیے جو قربانیاں اس نے دی ہیں وہ رائیگاں نہ جائیںگی۔ مگر زمبابوے کے نائب صدر ایمرسن نے فوج کو جو راستہ دکھادیا ہے وہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ کا تسلسل بھی بن سکتا ہے۔
رابرٹ موگابے تقریری محاذ پر کافی مقبول رہے ہیں، ان کی تقریر طنز و مزاح کا مرقع ہوتی تھی اور بعض جملے لوگوں کو بہت پسند آتے تھے، اس کے چند جملے پیش خدمت ہیں۔ کرکٹ کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ کھیل نظم و ضبط کا کھیل ہے جو لوگوں کو جینٹل مین بنادیتی ہے۔ برطانیہ کے متعلق کہتے ہیں یہ چھوٹے گھر والوں کا ملک ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ میں برٹش گورنمنٹ سے مکے بازی کرتا رہوں گا۔ رابرٹ موگابے کا ٹرمپ کے متعلق کہنا ہے کہ مسٹر ٹرمپ آپ ایسا باجا (ٹرمپیٹ) بجاؤ جس کی آواز میں میل محبت اور بھائی چارہ ہو، قتل و غارت نہ ہو۔
یہ بات تو سامنے آتی ہے کہ اقتدار کی طوالت خود ایک فتنے کا آغاز ہے، اس سے اجتناب کی ضرورت ہے، خواہ ملک کا کتنا ہی بڑا اور اہم لیڈر کیوں نہ ہو، اس کو اقتدار کی طوالت سے اجتناب کی ضرورت ہے، اور یہی سب آخر کار موگابے کا بھی انجام ہوا اور اب ایمرسن نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔
16 نومبر کی گزرتی شب کو یہ خبر آئی کہ رابرٹ موگابے، جو زمبابوے کے مرد آہن اور آزادی کے ہیرو ہیں، ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور دارالحکومت کی شاہراہوں پر فوجی گشت جاری ہے۔
نظر یہ خبر دیکھ رہی تھی مگر عقل محوحیرت تھی کہ جس نے برطانیہ کی حکومت سے آزادی کی جنگ لڑی اور ملک کو آزادی کی سانس دلائی آج وہ خود کیونکر قید ہے، اس کے ہمسفر اور جانثار کیا ہوئے، جو خود کو مارکسی باغی کہتا تھا، وہ کیونکر مقید ہے، جس نے آزادی تو دلائی مگر زبانی کلامی نہیں بلکہ جاگیرداری سسٹم کو توڑ کر زرعی اصلاحات سے ملک کو روشناس کیا اور سفید فام کی سیکڑوں ایکڑ زمین پر سیاہ فام کی ملکیت قائم کی، پاکستانی قارئین کی سہولت کے لیے بتاتا چلوں کہ وڈیرہ سفید فام اور ہاری سرتاپا سیاہ فام تھا۔ موگابے نے اس کو آزادی کی اصل حقیقت سے آشنا کیا۔
یہی نہیں کہ پاکستان کے سربراہوں کی طرح جمہوریت میں جمہور کا گلا گھونٹا۔ ایک زرعی ملک میں ہر چیز امپورٹیڈ، لپ اسٹک سے لے کر ٹماٹر تک امپورٹیڈ اور عوام غربت کے بوجھ تلے دب کر رہ رہے ہیں۔ مگر میڈیا کی اپنی روایتی مصنوعی جنگ عوام کے کسی مسئلے پر گفتگو نہ کرنا وتیرہ۔ تاکہ عوام دشمن قوتیں پر سکون رہیں۔
کسی کمزور ترین افریقی ملک میں بھی آج کل ممکن نہیں۔ اس لیے تو رابرٹ موگابے 37 برس حکومت کرسکا اور فوج اس کو ہراساں نہ کرسکی، بلکہ جمعہ 17 نومبر کو رابرٹ موگابے دارالسلطنت ہرارے میں یونیورسٹی کنونشن میں نوجوانوں کو ڈگری سے سرفراز کر رہے تھے۔ بلاشبہ 21 نومبر کو موگابے اپنے عہدۂ صدارت سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔
