پاناما پیپرز میں شامل 436 پاکستانیوں کی تحقیقات کیلیے نیب اور وفاق کو نوٹس
آمدن سے زائداثاثوں کی تحقیقات نیب کا کام ہے، بدعنوانی ہرادارے میں سرایت کرگئی، جسٹس اعجازافضل
سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز میں شامل 436 پاکستانیوں کی تحقیقات کیلیے دائر درخواستوں پر وفاقی حکومت اور نیب کو نوٹس جاری کردیا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں2رکنی بینچ نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور طارق اسدکی درخواستوں کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ عدالت نے قرار دیاکہ بدعنوانی ہر ادارے اور محکمے میں سرایت کرچکی ہے، ایک یا 2افرادکے خلاف کارروائی سے کرپشن کی لعنت ختم نہیں ہوگی، اسے جڑ سے اکھاڑنے کیلیے ہمہ گیر اور حقیقی معنوںمیں اقدامات کرنا ہوں گے۔
درخواست گزارطارق اسد نے عدالت کو بتایا کہ ان کی درخواست کو پاناما کیس میں نہیں دیکھا گیا کیونکہ ان کا معاملہ کرپشن اور منی لانڈرنگ سے متعلق ہے۔کرپشن کا خاتمہ عوامی مفادکا معاملہ ہے اور آئین کے آرٹیکل184/3 کے زمرے میں آتاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ میں بھی پاناما لیکس بینچ کا حصہ تھا، آپ سے پوچھ کردرخواست کوڈیل نہیں کیا گیا تھا۔
طارق اسد نے کہاکہ درخواست میں وفاق اور وزارت داخلہ کے علاوہ عمران خان کوبھی فریق بنایا ہے کیونکہ اس وقت بھی دھرنوںکی مصیبت کا سامنا تھا اورآج بھی ہم دھرنوںکا سامنا کررہے ہیں۔ ٹیکس بچانے کیلیے آف شورکمپنیاں بنائی جاتی ہیں، منی لانڈرنگ اورکرپشن سے پیسہ لوٹ کر آف شورکمپنیاں بنانے والوںکے خلاف کارروائی کی جائے۔
جسٹس اعجازافضل خان نے کہاکہ ہم کیس سن کر فیصلہ کریںگے۔ فاضل جج نے وکیل سے استفسارکیاکہ آپ کا مقدمہ ظاہر آمدن سے زائد اثاثوں کے مالک افرادکے خلاف کارروائی کا ہے؟ فاضل جج نے کہاکہ آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات نیب کا کام ہے، آمدن سے زائد اثاثوںکا تعین کرنے کا کام ہمارا نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں2رکنی بینچ نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور طارق اسدکی درخواستوں کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ عدالت نے قرار دیاکہ بدعنوانی ہر ادارے اور محکمے میں سرایت کرچکی ہے، ایک یا 2افرادکے خلاف کارروائی سے کرپشن کی لعنت ختم نہیں ہوگی، اسے جڑ سے اکھاڑنے کیلیے ہمہ گیر اور حقیقی معنوںمیں اقدامات کرنا ہوں گے۔
درخواست گزارطارق اسد نے عدالت کو بتایا کہ ان کی درخواست کو پاناما کیس میں نہیں دیکھا گیا کیونکہ ان کا معاملہ کرپشن اور منی لانڈرنگ سے متعلق ہے۔کرپشن کا خاتمہ عوامی مفادکا معاملہ ہے اور آئین کے آرٹیکل184/3 کے زمرے میں آتاہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ میں بھی پاناما لیکس بینچ کا حصہ تھا، آپ سے پوچھ کردرخواست کوڈیل نہیں کیا گیا تھا۔
طارق اسد نے کہاکہ درخواست میں وفاق اور وزارت داخلہ کے علاوہ عمران خان کوبھی فریق بنایا ہے کیونکہ اس وقت بھی دھرنوںکی مصیبت کا سامنا تھا اورآج بھی ہم دھرنوںکا سامنا کررہے ہیں۔ ٹیکس بچانے کیلیے آف شورکمپنیاں بنائی جاتی ہیں، منی لانڈرنگ اورکرپشن سے پیسہ لوٹ کر آف شورکمپنیاں بنانے والوںکے خلاف کارروائی کی جائے۔
جسٹس اعجازافضل خان نے کہاکہ ہم کیس سن کر فیصلہ کریںگے۔ فاضل جج نے وکیل سے استفسارکیاکہ آپ کا مقدمہ ظاہر آمدن سے زائد اثاثوں کے مالک افرادکے خلاف کارروائی کا ہے؟ فاضل جج نے کہاکہ آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات نیب کا کام ہے، آمدن سے زائد اثاثوںکا تعین کرنے کا کام ہمارا نہیں۔