راہول گاندھی کے سامنے چیلنج
راہول گاندھی نے بھی ایک مرتبہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والے متنازعہ آرڈیننس کی مخالفت کی تھی
دنیا بھر کی سیاسی پارٹیوں میں بعض چیزیں مشترک ہیں۔ جہاں تک پارٹی کی سربراہی کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ ''ہائی کمان'' کرتی ہے۔ راہول گاندھی کو کانگریس پارٹی کا صدر بنانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئی ہیں تاہم اس بات کا اہتمام سونیا نے یقیناً کر دیا کہ اب پارٹی کی سربراہی انھی کے بیٹے کو ملے۔ جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو میں نے برطانوی کنزرویٹو پارٹی میں بھی قیادت کی تبدیلی کا بہت قریب سے جائزہ لیا تھا۔ مسز مارگریٹ تھیچر وزیراعظم تھیں لیکن ان کو منصب سے دستبردار ہونے کا کہا گیا اور انھوں نے پارٹی کے احکامات پر عمل کیا۔
میں نے خود مسز تھیچر سے پوچھا تھا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ ان کے بچے جنوبی افریقہ میں بزنس کر رہے تھے اور ان کا اس سیاسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مسز تھیچر نے کہا کہ انھوں نے بچوں کو دور بھیجا تا کہ ان پر اقربا پروری کا الزام نہ لگایا جا سکے۔ انھوں نے بتایا کہ خاکستری سوٹوں والے آپ کے کندھے پہ تھپکی دیتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اب آپ کرسی چھوڑ دیں گے۔
بھارت میں سونیا گاندھی کے لیے شور اٹھا کہ وہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیں لیکن انھوں نے اپنے وفادار منموہن سنگھ کو منتخب کر لیا۔ یہ ایک کھلا راز تھا کہ حکومت کا نظام سونیا گاندھی کی رہائش 10جنپتھ روڈ سے چلایا جاتا تھا۔ خفیہ فائلیں سب سے پہلے سونیا کی رہائش گاہ پر جاتیں۔جنھیں ان کا پولیٹیکل سیکریٹری احمد پٹیل سونیا کی منظوری کے لیے بھیجتا۔
حتیٰ کہ من موہن سنگھ کو لوگوں نے حادثاتی وزیراعظم کہنا شروع کر دیا اور اس کے پریس آفیسر نے ایک کتاب لکھی جس میں بھی اس تاثر کی تصدیق کی گئی ہے۔اخبارات میں جو رپورٹیں چھپتی تھیں ان میں تصدیق کی جاتی تھی کہ وزیراعظم محض ایک کٹھ پتلی ہیں اور ان کے نام پر حکومت 10 جنپتھ سے چلائی جاتی ہے۔
حقیقت میں حتیٰ کہ راہول گاندھی نے بھی ایک مرتبہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والے متنازعہ آرڈیننس کی مخالفت کی تھی جس میں قابل مواخذہ اراکین پارلیمنٹ کے خلاف فیصلہ مکمل طور پر احمقانہ تھا اور مزید کہا کہ ہماری حکومت نے جو کیا غلط ہے۔ یو پی اے کی حکومت اور وزیراعظم من موہن کی طرف سے جو کارروائی کی گئی وہ زبردست خجالت کا باعث بنی۔
یہ الگ بات ہے کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور دیگر حکومتی اراکین سب کے سب من موہن سنگھ کے ساتھ کھڑے رہے لیکن اس وقت تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ کئی اور مواقعے پر بھی وزیراعظم کو پارٹی کے اراکین نے تضحیک کا نشانہ بنایا۔ ان میں وہ بھی شامل تھے جن کو پارٹی کے داخلی دائرے میں شمار کیا جاتا تھا۔ بدقسمتی کی بات تھی کہ خود من موہن سنگھ کو بھی محسوس ہوتا تھا کہ وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی کو راہول گاندھی کے لیے گرم رکھے ہوئے ہے۔
راہول گاندھی کے پارٹی کی صدر کی حیثیت سے نامزدگی کسی کے لیے بھی باعث حیرت نہیں لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے لیے خاندانی سیاست کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کیونکہ ملک میں کانگریس کے لیے اسی خاندان کا نام زیادہ قابل قبول ہے۔ پارٹی کے سرکردہ افراد کی آنکھوں میں راہول کی بہن پریانکا وادرا زیادہ بہتر چوائس ہے۔ لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سونیا گاندھی کے سامنے یہ بات کر سکے جس نے کہ اپنے بیٹے کو پارٹی کی سربراہی کے لیے چنا ہے۔