زمبابوے کی صورتحال کو جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ ملٹری کا لایا ہوا انقلاب نہیں بلکہ خود موگابے کی پارٹی پی ایف زانو کے منحرفین کا لایا ہوا انقلاب ہے اور آرمی بڑی احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ خصوصاً پارٹی کے نائب صدر ایمرسن کو ہٹا کر موگابے نے جو اپنی بیگم کو نائب صدر بنایا اس نے پارٹی میں منحرفین کی تعداد میں اضافہ کر دیا، اور ذاتی نوعیت کے اختلافات نے جنم لیا، یعنی موگابے کی عمر 93 برس کی ہوگئی اور پھر بھی اقتدار کو طول دے دیا گیا وغیرہ وغیرہ اور زمبابوے کی فوج کے بڑے عہدے دار لوگوں کو موگابے کے خلاف پوسٹر آویزاں کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
یہ تمام واقعات جمعہ 17 نومبر کے دن تک کے تھے، کیونکہ وہاں کی آرمی چاہتی ہے کہ زمبابوے جو سابق رہوڈیشیا تھا، وہاں کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں کہ ان کی زندگی میں معاشی بہار آئے۔ دراصل زمبابوے میں ملٹری کو بغاوت کے تانے بانے نہیں بُنے بلکہ وہاں کی سیاسی تنظیم کے عہدے داروں نے ملٹری کو سیاست میں گھسیٹا۔ اس طرح سیاست دانوں نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے کیونکہ زمبابوے کے رہنما کی ملک کی آزادی میں ایک بڑی قربانی ہے، تقریباً 20 برس کی جد وجہد ہے جس میں 10 برس برطانوی قید و بند میں گزرے۔ وہ بھی انگریزوں کی نو آبادی کے زمانے میں، جس نے گزرتی عمر کے ساتھ بعض اخلاقی خرابیاں بھی پیدا کردیں۔
ایک اور بات یہ کہ عوام میں سوشلزم کا نعرہ تو لگایا مگر اس کا نفاذ باقاعدگی سے نہ ہوسکا۔ جیسا کہ کیوبا میں فیڈل کاسترو نے کیا اور آج ان کا طبی فرنٹ دنیا کے جدید ترین صحت کے اصولوں کے تحت راہول کاسترو چلارہے ہیں۔ اس کے برعکس رابرٹ موگابے زبانی کلامی گفتگو میں طاق رہے ہیں اور عمل میں اس قدر عملدرآمد کرنے میں کامیاب نہ تھے، کیونکہ ان کی پارٹی زانو پی ایف کے لوگ اتنے عوام دوست نہ تھے، جس قدر ایک سوشلسٹ پارٹی کے ارکان کو ہونا چاہیے۔
خود رابرٹ موگابے اقتدار سے چمٹے رہنے کو ہی اپنی جیت سمجھ بیٹھے تھے۔ ان کے نائب صدر ایمرسن جو جنگ آزادی میں ان کے ساتھ تھے وہ اقتدار کی آس اور اپنی ذاتی خواہشات اور نمود میں کوشاں تھے۔ چند ماہ قبل یہ افواہ تھی کہ ایمرسن کو رابرٹ موگابے نے برطرف کردیا ہے، بہرصورت گزشتہ ماہ نائب صدر برطرف کردیے گئے۔
بعد ازاں یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ موگابے کی بیگم فرسٹ لیڈی محترمہ گریس (Grace) کو وہ نائب صدر بنانے والے ہیں۔ ان گھریلو خاندانی جمہوریت نے رابرٹ موگابے کی سیاسی پوزیشن بہت کمزور کردی اور نائب صدر ایمرسن پی ایف زانو پارٹی کے اندرون ملک کے عہدے داروں کو اپنا ہم نوا بنانے میں مصروف ہوگئے اور خبر یہی ہے کہ انھوں نے نواجوانوں کے ایک بڑے حلقے کو اپنا ہمنوا بنالیا۔ اس کے بعد موصوف فوج کے عہدے داروں اور کمانڈر انچیف کولنسٹن سٹائن سے بھی ملاقات کرتے رہے۔
