’اسٹیٹس کو‘ بچانے کی بھرپور کوشش
جمہوریت بچاؤ کا نعرہ اس شدت سے لگایا جاتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسمان گرنے والا ہے.
پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار حالات ایسے پیدا ہورہے ہیں کہ 'اسٹیٹس کو' کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ وہ طاقتیں جو 70 سال سے اس ملک کو اپنی جاگیر کی طرح چلا رہی تھیں پہلی بار یہ خطرہ محسوس کر رہی ہیں کہ شاید اب ان کا راج پاٹ جاری نہ رہ سکے، اس خطرے نے انھیں اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کی تیاری کرتی نظر آرہی ہیں۔
اسٹیٹس کو کی حامی طاقتوں کا سب سے بڑا ہتھیار جمہوریت ہے، جب بھی ان کے اقتدار کو کسی طرف سے خطرہ لاحق ہوجاتا ہے وہ جمہوریت کا پرچم تھامے میدان سیاست میں کود پڑتی ہیں۔ 2014ء میں عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کی وجہ 'اسٹیٹس کو' کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا، اس امکانی تبدیلی نے اسٹیٹس کو کی حامی طاقتوں کو اس قدر خوفزدہ کردیا تھا کہ وہ اپنے نام نہاد اختلافات کو ختم کرکے متحد ہوگئیں اور جمہوریت کا پرچم تھام کر پارلیمنٹ میں دھرنا دے دیا اور عوام کو دہائی دینے لگیں کہ وہ جمہوریت کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
جمہوریت بچاؤ کا نعرہ اس شدت سے لگایا جاتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسمان گرنے والا ہے، حالانکہ مسئلہ صرف اقتدار بچانے کا ہوتا ہے۔ 2014ء میں اقتدار مافیا نے ''جمہوریت خطرے میں ہے'' کا نعرہ لگا کر ان تمام طاقتوں کو ایک مرکز پر جمع کرلیا جو جمہوریت کی بھینس کا دودھ پی رہی تھیں۔
تبدیلی کی کسی تحریک میں کسی نہ کسی کو تو آگے آنا پڑتا ہے، 2014ء میں عمران خان اور طاہر القادری نے یہ ذمے داری پوری کی لیکن اس کی غلط حکمت عملی کی وجہ اسٹیٹس کو کی حامی طاقتوں کو 'اسٹیٹس کو' بچانے کا موقع مل گیا اور وہ موقع ہاتھ سے نکل گیا جو 70 سالہ 'اسٹیٹس کو' کو توڑنے کا سبب بن سکتا تھا۔ اس حادثے کے بعد اسٹیٹس کو کی حامی اور محافظ طاقتیں چوکنی ہوگئی ہیں اور بہت اونچی آواز میں جمہوریت بچاؤ کے نعرے لگا رہی ہیں۔
اس حوالے سے سب سے پہلے 'اسٹیٹس کو' کو سمجھنے کی ضرورت ہے، لوٹ مار کا وہ نظام جو چند خاندانوں تک محدود ہوتا ہے، یہ خاندان سیاست اور اقتدار پر اس طرح پنجے گاڑ کر بیٹھتے ہیں کہ سیاست اور اقتدار ان کی جاگیر بن جاتا ہے اور اسے محفوظ بنانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ نے اس حوالے سے جمہوریت کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار بنالیا ہے اور اقتدار کو ہمیشہ جمہوریت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی ہے۔ سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کا 70 سالہ قبضہ برقرار رکھنے کی مسلسل کوشش وہ اسٹیٹس کو ہے جس کو توڑنے کی ضرورت ہے۔
ہماری اپوزیشن بھی اس 'اسٹیٹس کو' کو توڑنے کی بات کر رہی ہے، لیکن 70 سالہ اسٹیٹس کو صرف ''زبانی کلامی جدوجہد'' سے نہیں ٹوٹے گا بلکہ اس کے لیے میدان میں آنا پڑے گا اور ان طاقتوں کا کھل کر ساتھ دینا پڑے گا جو 70 سالہ اشرافیائی سیٹ اپ کو توڑنا چاہتی ہیں۔ یہ جدوجہد کسی فرد، افراد یا خاندان کے خلاف نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کے خلاف ہے جس میں عوام اور جمہوریت کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن نہ عوام کے پاس کوئی اختیار ہوتا ہے نہ جمہوریت عوامی ہوتی ہے۔
سیاسی پارٹیوں کا بنیادی مقصد حصول اقتدار ہی ہوتا ہے کیونکہ اقتدار کے بغیر کوئی جماعت اپنے منشور پر عملدرآمد نہیں کرسکتی اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار کو عوام کی بھلائی اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں یا عوامی دولت کی لوٹ مار اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب 70 سال سے عوام کی زبوں حال معاشی بدحالی کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
