کامیابی کا راستہ

کیا ہمارے لیے صرف دنیاوی کام یابیاں معنی رکھتی ہیں، اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہم کچھ نہیں کرسکتے؟

ذرا دیکھ تو۔ مگر غافل نادان انسان سماعت ہوتے ہوئے بھی رب کی صدائے محبت سننے سے قاصر ہے۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
ہم ہر وقت سوچتے رہتے ہیں کہ کاش یوں ہوجاتا یا پھر یوں ہوجاتا۔ اپنی ذات میں ہی دانش ور بنے پھرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا یا پھر ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

کچھ بھی ہماری مرضی کے بغیر ہو تو ہمارے لبوں پر فورا شکوے آجاتے ہیں۔ گویا ہم نے اپنی مرضی کی زندگی کو ہی زندگی سمجھ لیا ہے۔ دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں ایک وہ جو اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عموما کوئی بھی انسان ہو اپنی مرضی کے مطابق جینا پسند کرتا ہے۔ چوں کہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے لیے زندگی کا ایک مذہبی مقصد ضرور رکھا گیا ہے۔

یہ بات ان لوگوں کی ہے کہ جو کسی نہ کسی مذہب کے پیروکار ہوں۔ مگر ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں جو صرف اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کو ہی دنیا میں آنے کا مقصد سمجھتے ہیں۔ بہ طور مسلم ہمارے لیے سزا اور جزا پر ایمان ہی ہمارے مسلمان ہونے کا ایک اہم جزو ہے اس کے باوجود بھی یہ خواہش کہ ہم آزاد ہوں اور ہم اپنی مرضی کی زندگی جئیں یقینا عجیب بات ہے۔ موجودہ دور میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اوپر والے کی مرضی سے ہٹ کر اپنی موج مستی میں رہتے ہیں۔

یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہمارا رب ہمیں اپنی ہی خواہشوں میں الجھا دیکھ رہا ہے۔ وہ مالک تم سے مخاطب ہوکر کہتا ہوگا ''اے میرے نادان بندے! ذرا ایک نظر میری جانب بھی اسی محبت سے دیکھ تو سہی جس محبت سے میں تجھے دیکھ رہا ہوں۔ ایک لمحہ ہی سہی اپنی خود ساختہ الجھنوں سے نگاہ ہٹا کر دیکھ تیرے لیے ہی خیر کر رہا ہوں۔ ذرا دیکھ تو تجھے کیسے کیسے تھام رہا ہوں۔ جو تجھے مشکل لگتی ہے وہ آسانی ہے۔ جس پر اشک بہا رہا ہے اس کا راز حکمت اگر عیاں کر دوں تو تیرے یہ دکھ کے آنسو خوشی کے آنسو بن جائیں۔ تجھے میں نہیں دکھتا؟


ذرا دیکھ تو۔ مگر غافل نادان انسان سماعت ہوتے ہوئے بھی رب کی صدائے محبت سننے سے قاصر ہے۔ بصارت ہوتے ہوئے بھی اس کا جلوۂ محبت نہیں دیکھ پارہا۔ اپنی خواہش کے حجاب میں مبتلا اللہ کی محبت سے حجاب میں رہ جاتا ہے۔ ہیرے چھوڑ کر پتھروں میں الجھا ہوا ہے۔ ان سے قدر پانے کو ترستا ہے مگر جو اصل قدردان ہے اس کی قدر سے نا آشنا رہ جاتا ہے۔ ایک ماں سے بچے کا رونا نہیں دیکھا جاتا مگر ہمارا رب ہم سے ستّر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ جب ہمارا رب ہم سے اتنی محبت کرتا ہے تو ہمیں مشکلات میں گھرا کیسے چھوڑ دے گا۔

جو لوگ اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں وہ تو جی ہی رہے ہیں تاہم یہاں ضروری یہ ہے کہ ہمیں اپنے رب کی مرضی کے مطابق جینا ہے۔ اور اس جینے میں کسی قسم کی کوئی پریشانی یا مشکلات نہیں ہیں۔ فرمان الٰہی کا مفہوم ہے: ''میں نے جن اور انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔'' (القرآن) جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے تو وہ ہمیں کبھی اکیلا بھی نہیں چھوڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔'' (القرآن)

ایسا ہرگز نہیں کہ ہم مشکلات میں نہیں جی رہے ہیں، لیکن ہمیں اپنی اوقات سے زیادہ مشکلات نہیں ملتیں۔ اللہ تعالیٰ تو ہم سے محبت کرتا ہے۔ ہمیں اس محبت کو سمجھ کر اس کی رضا میں راضی ہونا چاہیے۔ یہ سوچنے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ ہم مشکلات میں ہیں تو ہم کیوں اللہ کے پسندیدہ بندے بنیں۔ کیوں کہ ہم اللہ کے پسندیدہ تو روز اول سے ہی ہیں۔ بس اب خود کو اس مالک کے فرامین میں ڈھالنے کی دیر ہے۔ کوئی بھی چیز آپ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ نہ صبح کا اٹھ کر اپنے مالک کے سامنے سر بہ سجدہ ہونا اور نہ بھوکا پیاسا رہنا کہ اس مالک کی خوش نودی حاصل کرنا۔ ایک پل کو سوچیں کہ اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے مکمل جسم اور صحیح سالم پیدا نہ کیا ہوتا تو آپ اٹھنے کے بہ جائے پڑے ہی رہتے۔ اگر آپ کو ایسی حالت میں پیدا کیا جاتا کہ آپ کو کئی کئی دنوں کا کھانا میسر نہ ہوتا تو آپ کو کچھ پل بھوکا رہنے کے بہ جائے پورا پورا دن اور کئی کئی راتیں بھوک میں کاٹنی پڑتیں۔

دنیا میں کوئی ہم پر تھوڑا سا احسان کردے تو ہم جب بھی بلائے حاضر ہوجاتے ہیں جس مالک نے ہم پر بے شمار انعام کیے کیا ہم اس کے لیے پانچ نمازوں کا وقت نہیں نکال سکتے، تھوڑا سا وقت تلاوت کے لیے نہیں نکال سکتے۔ کاش ہم جان جائیں کہ دعا کا مطلب ہماری آنے والی مشکلات کا کفارہ ہے۔ کاش ہمیں پتا ہو کہ صدقہ ہمارے مال کو پاک صاف کرنے کا سبب ہے۔ وہ مالک ہمارے لیے کتنا کچھ بہتر کر رہا ہے اور ہم اسے اپنے لیے مشکلات کا سبب سمجھ رہے ہیں۔

کیا ہمارے لیے صرف دنیاوی کام یابیاں معنی رکھتی ہیں، اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہم کچھ نہیں کرسکتے؟ محض کلمہ پڑھنا ہی ہمارے ایمان کے لیے کافی نہیں بل کہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ نیکیاں کرنے سے جنت ملتی ہے اور جن کاموں سے منع کیا گیا وہ کام کرنے سے جہنم۔ تھوڑی سی مشقت کے بدلے ابدی راحتیں ملیں یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ کیوں نہ ہم اپنی زندگی میں نماز اور قرآن کو اپنی عادت بنالیں۔ عادت وہ نہیں جو عارضی ہو یا مطلب کے لیے ہو بل کہ اللہ کا خوف اور حصول جنّت والی عادت ہو۔
Load Next Story