لہٰذا کمانڈر انچیف نے نہایت محتاط انداز میں فوج کو اہم مقامات پر تعینات کردیا کہ موگابے کی کارکردگی محدود کردی جائے، لہٰذا موگابے کی آزادانہ کھلے عام آمد و رفت محدود کردی گئی اور ایک خبر کے مطابق وہ فوجی جرنیلوں کی اجازت سے کہیں آتے جاتے تھے اور کسی فوجی بیرک تک محدود تھے۔ وہ ٹیلی فون کرنے اور سننے میں آزاد تھے۔ ساؤتھ افریقا کے صدر جیکب زوما کے ان کے پاس تقریباً روزانہ فون آتے مگر جیکب زوما بھی زمبابوے کی صورتحال بتانے سے قاصر رہے۔
زمبابوے اور سیاہ فام لوگوں کو زمین کا مالک بنانے والے رابرٹ موگابے کے خلاف ہفتہ 18 نومبر کو زبردست ریلی نکالی گئی، ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار لوگوں نے شرکت کی، جو نائب صدر زمبابوے ایمرسن کی تدبیر تھی۔
ایمرسن کا یہ الزام کہ موگابے خاندانی جمہوریت یعنی نئے دور کی بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں، لوگ سڑکوں پر آگئے اور اس طرح فوج اور نائب صدر کے مقاصد پورے ہونے لگے، اس لیے اتوار 19 نومبر کو جو میٹنگ دارالحکومت ہرارے میں جنوبی افریقا کے صدر زمبابوے کے کمانڈر انچیف اور موگابے کے درمیان جاری تھی، رابرٹ موگابے کا پلڑا ہلکا رہ گیا اور فوج اپنی ہوشیاری میں زیادہ بہتر پوزیشن میں آگئی اور بالآخر رابرٹ موگابے کو قتدار چھوڑنا پڑا۔ مگر زمبابوے کی آزادی کے لیے جو قربانیاں اس نے دی ہیں وہ رائیگاں نہ جائیںگی۔ مگر زمبابوے کے نائب صدر ایمرسن نے فوج کو جو راستہ دکھادیا ہے وہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ کا تسلسل بھی بن سکتا ہے۔
رابرٹ موگابے تقریری محاذ پر کافی مقبول رہے ہیں، ان کی تقریر طنز و مزاح کا مرقع ہوتی تھی اور بعض جملے لوگوں کو بہت پسند آتے تھے، اس کے چند جملے پیش خدمت ہیں۔ کرکٹ کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ کھیل نظم و ضبط کا کھیل ہے جو لوگوں کو جینٹل مین بنادیتی ہے۔ برطانیہ کے متعلق کہتے ہیں یہ چھوٹے گھر والوں کا ملک ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ میں برٹش گورنمنٹ سے مکے بازی کرتا رہوں گا۔ رابرٹ موگابے کا ٹرمپ کے متعلق کہنا ہے کہ مسٹر ٹرمپ آپ ایسا باجا (ٹرمپیٹ) بجاؤ جس کی آواز میں میل محبت اور بھائی چارہ ہو، قتل و غارت نہ ہو۔
یہ بات تو سامنے آتی ہے کہ اقتدار کی طوالت خود ایک فتنے کا آغاز ہے، اس سے اجتناب کی ضرورت ہے، خواہ ملک کا کتنا ہی بڑا اور اہم لیڈر کیوں نہ ہو، اس کو اقتدار کی طوالت سے اجتناب کی ضرورت ہے، اور یہی سب آخر کار موگابے کا بھی انجام ہوا اور اب ایمرسن نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