دنیا بھر میں جمہوریت کے چیمپئن لوٹ مار کی اربوں کی دولت چھپانے کے لیے بیرون ملک ایسے بینکوں کو استعمال کرتے ہیں جہاں ان کی لوٹی ہوئی دولت محفوظ رہتی ہو، اس حوالے سے سوئس بینک بہت مشہور ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے آف شور کمپنیوں کی شکل میں مال حرام کو محفوظ کرنے کا ایک اور لاکر مہیا کردیا تھا۔ صحافیوں کی ایک بڑی تنظیم نے دن رات محنت کرکے آف شور کمپنیوں کا پتہ لگا لیا اور ان کمپنیوں کو استعمال کرنے والوں کی فہرست دنیا کے سامنے پیش کردی، اس فہرست کے مطابق پاکستان کے چار سو سے زیادہ محترمین پاناما لیکس میں شامل ہیں جن میں ایک حکمران خاندان بھی سرفہرست ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان اس حوالے سے ڈنکا نہ پیٹتا تو یہ معاملہ اتنی شدت اختیار نہ کرتا۔ لوٹی ہوئی دولت کو چھپانے کے لیے جن آف شور کمپنیوں کو استعمال کیا جاتا رہا ان میں دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے بعض حکمران بھی شامل تھے لیکن ان حکمرانوں نے جمہوریت کے پردے میں اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اپنے عہدوں سے ازخود مستعفی ہوکر اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا۔
ناجائز اور غریب عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو محفوظ کرنے کا دوسرا طریقہ ترقی یافتہ ملکوں میں مہنگی جائیدادیں خریدنا ہے، اس حوالے سے لندن بڑا معروف شہر ہے جہاں ایک ایک فلیٹ کی قیمت 25-25 ارب بتائی جاتی ہے، پاناما لیکس کے انکشافات میں ایک انکشاف یہ بھی ہوا کہ پاکستان کے شہزادوں شہزادیوں نے اپنی دولت ان مہنگے فلیٹوں کی خریداری میں بھی لگائی ہے اور کئی کئی فلیٹوں کے مالک بن بیٹھے ہیں۔
یوں پاکستانی عوام کی دولت بیرون ملک بھجوائی گئی اور محفوظ کی گئی۔ لوٹ مار اور اقتدار پر مسلسل قبضے کو جمہوریت کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی فکری ایلیٹ جمہوریت کے پردے میں چھپائی جانے والی اشرافیائی آمریت کو جمہوریت سمجھ کر اس کی حمایت کر رہی ہے۔
ملک کا کوئی ذی شعور شخص آمریت کی حمایت نہیں کرسکتا کیونکہ آمریت عوام سے ان کے پیدائشی حقوق چھین لیتی ہے اور اظہار رائے پر پابندی لگا دیتی ہے لیکن فوجی آمریت اپنے آپ کو کسی لبادے میں چھپا نہیں سکتی جب کہ اشرافیائی آمریت اپنے آپ کو جمہوریت کے پودے میں بڑی مہارت سے چھپا لیتی ہے۔
1972ء سے 2017ء کے دوران صرف 20 سال فوجی آمریت ملک پر مسلط رہی باقی 45 سال میں صرف دو خاندان باری باری اقتدار میں آتے اور جاتے رہے، کیا ان 45 سال کے دوران عوام کی زبوں حالی معاشی بدحالی میں کمی ہوئی؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ ان کی زبوں حالی اور معاشی بدحالی میں بے تحاشا اضافہ ہی ہوا، البتہ برسر اقتدار طبقات کروڑ پتی سے ارب پتی بن گئے۔ کیا ہم اسے جمہوریت کہیں یا اشرافیہ کی بدترین آمریت؟
عدلیہ نے پہلی بار اشرافیہ کا گلا پکڑا ہے، اشرافیہ کو احساس ہے کہ اگر ایک بار 70 سالہ اقتدار چھن گیا تو دوبارہ اقتدار حاصل کرنا آسان نہیں رہے گا۔ جو لوگ، جو جماعتیں، جو سیاسی رہنما اس کرپٹ نظام میں تبدیلی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں وہ اچھی طرح اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ اگر انھیں اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو وہ ملک میں عوامی جمہوریت کے فروغ اور عوام کے مسائل سنجیدگی اور ایمانداری سے حل کریں، اگر ایسا نہ ہوا تو اب محض اقتدار کا کھیل نہیں کھیلا جائے گا بلکہ پاکستان میں انقلاب فرانس کی تاریخ دہرائی جائے گی۔