واضح رہے کہ اٹلی میں بھی وراثت بیٹے کو ہی منتقل ہوتی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا راہول اس اہم ترین منصب کی ذمے داریاں پوری کر سکے گا؟ مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب لال بہادر شاستری کی اچانک وفات کے بعد کانگریس کے صدر کامراج نے پنڈت نہرو کی بیٹی اندرا کو وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز کر دیا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آخر انھوں نے اندرا کو کیوں وزیراعظم بنایا؟
کامراج نے کہا کہ جواہر لعل نہرو نے اپنی وفات سے پہلے اشارہ دیا تھا کہ ان کے جانشین شاستری ہونگے۔ اس پر کامراج نے کہا کہ اندرا گاندھی کیوں نہیں ہو گی تو نہرو نے جواب دیا کہ ابھی نہیں۔ وزارت عظمیٰ کے ایک اور امیدوار مرار جی ڈیسائی تھے جو اندرا گاندھی کو وزیراعظم بنانے کے حق میں نہیں تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے کے لیے بھی انتخاب کروایا جائے۔ پارٹی کے صدر اور دیگر سرکردہ اراکین مرار جی ڈیسائی کی مخالفت کر رہے تھے جس کی وجہ سے وہ یہ دوڑ ہار گئے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کامراج کو بھی بالآخر راستے سے ہٹا دیا گیا۔
میں اس زمانے میں ان سب لوگوں کے بہت قریب تھا چنانچہ میں نے کامراج سے پوچھا کہ انھوں نے مرار جی ڈیسائی پر اندرا گاندھی کوکیوں ترجیح دی؟ ان کا جواب تھا کہ مرار جی ڈیسائی بہت ہٹ دھرم تھے اور وہ افہام و تفہیم کے اصول پر یقین نہیں رکھتے تھے۔راہول کی کانگریس کی صدارت اس وقت عمل میں آئی ہے جب یہ پارٹی بہت حد تک اپنی چمک دمک اور شان و شوکت کھو چکی ہے۔ اس کے باوجود پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ راہول گاندھی اپنی آبائی ریاست میں وزیراعظم نریندرا مودی کا جادو توڑ دیں گے جہاں پر کہ اگلے ماہ انتخابات شروع ہو رہے ہیں۔
یہ بات البتہ قابل فہم ہے کہ کانگریس نے گجرات میں اقتدار پر قبضے کے لیے ''پٹی داروں'' کے ساتھ سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کر لی ہے لیکن یہ بات ابھی دیکھنے والی ہے کہ کیا راہول اس صورت حال سے فائدہ اٹھا بھی سکیں گے یا نہیں۔ ماضی میں جب راہول کو انتخابی مہم کا انچارج مقرر کیا گیا تھا تو مدھیہ پردیش، ہریانہ اور اتر پردیش میں وہ بری طرح ناکام رہے تھے، جہاں کانگریس نے سماج وادی پارٹی کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ کر رکھی تھی۔ بالفاظ دیگر اب جب کہ راہول کو پارٹی صدر بنا دیا گیا ہے تب بھی وہ پارٹی کے لیے کوئی خاص کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہیں گے۔
اصل مصیبت یہ ہے کہ پارٹی میں بہت بڑے بڑے نام اور بہت قابل لوگ بھی موجود ہیں لیکن چونکہ خاندانی سیاست کانگریس مجبوری ہے اس لیے راہول کو آگے کھڑا کیا گیا ہے۔ راہول کے لیے سب سے بڑا چیلنج گجرات کے انتخابات کا ہو گا۔ درحقیقت تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے یہی انتخاب کلیدی حیثیت کا حامل ہے اور ان میں حکمران بی جے پی بھی شامل ہے۔ راہول کے لیے ریاستی انتخابات بھی ''لٹمس ٹیسٹ'' کی حیثیت رکھیں گے۔
وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی اس امتحان سے باہر نہیں ہیں۔ وہ اپنی جیت کے لیے تمام تر قوت استعمال کریں گے اگرچہ عام انتخابات کے لیے ابھی دو سال کا عرصہ پڑا ہے لیکن انھیں ایک ایک پل کو اپنے حق میں استعمال کرنا ہو گا اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہوا کا رخ کدھر کو ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)